AhnafMedia

مشتری ہوشیار باش

Rate this item
(1 Vote)

مشتری ہوشیار باش

مولانا محمد کلیم اللہ

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کو اللہ پاک نے جن جامع صفات سے نوازا ہے وہ بہت کم کسی میں یکجا ہونگی بیک وقت احناف بلکہ اہل السنۃ والجماعۃ کے وکیل ہیں تو ایک شعلہ نوا خطیب بھی ہیں ،آپ صاحب قلم ہیںاور آپ کی تحقیق رقم قلم نے باطل کے خرمن پر جو بجلیاں گرائیں ہیںآج بھی باطل کے خیموں سے اٹھنے والے دھویں کے بگولے اس پر دلالت کر رہے ہیں ۔ تصوف وطریقت کے سلاسل اربعہ میں منتھی بھی ہیں ۔ آپ جہاں ایک طرف مسلکی اور تحقیقی جماعت کے قائد ہیں تو وہاں آپ کا اپنے اکابر سے نیازمندانہ رویہ موجودہ دور کے قائدین کی صف میں آپ کو ممتاز رکھتا ہے ۔ عالمی مسائل پر جہاںکڑی نظر رہتی ہے تو وہاں گھریلو مسائل کو بھی کسی اور کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے بلکہ احسن انداز میں تمام مسائل کو حل کرنے کی مومنانہ فراست آپ کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی ہے ……

قصہ کوتاہ!!! آپ کے مسلکی خلوص کا یہ عالم ہے کہ آپ زمین پر نہیں بلکہ اہل اسلام کے دلوں میں بستے ہیں لوگ آپ پر جانیں نچھاور کرنا اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھتے ہیں مثبت انداز میں اپنے عقائد ونظریات اور مسائل ودلائل کی تعلیم اہل السنۃ والجماعۃ سے وابستہ افراد کے لیے آپ کا طریقہ کار مشعل راہ ہے اور باطل پر چھائی ہوئی پرچھائیاں اوران کے بجھے ہوئے لٹکتے چہرے ،بے بسی میں حواس باختہ ،معطل الاذہان اور مفقودالعقل شیطانی چیلے جب دلائل کے میدان میں ناکام ہوئے تو اور حیلے بہانے تراشنے لگے اور چند نامکمل اخباری تراشوں کا سہارا لے کر آپ کے کاز اور مشن میں روڑے اٹکانے لگے ۔لیکن !آواز سگاں سے قافلے کب رکے تھے ،جواب رکیں گے ؟ ؟؟

گزشتہ سال 2010میں مورخہ 23جنوری کو ایک متعصب کالم نگار مماتی ملاں ہمارے ایک موقر اخبار ’’روزنامہ اسلام ‘‘میں بے اعتدالی کی راہ چلتے ہوئے ’’اعتدال‘‘ کی ترغیب دیتے ہوئے اول فول کہہ گیا جسے بعد میں پورے ملک میں باطل نے اپنا ہتھیار بنانے کی کوشش کی ۔لیکن بے سود …اس لیے کہ 27جنوری 2010 کو ادارہ نے اس پر اعتذار لگایا اور اس نادانستہ دل آزاری پر معذرت بھی کی ۔لیکن باطل کے پیروکار آج بھی لاتقربو الصلوۃ کو تو پیش کرتے ہیں آگے والے حصے کو پیش نہیں کرے ۔پورے ملک میں باطل نے یہ اودھم مچا رکھی ہے کہ وہ 23جنوری 2010والا اخباری تراشا اٹھا کرمسلسل فتنے اور فساد کو فروغ دے رہا ہے اس کے سد باب کے لیے ہم نے وہ اخباری تراشے قافلہ حق میں نقل کردیے ہیں تاکہ قارئین خود فیـصلہ کریں کہ بت فروش کون ہے اور بت شکن کون ہے ؟؟ پہلے 23جنوری 2010 کو روزنامہ اسلام میں شائع ہونے والا متعلقہ حصہ پڑھیں اس کے بعد 27جنوری 2010کو اس پر جو ادارہ روزنامہ اسلام کا معذرت نامہ ہے وہ پڑھیں اور پھر جامعۃالرشیدمیں مولانا کا تخصصات کے طلباء میں بیان کی خبر وا گزارکریں اور آخر میں مولانا کا وہ تفصیلی انٹر ویو جو روزنامہ اسلام کی ٹیم نے لیا ہے اسے بھی ضرور پڑھیں ۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ بالترتیب ملاحظہ فرمائیں

23جنوری 2010: پنجاب میں اس وقت الیاس گھمن نامی ایک خطیب بھی بڑے جوشیلے اندازمیں چند ایک غیرمضر مکتبی اختلافات چوراہوں اور بازاروں میں اچھال رہے ہیں، ہم اس قسم کے نزاعی مسائل میں کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں رکھتے ہیں اور نہ اسے ضروری سمجھتے ہیں ، ممکن ہے ان کاہی موقف درست ہومگر یہ وقت اس قسم کے لایعنی مباحث ومسائل چھیڑنے کا نہیں ہے مجھے ایک معتبر ذریعے سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ مولانا کو جیل سے اس شرط پر رہائی ملی ہے کہ وہ دیوبندی مکتب فکر میںان مدرسی اختلافات کو ہوا دینے کے ایجنڈے پر کام کریں گے چنانچہ ان کی ساری توانائیاں اس کے لیے صرف ہورہی ہیں اور ان کی اپنی مسلمانی اور دوسروں کی نامسلمانی کے دعوے داروں کاحال بقول اقبال یوں ہے کہ:

دل ہے مسلماں ، میرا نہ تیرا

تو بھی نمازی میں بھی نمازی

میں جانتا ہوں انجام اس کا

جس معرکے میں ملا ہو غازی

27جنوری 2010: (اعتذار)

روزنامہ اسلام کے24,23جنوری کے شماروں میں’’ سفر نامہ دھرتی ماں کے ساتھ‘‘ میں وسعت نظر اور اعتدال کی ترغیب کے ضمن میں بعض اکابر علماء کے طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے ۔ ادارے کی ہرگز یہ پالیسی نہیں ہے، چنانچہ اس سفرنامہ کی اشاعت کو فوری طور پر روک دیاگیاہے اور متعلقہ عملے کو بھی تنبیہ کی گئی ہے۔ ادارہ اس نادانستہ دل آزاری پر حضرات علماء کرام اور ان کے متوسلین سے معذرت خواہ ہے۔ادارہ

16جنوری 2011: ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے: مولانا محمد الیاس گھمن

کراچی(پ ر)وطن عزیز تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے علماء کرام کو عملی میدان میں نکل کر کام کرنا ہوگا مغربی شرپسند عناصر کی سازشوں کو خاک میں ملاتے ہوئے پاکستان اور دین حنیف کی حفاظت کرنی ہوگی جب کہ اس وقت ساری خفیہ طاقتیں اور تمام فرقہ باطلہ دین اسلام کا چہر ہ مسخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکیں لیکن عوام الناس کو صحیح راستہ فراہم کرنا علماء کرام اور مدارس کی ذمے داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے جامعۃ الرشید میں اسپیشل کورسز کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے کہا کہ حنفی مسلک اعتدال کا مسلک ہے اور اس وقت پوری دنیامیں اس پر عمل پیرا افرد کی تعداد سب سے زیادہے لیکن کچھ گمراہ کن طاقتیں مسلک حنفی کی تصویر کومسخ کرکے اپنے غلط عقائد کی اشاعت میں مصروف عمل ہیں جن کو روکنا حکومت اور علمائے کرام کے ذمے داری ہے مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کی جامعۃ الرشید آمد پر مفتی ابولبابہ شاہ منصور، مولاناسید عدنان کاکا خیل، مولاناانور غازی ، مفتی فیصل احمد، عبدالمنعم فائز، مولانااحسان الحق تبسم اور دیگر اساتذہ کرام نے استقبال کیا اوران کاشکریہ اداکیا۔

7 فروری 2011: اکابرکے حکم پر عقائد کی اصلاح شروع کی

انٹر ویو:محمد عبداللہ ساجد ۔محمد امیر معاویہ

(اتحاد اہل السنت والجماعت کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد الیاس گھمن کا روزنامہ اسلام سے گفتگو)

اسلام نے عقائد کی اصلاح پر بہت زور دیا کیونکہ عقیدہ ہی وہ بنیادی چیزہے جس کے درست ہونے پر اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور خوشنودی کے فیصلے فرماتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں کامیابیوں اور کامرانیوں کے فیصلے فرماتے ہیں اور دنیا اور آخر ت میں کامیابیوں اور کامرانیوں سے نوازتے ہیں بد قسمتی سے برصغیر میں انگریز کا بویا ہوا فرقہ واریت کا بیج آج تن آور درخت بن کر سامنے آچکاہے ۔پاکستانی قوم فرقہ واریت کے ناسورمیں جکڑی جارہی ہے اور عقائد کی بگاڑ کے لیے نت نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں عقائد کی اصلاح کے لیے اور امت میں اتحاد کی راہ ہموارکرنے کے لیے متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن ناظم اعلیٰ اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ انتہائی سرگرم ہیں چند روز پہلے وہ جامعۃ الرشید تشریف لائے جامعہ کے صحافت کے شرکاء نے آپ سے خصوصی انٹرویو کیاجو نذر قارئین ہے۔

سوال: مولانا!آپ کا مختصر تعارف کیاہے؟

جواب: 1969ء میں میری پیدائش ہے پرائمری تک میں نے اپنے گائو ں میں پڑھا مڈل سے فراغت کے بعد میں نے اپنے والد صاحب سے حفظ قرآن کریم شروع کردیا۔ سترہ پارے والد صاحب کے پاس پڑھے اس کے بعد تقریبا1982ء کے بات ہوگی جب میں گکھڑ منڈی جامع مسجد بوہڑ والی ضلع گوجرانوالہ میںامام اہل السنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے ہاں چلا گیا وہاں آزاد کشمیر کے قاری عبداللہ صاحب تھے ان کے پاس قرآن کریم حفظ کیا پھر درجہ اولیٰ سے درجہ ثالثہ تک جامعہ بنوریہ سائٹ ٹائون کراچی میں پڑھا اور درجہ رابعہ ، خامسہ اور سادسہ جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں پڑھے پھر جلالین والے سال افغان جہاد شروع ہوگیا۔

دوماہ تک مشکوۃ والا سال جامعہ خیر المدارس ملتان میں پڑھا باقی سال جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد چلا گیا دورہ حدیث شریف کے بعد 1993ء میں میر اپہلا سفر جنوبی افریقہ کا تھا اور زمیبامیں دو ماہ تدریس کی اور مختلف اسباق پڑھائے پھر اپنے اسفار کی وجہ سے مجھے واپس آنا پڑا اور 1993ء سے1996ء تک میری ساری سرگرمیاں تحریکی رہیں اور1994ء میں حرکۃ الجہاد الاسلامی اور حرکۃ المجاہدین کا اتحاد ہواحرکۃ الانصار کے نام سے مجھے پنجاب کا امیر مقرر کردیا گیا5 اگست1994ء کو سرگودھا میں ایک قتل کے سلسلے میں مجھے گرفتار کیاگیا دو سال تک میں جیل میں رہا۔ الحمدللہ عدالت نے مجھے باضابطہ طورپر بری کیا۔

1999ء میں دوبارہ گرفتار ہوگیا سالوں پرانے کیس میں۔ تین سال قید کاٹ کر الحمد للہ اس کیس سے بھی باعزت طور پر بری ہوا پھر میں نے اپنی علمی تحریکی زندگی کا آغاز7 اکتوبر 2002ء سے کیا میں جیل سے یہ فیصلہ کرکے آیا تھاکہ باہر جاکر عقائد ومسائل کی اصلاح کے لیے تحریکی صورت میں تجدیدی قسم کاکام کرنا ہے سب سے پہلے میں نے اس کے لیے اپنے گائوں کا انتخاب کیا اپنے گائوں میں’’ صراط مستقیم کورس‘‘ شروع کیا ۔اسکول وکالج کے طلباء کے لیے انہی دنوں میں جامعۃ الرشید میں اسی قسم کا سمر کورس شروع ہو رہا تھا اس لیے میں باقاعدہ طور پر حضرت مفتی محمد صاحب سے رابطہ میں رہتا تھا میرے ذہن میں تھا کہ پانچ پانچ سال کی بچیوں اور بچوں کی ذہنی اور فکری تربیت کروں گا اور چھوٹے بھائی کو اپنے گائوں کے حفظ کے بچے دے دیے میں نے بالکل ابتداء سے کام شروع کیا۔

اللہ رب العزت کو منظور یہی تھا کہ کام آگے بڑھے پھر مدارس کے طلباء کے لیے شعبان اور رمضان میں دورہ تفسیر پڑھانے کے لیے میں نے امام اہل السنت حضرت مولانا شیخ سرفراز خان صفدر اور وکیل اہل السنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب سے مشورہ کیا ان دونوں حضرات نے مجھے فرمایا کہ دور ہ تفسیر کے لیے جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا کے استاذ الحدیث حضرت مولانا منیر احمد منورؔ بہت مناسب رہیں گے۔ دو سال تک مولانا منیر احد منوؔر صاحب دورہ تفسیر پڑھاتے رہے دوسال بعد مجھے فرمایاکہ مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے اتحاد اہل السنت والجماعت قائم کی تھی عقائد ومسائل اہل السنت کے دفاع اور تحفظ کے لیے آپ کا تحریکی مزاج ہے اورآپ نے باقاعدہ تحریکی جماعت چھوڑ دی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اس طرف توجہ دیں ان کی دعوت کو میں نے رد کرنا مناسب نہیں سمجھا تو2005ء میں انہوںنے مجھے شوریٰ کے مشورہ کے ساتھ باقاعدہ طور پر اتحاد اہل السنت والجماعت کاناظم اعلیٰ مقرر کردیا اس کے بعد ہماری زندگی مستقل عقائد کی اصلاح کے لیے شروع ہوگئی ۔

اس دوران ہم نے ایک ادارہ مرکز اہل السنۃ والجماعۃ 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودھا کے نام سے قائم کیا میرا ارادہ تھا عقائد مسائل کے اثبات اور ان پر ہونے والے اعتراضات کے بارے میں کام کرنے کا، مشورہ کے ساتھ یہ طے ہواکہ وہاں مرکز میں درس نظامی نہ پڑھائی جائے کیونکہ پورے پاکستان میں الحمد للہ اس عنوان پر بہت کام جاری ہے دورۂ حدیث کے فارغ التحصیل فضلاء کے لیے ایک سالہ کور س رکھا جائے تاکہ وہ بھی ہمار ے ساتھ مل کر کام کریں اس وقت الحمد للہ ہمارے پاس65 علماء اس کورس میں شریک ہیں یہ پانچواں سال ہے۔

سوال: حضرت اچانک جہادی راستہ کوچھوڑ کریہ راستہ اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟

جواب: میرے ذہن میں یہ تھا کہ ہمارے ہاں جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر سیاسی کام ہو رہا ہے تبلیغی جماعت کے پلیٹ فارم پر دعوتی اور تبلیغی کام بھی جاری ہے لیکن باقاعدہ طور پر عوام الناس میں عقائد و مسائل کی اصلاح کے عنوان پر کام نہیں تھا جبکہ عقیدہ ایسی چیز ہے جو تمام لوگوں کے لیے ضروری ہے اس لیے ایسا کام کرنا چاہیے جس کی سب کو شدید ضرورت ہے ۔

تو اس کے لیے میں نے خود فیصلہ نہیں کیابلکہ بہت سارے پاکستان کے علماء ومشائخ سے مشاورت کی ہے تو مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ بہتر ہے اسی کام کو شروع کیاجائے۔

سوال: آپ نے ایک زندگی کو چھوڑ کر دوسری نئی زندگی میں قدم رکھا ہے تو کیا اس میں آپ کو مشکلات اور کچھ اپنے لوگوں کے طعنے برداشت کرنے پڑے یا نہیں؟

جواب: ایسانہیں ہے! کسی طرف سے بھی طعن وتشنیع نہیں کی گئی ہمارے مسلک کے جو قد آور لوگ ہیں شیخ الاسلام مولانامفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، وفاق المدراس العربیہ کے صدر حضرت مولاناشیخ سلیم اللہ خان صاحب اور ناظم اعلیٰ مولانا قاری حنیف جالندھری خانقاہ مشائخ میں حضرت حکیم اختر صاحب اور دیگر مشائخ یہ جتنے بھی لوگ ہیں مجھے کسی بھی طرف سے مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا یہ سب لوگ ہمارے کام کی تائید وحمایت کرتے ہیں۔

سوال: آپ نے جو عقائد و مسائل کی محنت کا کام شروع کیا اس کو عوام میں کتنی پذیرائی ملی؟

جواب: اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ اس وقت ہمارے ہاں لائبریریوں کا جال بچھا ہواہے اس سال تقریبا اسکول وکالج کے طلباء کے لیے چھٹیوں میں صراط مستقیم کورس آٹھ سو سے زیادہ مقامات پر ہوا ہے اور صراط مستقیم کورس کی کتاب اس سال بارہ ہزار چھپی ہے جو عوام نے خریدی ہے اس کے علاوہ جو ہمارے کام کی عوام میں مقبولیت اور پذیرائی ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ تقریباً اپریل تک ڈے ٹوڈے میرے پروگرام ہیں اور ایک دن میں کئی کئی پروگرام بھی رہتے ہیں۔

عوام سنتی ہے تو پروگرام رکھتی ہے اگر عوام ہمارے مشن کو نہ سنتی تو پروگرام اتنے زیادہ کیوں ہوتے۔ الحمدللہ! اللہ کا بڑا فضل ہے عوام نے خصوصاً اہل علم طبقہ نے اس کام کو بڑا قبول کیا ہے ۔

سوال: آپ کی جماعت میںدوسرے لوگوں پر تنقید بھی ہوتی ہے؟

جواب: اگر ہماری جماعت کے اصولی موقف کا مطالعہ کرلیاجائے اور کام کی نوعیت کودیکھ لیا جائے تو یہ سوال پیدا نہ ہو۔ ہمارا اصولی موقف یہ ہے کہ پوری امت کو فقہاء کے ساتھ جوڑ دیا جائے فقہاء سے جوڑیں گے تو امت جڑ جائے گی فقہاء سے توڑیں گے تو امت فرقہ واریت کا شکار ہو جائے گی ۔

پوری دنیا میں دیکھیں سب جگہ ائمہ اربعہ کی تقلید ہو رہی ہے اگر آپ امت کو ان چار فقہاء سے دور کردیں گے اور تقلید کا دامن چھڑالیں گے تو آج جو چار فرقے نظر آرہے ہیں کل ہزار ہوں گے جب ہر بندہ اپنی رائے دے گا اور اپنا اصول بیان کرے گا تواس اسے فرقہ در فرقہ کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ تو بہتر ہے کہ ہم امت کو ان چاروں فقہاء کے ساتھ جوڑدیں جن کے مجتہد ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اس سے امت جڑے گی۔ ان شاء اللہ ٹوٹے گی نہیں۔

سوال: جب حکمران سے پاکستان میں نفاذ اسلام کا مطالبہ کیاجاتاہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کس کا اسلام نافذ کریں بریلویوں کا دیوبندیوں، شیعوں کا یا اہلحدیثوں کا اسلام۔ہر فرقہ کا اسلام الگ الگ ہے آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

جواب: حکمران طبقے سے ہمارامطالبہ ہے کہ وہ صرف وہ اسلام نافذ کریں جس پر سارے متفق ہیں قرآن کریم پر تمام فرقے متحد ومتفق ہیں۔ قرآن وسنت ایسی چیز ہے جس پر تمام فرقے متحد ہیں اور اسے ہی برتری حاصل ہے تو اس کو نافذ کردیں۔

سوال: آپ نے کہاکہ ہمارا مقصد امت کو جوڑنا ہے لیکن بعض مقامات پر جن لوگوں کے خلاف آپ کام کررہے ہیں ان کے خلاف تو بہت کام ہے اور بعض مقامات پر ان کے ساتھ سیاسی اتحاد کیاہوا ہے۔ کیا یہ آپ کی پالیسی کے خلاف نہیں ہے؟

جواب: ہماری جماعت کی پالیسی ہے کہ بین الاقوامی مسائل میں یا اہم قومی ایشوز میں ہم تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں لیکن ان کو ساتھ رکھتے ہوئے جہاں تک عقیدہ واختلاف کا مسئلہ ہے ہم ان کو ساتھ لیتے ہوئے ان کو ساتھ رکھتے ہیں۔ مثلاً ناموس رسالت کا مسئلہ ہے اس میں ہم دیوبندی بریلوی اور اہلحدیث کی بحث نہیں چھڑیں گے۔ بلکہ سب متحد ہوکر اپنی آواز بلند کریںگے۔

فروعی اختلاف اپنی جگہ پر ہیں اور اصولی اختلاف اپنی جگہ پر ہیں۔ قومی مسائل میں جن میں سب کو اکٹھا ہونا ضروری ہے ہم ان میں الگ ہونے کے قائل نہیں ہیں ۔جس طرح اب قانون توہین رسالت کے حوالہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کیا ہے ہم بھی انہی کے ساتھ ہیں ہم ان کی تائید کرتے ہیں اور اپنے پروگراموںمیں ان کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔

سوال: آپ جس مشن کو لے کر کام کررہے ہیں کیا یہ ملکی سطح تک محدود ہے یا عالم اسلام اور دیگر ممالک میں بھی یہ کام ہے؟

جواب: یہ مشن پاکستان سمیت دیگر ممالک نے بھی اس کو سنا ہے اور وہاں یہ کام شروع ہے ورلڈ لیول پر لوگوں نے ہمیں سنا ہے اور ہمیں بتلا رہے ہیں یورپ اور عرب ممالک میں ہمارا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ لوگ انٹرنیٹ اور یوٹیوب کے ذریعہ سے ہمار اپیغام سن رہے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ سال میں نے سعودی عرب کے تمام بڑے شہروں کا دورہ کیاہے۔

سوال: آپ نے تاجروں کے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا اور اب دبئی کے لیے جا رہے ہیں۔ اس کے کیا مقاصد ہیں؟

جواب: مجھے سعودی عرب کا بزنس ویزہ مطلوب تھا اور ابھی جو دبئی کا سفر ہے اس میں ہماری نجی ملاقاتیں ہیں بہت سارے حضرات کی خواہش تھی کہ میں دبئی آئوں اور میں نے وہاں علماء اور مشائخ سے بھی ملاقاتیں کرنی ہیں۔

سوال: ہم پاکستانی قوم مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس کا فائدہ یورپ اور دیگر غیر مسلموں نے اٹھایا اور قانون توہین رسالت میں تبدیلی کا حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے ہم تمام کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کیوں نہیں کرتے تاکہ دوسرے لوگ ہمارے داخلی امور میں تو دخل اندازی نہ دیں ؟

جواب: آج پاکستان میں جو مختلف فرقے ہیں یہ فرقے انہوں نے ہی یعنی انگریزوں نے بنائے ہیں فرقہ واریت کا بیج انگریز نے ہی بویا ہے ہم اس فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ختم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ امت کو اصولوں پر لایا جائے اور اسلام کے طرز حیات پر انہیں اکٹھا کریں اگر ایسا ہوجاتا ہے تو بدگمانیاں اور دوریاں ختم ہوں گی اگر اسلاف سے ہٹیں گے تو بدگمانیاں اور بدکلامیاں پیدا ہوں گی۔

سوال: آج کل چار سو یہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ قانون توہین رسالت غلط استعمال ہو رہا ہے اور یہ صرف اقلیتوں کے خلاف ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: توہین رسالت کے جتنے بھی کیس بنے ہیں ابھی تک کوئی ایک بھی کیس ایسا نہیں ہے جس پر سزا دی گئی ہو اور یہ قانون عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر غیرمسلموں کے خلاف تو ہی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف بھی اس میں سب برابر ہیں۔ نبی اکرم e کی توہین اگر جرم ہے تو حضرت عیسی u کی توہین بھی جرم ہے۔ وہ بھی سچے نبی ہیں اور مسلمانوں کے ہاں مقدس ومحترم ہیں ہم تو اس قانون کی بات کرتے ہیں جس میں تمام انبیاء o کے تحفظ کی بات ہو۔ یہ بات تو عیسائیت کو بھی قبول کرنی چاہیے کیونکہ اس میں حضرت عیسیu کی ذات کا بھی تحفظ ہوتاہے۔

سوال: آج یہ کہا جارہاہے کہ عہد رسالت میں مسلمانوں کے فرقے نہیں ہوتے تھے وہ لوگ صرف مسلمان تھے آج کے فرقے علماء نے پیدا کیے ہیں۔

جواب: جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں نبی کریمe کے دور میں بھی صحابہ کرام کا اجتہادی مسائل میں اختلاف تھا مثلا نبی e جب غزوہ احزاب سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام] کو فرمایا کہ عصر کی نماز تم بنو قریظہ کے محلے میں جاکر پڑھنا۔ اب سورج غروب ہو رہاتھا اور عصر ابھی پڑھی نہیں تھی تو بعض صحابہ ] نے فرمایا چونکہ سورج غروب ہونے والا ہے لہٰذ ا عصر کی نماز یہیں پڑھ لی جائے۔ دوسرے بعض حضرات کا موقف یہ تھا کہ ہم تو عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں ہی جا کرپڑھیں گے کیونکہ حضور e نے فرمایا تھا کہ عصر کی نماز وہیں جاکر پڑھنا !پہلے گروہ نے یہ دلیل دی کہ حضور e کامقصد یہ تھا کہ جلدی جانا۔ لہذا نماز عصر یہیں آکرپڑھ لینی چاہیے کیونکہ دیر ہو رہی ہے توصحابہ کرام] میں دو گروہ بن گئے ایک نے نماز قضا پڑھی دوسرے نے ادا پڑھی لیکن چونکہ صحابہ کرام] سمجھتے تھے کہ یہ مسئلہ اجتہادی امور میں سے ہے اس لیے دونوں درست ہیں وہ لڑتے نہیں تھے ہم بھی آج یہ کہتے ہیں کہ چاروں ائمہ فقہاء برحق ہیں ان چاروں میں سے کسی ایک کی تقلید ضرور کی جائے ۔ ان کو گالیاں نہ دی جائیں اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا فتویٰ لگایا جائے ۔

رائے کا اختلاف توہوتا ہی ہے اور یہ تمام ادوار میں رہاہے صحابہ] کے دور میں بھی رائے کا اختلاف تھا بلکہ رائے کا اختلاف تو سابقہ انبیائo کے دور میں بھی تھا مثلاً حضرت سلیمانu اور حضرت دائود u کے درمیان رائے کا اختلاف تھا اور دونوں کی ایک خاص مسئلہ کے بارے میں الگ الگ رائے تھی۔

سوال: مدارس کے فضلاء میں ایسی کونسی کمی ہے کہ یہ لوگ معاشرہ میں جاکر اس انداز اور تیزی کے ساتھ کام نہیں کرسکتے جس انداز اور تیزی کے ساتھ اہل باطل کام کرتے ہیں؟

جواب: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جتنے بھی اہل باطل ہیں ان کے مخصوص ایک دو مسائل ہوتے ہیں جو ان کی محنت کے مرکز ومحور ہوتے ہیں اور وہ انہوںنے رٹے ہوئے ہوتے ہیں علماء حق اور فضلاء کے پیش نظر چند مسائل نہیں ہوتے بلکہ پورا دین ان کی محنت کا مرکز ہوتا ہے۔ مدارس اسلامیہ میں بارہ سال میں حفظ سے لے کر دورہ حدیث شریف تک پورا دین پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اہل باطل پورا دین نہیں پڑھتے بلکہ وہ چند مخصوص مسائل پڑھتے ہیں جن پر ان کے گروہ کی بنیاد ہوتی ہے اس لیے وہ چند مسائل پڑھ کر معاشرہ میں کام کرنے کے لیے نکل جاتے ہیں اور عوام میں وہی مسائل وعقائد پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور مدارس کے فضلاء پورا دین پڑھ کر جاتے ہیں اور پورے دین کی محنت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا ایجنڈا ہے فتنہ پھیلانا، فرقہ واریت کو ہوا دینا اور امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا، اس لیے انہوںنے ایک ہی کام کرنا ہوتاہے اور علماء وفضلاء کے ذمہ کئی کام ہیں۔ اس لیے ہم اہل مدارس سے یہی گزارش کرتے ہیں کہ باطل گروہوں کے رد میں طلباء کو ضرور تیاری کروائیں۔

سوال: آپ اپنے کام کا مستقبل کیسادیکھتے ہیں؟

جواب: ہمارے کام کا ماضی بھی انتہائی شاندار تھا حال بھی زبردست ہے اور مستقبل بھی روشن نظر آتاہے۔ ہمیں اللہ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔

سوال: جامعۃ الرشید نے حالات حاضرہ کے چیلنجز کامقابلہ کرنے کے لیے فضلاء کے لیے مختلف کورسز شروع کررکھے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے؟

جواب: جامعۃ الرشید کے تمام اسپیشل کورسز جامعہ کا انتہائی احسن اقدام ہے جامعہ کی جو موجودہ ٹیم ہے، یہ نئی ہے۔ میرا تو جامعۃ الرشید سے اس وقت سے تعلق ہے جب جامعۃ الرشید کی ابھی تک جگہ بھی نہیں خریدی تھی۔ دارالافتاء بالکل چھوٹا سا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں درجہ ثالثہ والے سال جامعہ بنوریہ سائٹ ٹائون کراچی میں تھا تو چھٹیوں میں حضرت والا کے پاس آیا تو حضرت والا نے حضرت استاد صاحب سے فرمایاکہ اس کو تخصص کی تیاری کرائو! تو جو تخصص والوں کے لیے حضرت کاریکارڈ شدہ درس تھا میں نے وہ سنا اور کنز والے سال ہی میں نے سورہ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے دو رکوع کی ترکیب حضرت استاد صاحب کوسنائی تھی اور اسی سال ہدایہ رابع کے سبق میں بیٹھتا ۔ میرا جامعۃ الرشید سے بہت پرانا اور گہرا تعلق ہے میں ان تمام کورسز پر بہت خوش ہوں اور جامعہ کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ میں جامعۃ الرشید کا وکیل بلا توکیل ہوں ۔ا پنے اجتماعات میں جامعہ کا تعارف کرواتا ہوں۔ جامعہ نے جو اسپیشل کورسز شروع کررکھے ہیں ان کی معاشرہ میں بڑی ڈیمانڈ ہے ایسا آدمی جو عربی بھی جانتاہوں انگلش بھی جانتا ہو، درس نظامی کا فاضل ہو اور ایم اے بھی ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے یہ وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔

سوال: علماء کاسرکاری اداروں میں جانا کیسا ہے؟ جواب: میں تو مفتی نہیں ہوں اگر مفتی ہوتا تو علماء کے سرکاری اداروں میں جانے کو فرض قرار دیتاکیونکہ جب علماء سرکاری اداروں میں نہیں جائیں گے تو نتائج کیا ہوں گے؟ وہ آپ کے سامنے ہیں جب پاکستان کا بیوروکریٹ طبقہ سو فیصد صالح مسلمان ہو تو معاشرہ میں انقلاب کی راہیں کھلیں گی حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف تھا کہ علماء کو سرکاری مشینری کاحصہ بنناچاہیے۔ سوال: وہ فضلاء جو معاشرے میں مستقل بنیادوں پر کام کرنا چاہتے ہیں اور معاشرہ میں انقلاب کے راستے ہموار کرنا چاہتے ہیں ان کے کام کرنے کا کیا طریقہ کار ہو؟ اورآپ انہیں کیا نصائح فرمائیں گے۔

جواب: میں فضلاء کرام سے تین گذارشیں کرتا ہوں گناہوں سے بچیں مسلک کاکام کریں اپنے اکابر کے ساتھ وابستہ رہیں۔

گناہوں سے بچیں گے تو اللہ راضی ہوگا۔اکابرکے ساتھ وابستہ رہیں گے تو صحیح رخ پر چلتے رہیں گے فضلاء ان تین کاموں کا اہتمام فرمائیں تو ان شاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ کام پھیلے گا۔ عقیدہ صحیح ہواور کام اکابر کی سرپرستی میں کیاجائے تو اس کا معاشرہ پر بڑا اثر پڑتاہے اورانقلاب کی راہیں کھلتی ہیں۔

Read 3481 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) مشتری ہوشیار باش

By: Cogent Devs - A Design & Development Company