AhnafMedia

ایک شریعت چار امام

Rate this item
(6 votes)

ایک شریعت چار امام

مولانا محمد عاطف معاویہ

امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار انعام فرمائے ہیں ان میں سے سب سے بڑا انعام افضل الانبیاء خاتم الانبیاء حضرت محمدe کی ذات گرامی ہے یہ اللہ کا ایسا انعام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ’’یہ انعام دے کر میںنے مومنین پر احسان کیاہے۔‘‘

خوش قسمت قوم اپنے اوپر ہونے والے احسان اور انعام کی قدر کرتی ہے اس کی حفاظت کرتی ہے انعام کی قدر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مزید انعامات سے نوازتے ہیں اس امت کی بھی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہر دور میں امت کے برگزیدہ افراد نے اس انعام خداوندی کی حفاظت کی ہے۔ آقا نامدار کی ذات کی بھی حفاظت کی ہے اور آپ کی بات اور عمل کی بھی حفاظت کی ہے آپ کے ہرفرمان اور عمل کو امت تک پہنچایاہے۔

پیغمبر کے فرمان کی حفاظت کی دو صورتیں ہیں:

۱: الفاظ کی حفاظت ۲: معانی اور مطالب کی حفاظت

ان دونوں کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو جماعتوں کو پیدا فرمایا الفاظ کی حفاظت کے لیے حفاظ و محدثین کا انتخاب فرمایا اور معانی کی حفاظت کے لیے مجتہدین اور فقہاء کو منتخب فرمایا مجتہدین اور فقہاء الفاظ حدیث میں غور وفکر کرکے اس میں مذکورہ اصول کو سامنے رکھ کر پیش آنے والے اجتہادی مسائل کو حل کرتے ہیں اور یہ اجتہاد بھی اس امت پراللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے ایسا انعام جس پر رسول اکرمe نے خوش ہوکر اللہ کی تعریف اور شکر فرمایا ہے کہ جب آپ نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا تو پوچھا جب کوئی مقدمہ پیش آئے گا تو فیصلہ کس طرح کرو گے فرمایاکتاب اللہ سے حضورeنے پوچھا اگر مسئلہ قرآن تجھے نہ ملے تو پھر فرمایا حضورeکی سنت سے حل کروں گا آپ نے فرمایا اگر سنت میں بھی تجھے نہ ملے تو پھر فرمایا: حضور پھر میں اجتہاد کروں گا اجتہاد میں کوتاہی نہ کروں گا۔ یہ سن کر آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ’’ الحمدللہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ۔‘‘

(سنن ابی دائود ج۲ص۵۰۵کتاب القضاء باب اجتہاد والرای فی القضائ)

ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے رسول کے قاصد کو وہ بات کرنے کی توفیق دی جس سے اللہ کے رسول کو خوشی ہوئی۔

فائدہ: اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد علامہ وحید الزمان (غیر مقلد )اس کی تشریح کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ غیرمنصوص مسائل میں اجتہاد اور قیاس جائز ہے اس کی دلیل یہی حدیث ہے ۔

(مترجم سنن ابودائود ج۳ص۶۴)

اور اہل السنت والجماعت بھی یہی کہتے ہیں کہ غیر منصوص مسائل اور نصوص متعارفہ مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اجتہاد ایسا انعام ہے کہ اس میں غلطی ہوجانے پر بھی مجتہد کو ایک اجر ضرور ملتاہیکماقال رسول اللہe اذا حکم الحاکم فاجتہد فاصاب فلہ اجران واذاحکم فاجتہد ثم اخطأ فلہ اجر۔

(صحیح بخاری ج۲ص۱۰۹۲ باب اجر الحاکم اذا جتہد فاصاب اواخطأ)

اجتہادی مسائل میں مجتہد اور فقیہ اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کرتاہے اور عامی غیر منصوص یامنصوص متعارض مسائل میں مجتہد کی تقلید کرتاہے یہ بات حضورعلیہ السلام کے زمانہ سے چلی آرہی ہے چنانچہ حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ ،میاں نذیر حسین دہلوی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:’’ زمانہ صحابہ سے لے کر زمانہ اصحاب مذاہب تک یہی چال تھی کہ بدوں تخصیص ایک مذہب کی تقلید کیا کرتے ۔‘‘

(معیار الحق ص۵۹ بحوالہ تجلیات صفدرج۵ص۳۷۱)

حضرت معاذ کے حوالہ سے حدیث گزر چکی ہے کہ وہ یمن گئے اور یمن والے آپ کے قول بات اور فتویٰ کو مانتے تھے اور دلیل کامطالبہ نہیں کرتے تھے آپ کو اپنا مقتدیٰ سمجھتے تھے۔

حضورعلیہ السلام کے بعد صحابہ کرامy کے دور میں کچھ حضرات اجتہاد کرتے تھے باقی ان کی تقلید کرتے تھے چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ثم انھم تفرقوافی البلاد وصارکل واحد مقتدی ناحیۃ من النواحی

(الانصاف ص۲۲)

کہ صحابہ کرام مختلف شہروں میں چلے گئے اور ہرعلاقہ میں ان میں سے ایک مقتدا بن گیا لوگ ان صحابہy کی بات کو مانتے تھے تقلید کرتے تھے چنانچہ مکہ کے مجتہد حضرت ابن عباسw ،مدینہ کے حضرت زید بن ثابت ،کوفہ کے حضرت ابن مسعودw ،یمن کے حضرت معاذ اور بصرہ کے حضرت انس tتھے یہ حضرات غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کرتے باقی لوگ ان کی تقلید کرتے تھے۔

صحابہ y کے بعد تابعین رحمہ اللہ کا زمانہ آیا تو اس میں بھی ہر علاقہ میں مجتہد اور فقیہ کی غیر منصوص مسائل میں تقلید کی جاتی تھی چنانچہ امام موفق بن احمد المکی نقل کرتے ہیں کہ حضرت عطاء ہشام بن عبدالمالک کے پاس گئے تو ہشام نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماء کو جانتے ہیں؟ عطاء نے فرمایا جانتا ہوں تو ہشام نے مختلف شہروں کے فقہاء کے بارے میں سوال کیا توحضرت عطاء نے جواب دیا کہ مدینہ کے فقیہ نافع ہیں ،مکہ کے فقیہ عطاء بن ابی رباح ہیں، یمن کے فقیہ طائوس بن کیسان ہیں،یمامہ کے فقیہ یحیی بن ابی کثیر ہیں، شام کے فقیہ مکحول ہیں، جزیرہ والوں کے فقیہ میمون بن مھران ہیں، خراسان کے فقیہ ضحاک بن مزاحم ہیں، بصرہ کے فقیہ حضرت حسن بصری اور محمد ابن سیرین ہیں اور کوفہ کے فقیہ ابراہیم نخعی ہیں۔

(مناقب الامام الاعظم ص۸،۷)

معلوم ہواکہ صحابہ کرامy کے زمانہ سے ہی غیرمنسوص مسائل میں اجتہاد اور تقلید ہوتی تھی کوئی شخص بھی اس کامنکر نہیں تھا۔ جیساکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لان الناس لم یزالواعن زمن الصحابۃ الی ان ظہرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر انکارہ ولوکان ذالک باطلا لانکروہ۔

(عقد الجید ص۱۶)

کہ صحابہ کرامy کے زمانہ سے لے کر چاروں مذاہب کے ظہور تک علماء میں سے جس پر لوگ متفق ہوجاتے ہیں ہمیشہ اس کی تقلید کرتے رہے کوئی ایک بھی اس کا منکر نہیں تھا کسی ایک نے اس کا ایسا انکار نہیں کیا جوانکار قابل اعتبار ہو اگر تقلید باطل ہوتی تو لوگ اس کا ضرور انکار کرتے تو حضرت شاہ صاحب نے صحابہ y کے زمانہ سے لے کر مذاہب اربعہ کے ظہور تک ’’لم یزالوا‘‘ کے لفظ سے تقلید کا تسلسل بیان فرمایاہے کہ تقلید ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے پہلے والے حضرات فقہاء کی فقہ اور اجتہا دی مسائل چونکہ مدون اور مرتب نہیں تھے حضرات ائمہ اربعہ نے ان مسائل اور فقہ کو مرتب کرایا اس لیے اسلامی ممالک میںان حضرات کی فقہ رائج ہوئی اور پہلے والے حضرات کی فقہ اب انہیں چار میں آگئی چنانچہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ثم اندرجت مذاھب الائمۃ المعتبرۃ۔

(نقص المنطق ص۱۴۵ بحوالہ الکلام المفید ص۱۱۹)

ترجمہ: پھر ان حضرات کے مذاہب ائمہ معتبرین کے مذاہب کے تحت درج ہوگئے ہیں اب غیر منصوص اور اجتہادی مسائل میں ان ائمہ اربعہ سے کسی ایک کی فقہ رائج ہو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

فان کان انسان جاہل فی بلاد الہند او فی بلاد ماوراء النہر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولاکتاب من کتب ہذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد المذاہب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ۔

ترجمہ: اگر ہندوستان یاماوراء النہر من کوئی انسان جاہل ہو اور اس شہر میں نہ تو کوئی شافعی، مالکی، حنبلی مذہب کا عالم ہو اور نہ ہی ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو توجاہل پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی تقلید واجب ہے اس سے نکلنا حرام ہے۔

(الانصاف ص۶۹)

ان حضرات کے بعد مجتہد مطلق تو نہیں آئے گا باقی پیش آنے والے نئے غیر منصوص مسائل میں ہر مسلک کے علماء اصولوں کی روشنی میں ان مسائل کوحل کریں گے اب ان چار ائمہ کی مدون کی ہوئی فقہ پر عمل کرنا نجات کا ذریعہ ہے جہاں پر جس امام کی فقہ رائج ہو اس پر عمل ضروری ہے اس فقہ کو چھوڑنا گمراہی ہے چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں:

ولما اندرست المذاہب الحقۃ الاھذہ الاربعۃ کان اتباعھا اتباعا للسوادالاعظم والخروج عنھا خروجاعن السواد الاعظم۔

(عقد الجید ص۱۹)

ترجمہ: جب ان چار مذاہب کے علاوہ باقی مذاہب حقہ مٹ گئے ختم ہوگئے تو اب ان چار کی اتباع سواد اعظم کی اتباع ہوگی او ران سے خروج سواد اعظم سے خروج ہوگا توجب باقی حضرات کے مذاہب مٹ گئے صرف چار باقی رہ گئے تو اب ان میں سے کسی ایک پر عمل کرنے ہی میں مصلحت ہے جیساکہ حضرت شاہ صاحب صاحب فرماتے ہیں ہیں:

اعلم ان فی الاخذ بہذہ المذاہب الاربعۃ مصلحۃ عظیمۃ وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ۔

(عقد الجید ص۱۸)

ترجمہ: جان لے کہ ان چاروں مذاہب کے لینے میں بہت بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض کرنے میں سب کو چھوڑنے میں بہت بڑا فساد اور خرابی ہے ۔حضرت شاہ صاحب دوسرے مقام پر ان حضرات کی فقہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ان ہذہ المذاہب الاربعۃ المدونۃ قداجتمعت الامۃ اومن یعتد بہ منھا علی جواز تقلید الی یومنا ہذا وفی ذالک من المصالح ما لایخفی لاسیما فی ہذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم واشربت النفوس الھوی واعجب کل ذی رای برایہ

(الانصاف ص۹۷)

ترجمہ: یہ جو چار مذاہب مدون ہیں ان کی تقلید کے جائز ہونے پر امت کے ایک معتدبہ حصہ کا آج تک اجماع چلا آ رہاہے اور ان کی تقلید میں وہ مصلحت نہیں خصوصا ًآج کے زمانہ میں کہ جب ہمتیں کم ہوگئیں نفوس میں خواہشات رچ بس گئیں اور ہر ذی رائے شخص اپنی رائے پر فخر کرنے لگا ہے تو اس دورمیں ان چار میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا ضروری ہے اس میں بڑی مصلحت ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اوپر ہونے والے انعامات کی قدر کرنے، ان پر شکر کرنے کی توفیق عطافرمائیں اور حضرات محدثین مجتہدین فقہاء sاور ان علماء کو جزائے خیر عطا فرمائیں جنہوںنے محنت کرکے دین کو محفوظ کرکے ہم تک پہنچایاہے۔

آمین بجاہ النبی الکریم

Read 4215 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) ایک شریعت چار امام

By: Cogent Devs - A Design & Development Company