AhnafMedia

بے تا ج بادشاہ

Rate this item
(2 votes)

بے تا ج بادشاہ

مولانا محمدرضوان عزیز

زبیر علی زئی صا حب نے اپنی دین دشمنی اور مردہ دلی کا مظا ہرہ تو بہر حال کر نا ہی ہو تا ہے چاہے کذب بیا نی کے تمام ریکارڈ تو ڑ کر جو کہ خود اپنے ہی قلم وزبان سے بنا ئے ہو تے ہیں نئے ریکارڈ قائم کر دتیے ہیں۔ ان کی مختلف عنوانات پر لکھی ہو ئی بے ربط، بغض وعنا د سے بھرپور بد بو دار نظریات سے آ لو دہ تحریر عقل سلیم اور طبع مستقیم رکھنے والے ہر شخص کے لئے قابل نفرت ہو تی ہے۔ اپنے فرقے کے نزدیک تو جناب نہ جا نے کیا کچھ ہیں لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ تلبیس و فریب، کذب وخیا نت کا یہ شخص بے تا ج با دشاہ ہے ۔

جس طر ح پیغمبر ﷺ کی مبا رک احا دیث کا یہ شخص دشمن ہے اور اپنے انکا ر حدیث پر مبنی ماہواری رسالہ” الحدیث “ کو نشتر زنی کر نے میں مشغول رکھتا ہے ۔ کبھی سند کا بہانہ بنا کر کبھی کسی راوی کی اوٹ لیکر اور کبھی کسی محد ث یا فقیہ کے کلام کا سہارا لیکر معنی بدل کر نئی چال اور نئی تبدیلی سے حد یث کو کبھی ضعیف کہہ کر رد کر جاتا ہے ،کبھی کسی ایک را وی کی ثقاہت مجرو ح ہو نے پر اس پر موضو ع کا حکم لگا دیتا ہے اور فقہاء احنا ف کا جب نا م آ جا ئے تو پھر تو اس کی حالت دیدنی ہو تی ہے ۔

جب تک اس عالم یا فقیہ پر زبان درازی نہ کر لے اور اپنے خبث باطن کا اظہار نہ کر لے اس سے رہا نہیں جا تا اور اہل حق کی دشمنی میں تمام قوا عد وضوا بط کو رو ند کر حد سے گذر جا تا ہے ۔خدا وند تعا لیٰ اس بےچا رے کے حا ل پر رحم فر ما ئے اور اہل حق کے بغض کی ہنڈیا اس کے سینے میں جو ش ما رتی رہتی ہے اسے ٹھنڈا فرمائے ۔جناب نے انبیاءکرا م علیہم السلام کی حیات فی القبر کے با رے میں موجود احا دیث پر عمل جرا حی کر تے ہو ئے اہل السنت والجماعت کے اتفا قی مسئلے کو مشکوک بنا نے کی گھٹیا حر کت کی اور مسند ابی یعلیٰ موصلی کی روا یت :

” الانبیاءاحیاءفی قبور ھم یصلون“

پر ادھر ادھر کی جروحا ت نقل کرکے ” الحد یث “ کا پیٹ بھرکر اس حدیث کو ضعیف اور مردود کہا ہےاور اپنی جرح کا آغازمسند ابی یعلی موصلی :ج6:ص:147: پر موجود اس حد یث کی سند سے کیا ہے:

یحی بن ابی بکیر حدثنا المستلم بن سعید عن الحجاج عن ثابت البنانی عن انس بن ما لک قال :قال النبی ﷺ ....۔

اب زبیر علی زئی متروک ومردود وکذاب کی جرح نقل کرنے سے پہلے ہم ان رواة حدیث کی تو ثیق با حوالہ نقل کر دیں تا کہ یہ واضح ہو جا ئے کہ اس بھینگے کو صرف وہی طرف نظر آ تی ہے جو یہ خود دیکھنا چا ہتا ہے ۔

جلیل القدر محد ث فخر المحدثین زبد ة المحققین رئیس المفسرین امام اہل السنۃ والجماعۃ الشیخ سرفراز خا ن صا حب صفدررحمۃاللہ علیہ رحمۃ واسعۃ اپنی بے نظیر تصنیف تسکین الصدور میں اس حد یث کی سند پر کلام کرتے ہو ئے ارشاد فر ما تے ہیں :

(1) امام ابو یعلیٰ الموصلی کا نام احمد بن علی تھا جو الحا فظ ،ثقہ اور محد ث تھے ان کی وفات 307 ھ میں ہو ئی ۔ (2)

(3)

(4) (تذکرة الحفاظ :ج:2:ص:288)

علامہ ابن حجرؒ فر ما تے ہیں:

”ذکرہ ابن حبان فی الثقات “

(تہذیب التہذیب:ج :1:ص:200)

(۲)یحی بن ابی بکیر اسمہ نسر : امام احمد فر ما تے ہیں وہ ایک دا نا محدث تھے ،امام ابن معین اور عجلی نے ان کو ثقہ قرار دیا امام ابو حاتم نے ان کو صدوق قرار دیا ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے

(تہذیب التہذیب:رقم الترجمہ :302)

(۳)مستلم بن سعید: امام احمد ان کو شیخ ثقہ اور امام ابن معین صویلح کہتے ہو ئے اس کی تو ثیق کرتے ہیں ،امام نسائی ان کو لا باس بہ کہتے ہیں اور ابن حبا ن نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ۔

(تہذیب التہذیب )

(۴)حجاج :یہ حجاج بن الاسود ہیں۔ امام احمد ان کو ثقہ اور رجل صالح فر ما تے ہیں، امام ابو حا تم انہیں صالح الحدیث کہتے ہیں، ابن حبان نے ان کو ثقات میں شما ر فر ما یا ہے۔

( لسان المیزا ن :ج:1:ص:276:شا ملہ)

(5) ثا بت البنا نی :جلیل القدر تا بعی اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں ۔ (6)

(7)

(8) (۶)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ صحا بی ہیں۔

(تسکین الصدور ملخصاً:ص:219تا 220)

اب اس کی سند پر زبیر صا حب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مستلم بن سعید سے اس روایت کی کسی صحیح سند میں حجاج کے بعد ابن الاسود کی صرا حت ثا بت نہیں ۔

(الحدیث ش:90:ص:9)

اور اس کے بعد امام ذہبی کی جرح کو معتبر قرار دیتے ہو ئے حجا ج کی وجہ سے روایت کو مردود اور مشکوک قرا ر دےدیا جب کہ امام ذہبی ؒ سے خو د حجاج بن الاسود کی ثقاہت ثا بت ہے۔

)مستد رک حاکم رقم:8566:(

کتا ب الرقاق کی آخری حدیث میں حجاج بن الاسود موجود ہے جس کے حا شیہ میں وضا حت کی گئی ہے کہ: ”قال الذہبی الحجاج بن الاسود ثقة “۔ لہذا معلو م ہوا کہ امام ذہبی ؒ نے اپنی سا بقہ جرح سے رجوع فر ما لیا تھا جب ذہبی نے خو د رجوع کر لیا تو وہ زبیر صاحب کی ہفوات سے بری الذمہ ہے ۔اور دوسری با ت یہ ہے کہ اس حد یث کو خود ان کے بڑے علامہ نا صر الدین البا نی نے صحیح قرار دیا ہے اور حجاج کو حجاج بن الاسود ہی قرار دیا ہے اور فر ما تے ہیں :

” قلت: وھذا اسناد جیدرجالہ کلہم ثقات “

(السلسلة الاحا دیث الصحیحہ :ج:2:ص:189)

یہ جید سند ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اور حجاج کے حجاج بن الاسود مذکور نہ ہونے سے جو منکر حدیث نے فرار کی رہ اختیار کی تھی اور دھو کہ دینے کےلئے حجاج کو مجہو ل کہا‘ تو واضح ہو گیا کہ یہ حجاج مجہول نہیں بلکہ وہ معروف حجاج ہے جسے محد ثین کرا م نے ثقہ قرار دیا ہے ، نیز آپ کے محقق ارشاد الحق اثری نے بھی اس کی سند کو جید قرار دیا ہے ۔

(مسند ابی یعلی :ج:3:ص:389)

اور اس حد یث سے مجتہدین نے انبیاءکرا م کی حیاة فی القبر پر استدلال کیا ہے اور حدیث کا اصو ل یہ ہے کہ جیسے سر تا ج المحدثین قاطع الملحدین فضیلۃ الشیخ العلامہ ظفر احمد عثما نی ؒ نے قواعد فی علوم الحد یث میں ذکر کیا ہے کہ :

”المجتہد اذا استدل بحدیث کا ن تصحیحاً لہ“

(ص:57)

جب مجتہد کسی حدیث سے استدلال کرتا ہے تو یہ حد یث اس کے نزدیک صحیح ہو تی ہے۔ اب دیکھئے اگر دل کی آنکھیں ہیں تو ....۔

امام احمد بن حنبل ؒ اپنی کتا ب الاعتقاد :ص:303 میں اس حدیث کو ذکر فر ما تے ہیں ۔ اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ بھی مجموع الفتاویٰ :ج:2 :ص:69 پر تعلیقاً اس حدیث کو نقل کرتے ہیں ۔

اسی طرح دیگر محدثین مثلاً ملا علی القاری اور امام بیہقی ؒ وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اگر چہ یہ جلیل القدر محدثین حضرات اس حدیث کی تصحیح نہ بھی فر ما تے تب بھی آپ جیسے متروک، متعصب ، کذاب کی جرح سے اس حدیث کی صحت پر کو ئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ اور دوسرا اصول جس سے شاید زبیر صاحب جاہل ہیں کہ جو چیز تواتر سے ثا بت ہو اس کے رجال سے بحث نہیں کی جا تی اور انبیاءکرا م کی حیاة فی القبر کو متوا تر قرار دیا گیا ہے۔

فقیہ محدث جناب ابو عبد اللہ محمدبن ابو الفیض مولانا جعفر الحسنی نے اپنی شہرہ آفاق کتا ب ’’نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ‘‘میں امام سیو طیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں:

قال السیوطی فی مرقات الصعود :تواترت بہا الاخبا ر ، وقال فی انباءالاذکیا ءبحیاة الانبیاءمانصہ حیا ة النبی ﷺ فی قبرہ ھو وسائر الانبیاءمعلومة عند نا علما ً قطعیاً “

(ص:135 )

امام سیو طیؒ مرقات الصعود میں فرماتے ہیں کہ انبیاءکی حیات فی القبر کے متعلقہ احادیث متوا تر ہیں اور تواتر کے با رے میں محدثین کا اصول ہے جس سے زبیر مما تی مفرورافغانی جا ہل ہے یا متجاہل ہے ۔ علامہ سیو طی ؒ تواتر کے بارے میں فر ما تے ہیں :

ولذلک یجب العمل بہ من غیر بحث عن رجا لہ “۔

(تدریب الرا وی :ج:1:ص:154)

کہ متواتر پر عمل کرنا واجب ہے اس کے رجال سے بحث کئے بغیر ۔

اور قاضی محب اللہ بن عبد الشکور بہا ری ؒ فر ما تے ہیں :

قالوا ان التواتر لیس من مبا حث علم الاسناد .

(مسلم الثبوت :ج:2:ص:145)

مزید یہ کہ متکلم اسلام فقیہ النفس حضرت الاستا ذ مولانا محمد الیا س گھمن صا حب حفظہ اللہ نے ارشاد فر مایا کہ سند کی ضرورت وہا ں ہو تی ہے جہا ں کو ئی ابہام ہو۔ توا تر تو بدیہی چیز ہے اس کی سند سے بحث کر نا سورج کو دِیا دکھا نے کے مترادف ہے حضرت الاستاذ کی ایمان افروز وضاحت کے بعدزبیر صا حب کو اپنی ایمان سوز تحریر سے رجوع کر لینا چا ہئے۔

آخر میں زبیر نے مسلم شریف کی وہ حدیث جو انبیاءکرا م علیہم السلا م کی حیات فی القبر کے بارے میں صریح ہے اسے غلط سلط نقل کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو”ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ‘‘ بنا دیا ، چلو خیر ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہو گی یا جناب نے مضمو ن کسی اور سے لکھوا کر اپنے نام پر شائع کیا ہو گا ۔

بہر حال جو بھی ہو آئندہ شما رے میں اس کی تصحیح فرما لیں کہ یہ ابو موسیٰ نہیں صرف حضرت موسیٰ ہیں اور انبیاءکےساتھ’’ علیہ السلام‘‘ لکھتے ہیں اور صحا بہ کے سا تھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھتے ہیں۔

مسلم شریف میں حدیث مبا رکہ موجود ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا :

مررت علیٰ موسیٰ لیلة اسری بہ عند الکثیب الاحمر وھو قائم یصلی فی قبرہ

(مسلم شریف :ج:2: ص628)

اس حدیث کے با رے میں زبیر بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئےکہ اس باب میں صرف صحیح مسلم کی وہ حد یث ثا بت ہے جس میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے معراج کی را ت حضرت موسیٰ علیہ السلام (ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ از زبیر) کو سرخ ٹیلوں کے پاس اپنی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔

تو جناب! جب یہ حد یث ثا بت ہو ئی تو آپ کی کتاب تحقیقی مقالات ج:1:ص:91 پر غیر تحقیقی گفتگو کیا حیثیت رکھتی ہے؟

نیز آپ کا یہ کہنا ’’ یہ خا ص معجزہ ہے اور اس سے عا م استدلال محل نظر ہے‘‘ تویہ آپ کے منہ کی با ت ہے جو آپ کی ذا ت کی طرح پش کشتر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔

Read 3639 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) بے تا ج بادشاہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company