AhnafMedia

یہ طوفان نہ تھم سکے گا

Rate this item
(2 votes)

یہ طوفان نہ تھم سکے گا

مولانا مقصود احمد

ایسےعملی اور فکری اصول جن پر عمل کرنے کی وجہ سے خداوند قدوس نے انسانیت کودنیا میں کامیابی وحکمرانی کے ساتھ ساتھ نجاتِ عقبیٰ کا مدارقرار دیا تھا،ان اصولوں سے انسان اپنی فطری جہالت اورنسیان کی وجہ اتنا دورہوگیا کہ جس کی وجہ سے انسان اپنے خالق و مالک،معبود برحق سے بے خبر ہوکر چپے چپے پر اپنے ہاتھوں سے تراشے بتوں کو سجدہ کرنا عبادت سمجھنے لگا اور اصل تعلیمات ِرب العالمین لانے والے حضرات انبیاءکرام علیہم السلام کا اپنے خود ساختہ علم وعمل کی وجہ سے صرف انکار ہی نہیں الٹا خود کو ایسا حق پر سمجھا کہ ”ابناءاللہ واحباہ“ (اللہ کے بیٹے اور محبوب)کا مصداق قرار دے کر حضرات انبیاءؑ پر طعن وتشنیع ،ظلم وستم کرنے کو روا سمجھا۔جب اس سے بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو پھر انہیں معبودان باطلہ کی وجہ سے ایک دن میں بیسیوں حضرات انبیاءکرام ؑ کو شہید کردیا(نعوذباللہ)۔اسی طرح یہ سلسلہ حق وباطل ، ظلم وانصاف ،اعداءاللہ اور اولیاءاللہ یعنی دو ذہن،دونظریہ کےلوگ تاریخی سفر طے کرتے کرتے بالآخر اس دور کو بھی پہنچے جب اصل دیندار لوگوں یعنی حضرات انبیاءؑ کی تعلیمات اور احکامات خداوند انسان کے علم اور عمل سے تو کیا کتابوں اور خیالوں سے نکل گئیں، جس کی وجہ سے ہر طرف بازار ِظلم گرم ہوگیا۔

بےحیائی اور فحاشی کو اپنی قومی تہذیب اور زمانہ میں ترقی کرنے کا راز(جیسے آج کل) قرار دیا جانے لگا ،عورت کی قدر جانوروں سے بھی گِر گئی ۔جسم فروشی اور عصمت دری اس روشن خیال قوم کے معمولی اور اخلاقی مسئلے سمجھے جانے لگے، یعنی انسانیت عقیدہ سے اخلاق تک،گھر سے بازار تک ،قوم سے معاشرہ تک،احکامِ خدا اور تعلیمات انبیاء علیہم السلام سے بے خبر ہی نہیں بلکہ ان تمام جرائم کے ارتکاب کو اپنا فطرتی حق سمجھ کر برائیاں کرنے لگی ۔ اس لئے اس دور کو ’’دور جاہلیت‘‘ اور ’’زمانہ فترت‘‘ کہا جاتا ہے ۔توایسے نازک وقت میں اللہ رب العالمین کو انسانیت پر ترس آیا ۔پھر اسی معاشرہ کے ایک عظیم خاندان سے ایک نبی آخرالزماں ،سرداردوجہاں حضرت محمد بن عبداللہ ﷺ کو پیدا کیا، جس نے اپنی امانت اور دیانت کے ذریعے ان تمام معاشرہ بگاڑلوگوں کو اپنا غلام بنالیا اورلوگ بھی اس کی صدق وامانت اور خوش خلقی کی وجہ سےاسے’’ صادق الامین ‘‘کہتے ہی نہیں بلکہ عملاً بھی مانتے تھے۔ پھر اسی نبی نے انبیاءسابقین کی طرح اصل مقصد نبوت کی طرف اپنی غافل قوم کو متوجہ کیا ۔توسابق کی طرح اب بھی حق وباطل صف آراءہوئے، جس کی پاداش میں ہمارے نبیﷺ کے نرم ولطیف جسم اطہر پر ماریں پڑیں ،کانٹے بچھائے گئے ،لہولہان کیا گیا ،لیکن یہ کوہِ گراں اپنے صبر واستقامت کی وجہ سے ایک انچ بھی اپنے موقف اور مقصد نبوت سے نہ ہٹا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ ذاتیات پر بدلہ نہ لینے والاالٹا خوش خلقی اورخدا داد تدبروفراست سے اپنے جان نثاروں کا اتنا مجمع تیار کرگیا کہ جس کو ہر میدان میں شکست دینا مشکل اور محال سمجھا گیا۔بلکہ ان کی دینی دعوت اور نشر اسلام کے جذبہ کے سامنےکئی سپر طاقتیں ہتھیار ڈال کر صلح کرنے میں اپنی عافیت سمجھ بیٹھیں کہ اس لشکر صحابہ سے مقابلہ کرنا مشکل ہے۔

امن صرف ان کی بات تسلیم کرنے میں ہے تو یہ حق وباطل کا معرکہ ہر میدان یعنی نظریاتی ،اخلاقی اور عملی میں ہوا لیکن باطل کا طرز الزام تراشی،طعن وتشنیع ، سب وشتم اور ذاتیات پر حملہ کرنا تھا۔ اپنے نظریہ باطل کی محنت کم لیکن دوسرے مقابل (اہل حق)کا تشخص تباہ کرنے کی سر توڑ محنت تھی۔ تودوسری طرف اہل حق نے اپنے اوپر آنے والے تمام حالات کا ہر دور میں بڑی حکمت ، فراست ، عقل ودانش ،سنجیدگی اور متانت،شائستگی اور تہذیب سے اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے مقابلہ کیا۔ جس کے نتیجے میں باطل کو اپنامنہ لے کر ہر میدان سے بھاگنا پڑا جیسا کہ تاریخ یہی کچھ کرتی اور دیکھتی ہوئی سوا چودہ سو سال کا سفر کر کے ہم تک پہنچی ہے ۔ اگر تعلیمات نبویہ،نظریاتِ صحابہ کرام ؓ اور فقاہت اسلاف کی بات اس دور میں کسی نے مدلل ،پر مغز،شائستگی اور حکمت کے ساتھ کی ہے تو مقابلے میں مخالف ذہن لوگوں نے پرُانے گروں کے ساتھ الزام تراشی اور ذاتیات پر اتر کر اہل حق کے تشخص گرانے کی بے سود کوشش کی۔

اسی طرز سے حق وباطل کی پہچان بآسانی ہوسکتی ہے، کھرے کھوٹے میں میزان قائم کرناآسان ہوجاتا۔ تو دیکھئے جب عقائد اور مسائل اہل السنۃکو بڑے مدلل انداز میں درد امت کو سینے میں سمو کر بڑی سنجیدگی کے ساتھ الزام اورذاتیات پر حملہ کیے بغیر متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ نے بات کی تو قوم کو اپنے بھولے اور کھوئے نظریات واعمال دیکھائی دینے لگے، جس کی وجہ سے وہ اپنے مشفق ترجمان (مذکور)کو قلب وجگر میں جگہ دینے لگے تو متکلم اسلام کے حلقہ بیان اور دعوتی پیغام کی وسعت سے باطل نظریہ والوں کی ایجاداور بدعت سے بھری سرسبز وشاداب زمین دوبارہ ناکارہ اور بنجر ہونا شروع ہوگئی اور لوگوں نے بھی ان کا دھیان چھوڑ کر اصل مرکز ومخزن کی طرف توجہ دی۔ تو یہ بات یار لوگوں کو آنکھ میں تنکے کی طرح چبھنے اور پیٹ میں مروڑ کی طرح تکلیف دینے لگی۔ تو اب انہوں نے اپنے سابقہ آباءوالے ہتھکنڈے استعمال کیے (یعنی گالی ،الزام،ذاتیات پر حملے وغیرہ) جو سلیم الفطرت اور صحیح العقل آدمی سوچ میں بھی نہیں لاسکتا۔یہ الزامات اس لیے لگائے تاکہ کسی طرح سے اس کا تشخص تباہ ہو اور لوگ اس کے مجمعے میں جانا چھوڑ دیں تاکہ ہمارے حقائق اور اصل پول نہ کھلیں ۔

لیکن وہ کسی بھی نظریہ والے لوگوں کی ذاتیات پر حملہ کرنے اور سب و شتم کی بجائےاپنے اسلاف کے نظریات سے اخلاقیات تک کی تعلیمات کو بڑی دیانت ،صدق،امانت کے ساتھ بیان کرتارہا اور سمندروں کی موجوں اور موسم گرماکے طوفان وہوا کی طرح ہرآدمی کے قلب وجگر پر اثر انداز ہوتاگیا۔تو یار لوگوں (مخالفین)نے اپنے آزمائے گرُ بے کار اور غیرموثر سمجھ کر الٹا ہمارے ہم نظریہ اور ہم عقیدہ لوگوں کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر چلانا شروع کیں جیسے آئے روز میسجز اور جھوٹی افواہیں سننے میں آتی ہیں اور ہماری مذہبی یا سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی پرانی رفاقتیں یاد کراکے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی لا حاصل کوشش کی۔ لیکن بانیان جماعت مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود ؒصاحب اور امیر عزیمت شہید ناموس صحابہ حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے عقیدے اور نظریے کو نہیں دیکھا کہ وہ کس عقیدہ کے حامل تھے؟ کس ذہن سے تعلق رکھنے والے اوراصل میں کن کے تھے؟

اے کاش!تو بھی اس کو سوچے اور سمجھے تو!

شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات

اور یار لوگ سوچیں کہ ہم کس منہ سے ان بانیان جماعت کے ساتھ اپنا تعلق چھوڑ رہے ہیں اور ان کے جانشینوں کے ساتھ اور پھر بانیان جماعت کے صحیح نظریات وعقائد کے حامل لوگوں سے ہمارا کیا تعلق ؟کیا تفرقہ بازی یا نظریاتی بگاڑ پیدا کرنے کی سازش ؟افسوس صد افسوس ! ہمارے ہم نظریہ لوگ یار دوستوں کی سازش کو کیوں نہیں سمجھ رہے اور اگرسمجھے تو اپنوں کا دفاع کیوں نہیں کرتے ۔الٹا انہیں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنوں کی تنقید کو اپنا صبح وشام کا وظیفہ کیوں بنالیا؟اور باطل نظریہ لوگوں کے تعاقب کو چھوڑ کر خانہ جنگی کیوں شروع کرلی؟کیا کبھی ہم نظریہ بھائیوں میں لڑائی اچھی لگتی ہے؟نہیں!

باتیں تو بہت ہیں لیکن وسعت صحرا کم ہے

بس آخر میں یہی بات سوچنی چاہئے کہ جو ہمارے بڑوں سے بیزار ہوں اور ان کے عقیدہ سے فرار ہو ںوہ ہمارے کبھی نہیں ہوسکتے ،مفاد کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہیں ،ہر مشکل کے وقت جدا ہونے میں کبھی دیر نہیں کریں گے ۔

اے کاش!ہم سمجھیں اور بعد میں پیدا ہونے والے مسائل اور کمزوری کو حل کرنے لئے اکٹھے چلیں اس آدمی کے ساتھ جو بانیان جماعت کے عقیدے کی ترجمانی کرتاہو ۔وہ دفاع ناموس صحابہ ہو یا خلافت صحابہ ،شان صحابہ ہو یا فراست وسیاست صحابہ اور دشمنان اسلام سے دلی نفرت رکھتا ہی نہ ہو بلکہ لوگوں کی بھی ذہن سازی کرتا ہو تو پھر ایسے محسن کی قدر کرنی چاہئے اور مزید اس کے دعوتی،نظریاتی،کام میں سدسکندری بننے کی بجائے حوصلہ افزائی کی سیج بچھانی چاہیے ۔یہ محض خیال اور وہم ہے کہ اس کا نظریاتی ، اخلاقی اور عملی دلائل پر مبنی بیان کا طوفان باطل ہتھکنڈوں اور قسماقسم سازشوں اور حیلوں سے تھم جائے گا؟نہیں بلکہ وہ تو ہر اندر یا باہر والے آدمی کو اپنی ہوا سے گرم یا سرد ضرور کرے گا پھر کوئی بوکھلاجائے گا اور سازشوں پر اتر آئے گا اور کوئی ان کو قلبی سکون سمجھ کر اس نعمت کی قدر کرتا ہوا اللہ کی شکرگزاری کرے گا کہ اللہ تیرا شکر یہ کہ تو نے ان کی وجہ سے مجھے اسلاف کا صحیح عقیدہ وعمل نصیب فرمایا۔اے اللہ تیرا شکر یہ اس کے بعد برملا کہہ دو !

جو ہمارے اسلاف کا نہیں وہ ہمارا نہیں

جو اسلاف کا قدردان ہمارا وہ امام

Read 3001 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) یہ طوفان نہ تھم سکے گا

By: Cogent Devs - A Design & Development Company