AhnafMedia

گنبد خضراء کا سایہ

Rate this item
(5 votes)

گنبد خضراء کا سایہ

محمد الیاس گھمن

عاشق رسول سید انور حسین نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

تیری رحمت، تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب

گنبد خضرا کاسایہ…میں تو اس قابل نہ تھا

راقم اپنے گناہوں کی گٹھری لیے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوا اپنی ذات…اور سید کونین کے حضورہونے کا احساس دامن گیرہوا تو صلوٰۃ وسلام عرض کرتے ہی بے ساختہ میری زبان پر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا ایک اور شعر آگیا کہ

بارگاہ سید کونین ﷺ میں آ کر نفیس

سوچتا ہوں، کیسے آیا؟میں تو اس قابل نہ تھا

اپنی کم مائیگی کے باوجود رحمۃ اللعالمین کے حضورخود کو پاکر…میں بتلا نہیں سکتا کہ وہ کیفیت کیسی تھی ؟ آج ایک گناہ گار امتی اپنے شفیق اور محسن نبی کے دروازے پر تحفہ صلوٰۃ وسلام لیے کھڑاہے ۔سچ کہا جس نے بھی کہا

تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے

جسے دیکھنی ہو جنت وہ مدینہ دیکھ آئے

ہمارا عقیدہ ہے کہ’’ما بین بیتی ومنبری روضۃ من ریاض الجنۃ۔‘‘ آقا علیہ الصلوۃ والسلام جہاں مدفون ہیں اس جگہ کا درجہ کعبۃ اللہ عرش وکرسی سے بھی بلند ہے۔ جوق در جوق ساری دنیا سے خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے رنگ ونسل کے امتیاز کو بھلائے، ذات پات کے چھنبیلوں سے کہیں دور، شاہ وگدا سب ایک ہو کر اپنے آقا علیہ السلام کے حضور ہدیہ صلوۃ وسلام پیش کررہے تھے ۔میرا دل ان حرمان نصیب لوگوں پر رحم کھا رہا تھا جو اتنی بڑی اور واضح حقیقت کو جھٹلاتے ہیں اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر برستی نورانی تجلیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اہل السنۃ والجماعۃ میں خود کو شمار کرنے کے باوجود احناف سے خود کو منسلک کرنے کے باوجود اور علماء حقہ علماء دیوبند سے اپنی نسبتیں استوارکرنے کے باوجود بھی نبی علیہ السلام کے مبارک جسم کو مدینہ والی قبرمیں زندہ تسلیم نہیں کرتے ؟

یہ لوگ مدینہ حاضر ہوکر اور نبی علیہ السلام کو قبر میں بے جان سمجھ کر درود کیسے پڑھتے ہوں گے ان کو درود پاک پڑھنے میں کیسے لذت آتی ہو گی؟ لذت… کونسی لذت؟؟ جب دل ودماغ میں آقا علیہ السلام کے بارے میںیہ بات سما چکی ہوکہ یہاں قبر انور میں وہ زندہ نہیں ہیں تو آپ بتلائیے کیسا صلوٰۃ وسلام اور کیسی لذت!!!

خیر!آج میرے سامنے شاہ خیرالوری کا روضہ ہے وہ چمکتی دمکتی جالیاں وہ شیخین کریمین شریفین کے جلو میں رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ…اللہ ھو اللہ!

کیفیت میں محبت رسول مزید رچتی بستی نظر آرہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دل چاہتاہے کہ اپنے آقا کو امت مرحومہ کے دکھڑے سنائو ں اہل حق کے ساتھ روا ظلم کی داستانوں کے باب کھولوں، فتنوں اور گمراہیوں کی دلدل میں دھنسی امت کی زبوں حالی کے تذکرے شروع کروں، لبوں پر صلوٰۃ وسلام کے زمزمے ہیں، دل آہوں کے پردرد نالوں سے معمور ہے…اور ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں بس دل چاہ رہاہے کہ

روضے کے سامنے یہ دعائیں مانگتا تھا

میری جان نکل تو جائے یہ سماں بدل نہ جائے

اس شام کی سحر … اے کاش کبھی نہ ہو جس میں؛میں گنبد خضراء کے سایہ عاطفت میں پناہ گزیں ہوا…حکیم الاسلام قاری محمد طیب مرحوم کا کلام میری آہوں کے ساتھ ہی زبان سے صادر ہو رہاتھا:

عجب مشکل میں کارواں ہے نہ کوئی جادہ نہ پاسبان ہے

بشکل رہبر چھپے ہیں راہزن تمہی ذرا انتقام لے لو

اللہ اکبر! اگر میں اپنی رقت آمیزی کا تذکرہ زیادہ کروں اندیشہ ہے تصنع سمجھا جانے لگے لیکن واللہ بخدا دکھلاوا نہیں یہ تو میری اس وقت کی وہ حالت جس کو میں ہزار کوشش کے باوجود بھی نوک قلم پر نہیں لا سکتا،جب کبھی آنسوئوں کو پونچھتا ہوں تو پلکوں کے ورے سے ندامت ومحبت کے آنسو کی ایک اور لہرامڈ آتی ہے مولاناحالی کا کلام بھی میرے لبوں پر آرہاتھا۔

اے خاصئہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑاہے

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیںتمہارے

نسبت بہت اچھی ہے…اگر حال برا ہے

چشم نم تربتر تھی، میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آج تیرے ماننے فرقہ واریت کی آگ میںجُھلس رہے ہیں، آج تیری رداء ختم نبوت کو چرانے والے کھلے عام اسلام کا حلیہ مسخ کررہے ہیں، آقا !اب تیری امت میں وہ بد نصیب بھی پیدا ہوچکے ہیں جو تیرے فرامین ذی وقار کو حجت نہیں مانتے ۔آقا! تیرے اصحاب کے دشمن بھی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ایک اصحاب کی ذات کو نہیں مانتے دوسرے تیرے اصحاب کی بات کو نہیں مانتے، تیرے سچے جانثاروں پر الزامات کے طومار باندھے جارہے ہیں ۔آقا!جن لوگوں نے تیری اتباع کی وجہ سے مقام ولایت حاصل کیاتھا، آج ان کا نام لے لے کر انہیںگالیاں دی جارہی ہیں۔آقا! خانہ خدا کو چھوڑ کر تیری امت میلوں ٹھیلوں پر’’روح کی غذا ‘‘تلاش کر رہی ہے۔آقا! تیری امت !ننگ دھڑنگ قسم کے اوباش لوگوں کو اپنا مقتداء سمجھ بیٹھی ہے۔جعلی پیر اور بہروپیے؛ اولیاء اللہ کا روپ دھارے اہل اسلام کے ایمان کو لوٹ رہے ہیں ۔جبے ودستار کی چکاچوند ’’تجلیوں‘‘ سے لوگوں کے ایمان کے چراغ گل کر رہے ہیں ۔ایک ایسے اسلام کو جس میںڈاڑھی اور پردہ سے لے کر اسلامی حدود وقصاص تک کو فرسودہ کہا جارہا ہے یعنی’’ ماڈرن اسلام‘‘ کو نافذ کرنے والے دانشورصبح وشام اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں …

ہر سو خوف و وحشت ہے شرک کی طوفان خیز آندھیاں اس زور سے چل پڑی ہیں کہ اس نے صحیح غلط کی پہچان ایک آزمائش بن چکی ہے ۔ آقا! آج تیری امت بد اعمالیوں میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اورسود، رشوت، جھوٹ، والدین کی نافرمانی، زنا ، غیبت، شرک،ترک صلوۃ، چغلی، بدخواہی وغیرہ جیسی مہلک امراض کا شکار ہورہی ہے۔ آقا ! آج تیری امت کے دولت مند ؛غریب کے منہ کا نوالہ چھین کر اپنے پیٹ پال رہے ہیں۔ آقا! حق بات کہنا سننا جرم کی حیثیت رکھتاہے۔ آقا ! آج آپ کے اور آپ کے بھائیوں (انبیاء کرام) کے ورثاء بہت کڑے امتحان میں ہیں۔ آقا ! ہماری سفارش فرمائیے ۔آقا! اپنے اللہ کے حضور دعا کریں کہ آپ کی امت پھر سے متحد ہو جائے، اسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے، بدعت کی ظلمت ختم ہواورسنت کا نور عام ہوجائے۔ آقا! میں تیرا ایک ادنیٰ امتی رحم کی امید لیے دست بستہ کھڑا ہوں۔ آقا! میرے لیے بھی دعا فرمائیے کل قیامت کو میرے لیے شفاعت بھی فرمائیے گا آقا !آقا !آقا !میں اس قابل تونہیں تھا کہ تیرے دربارمیں حاضر ی کی سعادت حاصل کرتا لیکن ؎

تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب

گنبد خضرا سایا…میں تو اس قابل نہ تھا

٭٭٭

مرکز اھل السنت والجماعت میں علم کی بہاریں :

کامیابی کا مدار دو چیزوں پرہے؛ ایمان اور اعمال صالحہ ۔پھر ان میں سے ایمان کو فوقیت حاصل ہے، یعنی ایمان درست ہوتوبغیراعمال …یا اعمال میں کوتاہی …کے باوجود بھی نجات ممکن ہے اور اگر ایمان درست نہ ہوا محض اعمال ہی اعمال ہوئے…الذین ضل سعیھم … توپھر قیامت کے دن یہ چیز بالکل کام نہیں آئے گی ۔

ابدی اور دائمی نجات منحصر ہے ایمان اور اعمال صالحہ پر۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ایک اہم بات جو آپ کے نظر گزار کرنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ آج کے اس پرفتن دورمیںایمان اور اعمال صالحہ کی حفاظت کیسے ممکن ہے ؟اور محافظین کو کن چیزوں سے خود کو لیس رکھنا ضروری ہے ؟

جواہل اسلام کے عقائد ونظریات ہیں وہ باقی ادیان کے مقابلے میں بالکل صحیح ہیں عیسائیت، یہودیت، قادیانیت، ہندومت وغیرہ اسلام کے متوازی ادیان ہیں جنہیں ہر مسلمان کفر سمجھتاہے اسی طرح اعمال میں اہل السنت والجماعت کے متوازی چند فرقے ہیں جن کی بنیادی انسانی عقل نارساہے نیچریت، سیکولر ازم وغیرہ ،یہ لوگ اسلام کی مقتدر شخصیات کے علم و تفقہ کو اہمیت نہیں دیتے حتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے فتاویٰ جات کوبھی بڑی دیدہ دلیری سے ٹھکراتے ہیں اور ائمہ متبوعین پر زبان طعن دراز کرنا ان کا شیوہ ہے۔

قرآن کی تعلیمات میں ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ صراط الذین انعمت علیھم ان لوگوں کا راستہ صراط مستقیم کی عملی تصویر ہے جن لوگوں پر خدائے لم یزل نے انعامات کی موسلادھار بارش برسائی جیساکہ نبی کریمﷺ کے ارشادات میں بھی یہ موجود ہے: اللہ تعالی جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ (تفقہ) عطافرماتے ہیں۔‘‘

اس لیے اس امت کا کثیرحصہ ان کی اتباع وتقلیدمیں زندگی بسر کررہاہے۔ مسائل اجتہادیہ میں امت مرحومہ اپنے جلیل القدر چار ائمہ امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی مدون کردہ فقہ پر عمل پیراہے۔

قارئین کرام !دورحاضر میں نت نئی علمی واعتقادی گمراہیاں جنم لی رہی ہیں اور وہ وقت ہمیں بالکل قریب نظرآرہاہے جس کے بارے میں سواچودہ سو برس قبل آنحضرت ﷺ نے فرمایاتھا کہ قریب قیامت میں فتنے اس قدر ہوں گے کہ جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے گرنے لگ جائیں…صبح کو ایک شخص مومن ہو گا تو شام کو کافر لوٹے گا…شام کومومن ہوگا تو صبح کافر اٹھے گا۔

راقم اپنی دانست کے مطابق ان تمام گمراہیوں کی بنیاد اساطین امت اور صلحاء امت پر عدم اعتماد کو سمجھتاہے بالفاظ دیگر ترک تقلید ۔ہمارے اس معاشرے میں پہلے ہی دینی تعلیم کی بہت کمی ہے ذہنی آوارگی اور بے راہ روی اس قدر ہے کہ نام نہاد ’’مسلمان‘‘ سورۃ اخلاص دیکھ کر بھی غلط پڑھتے ہیں روزمرہ کے پیش آمدہ مسائل میں اسلامی احکام سے تقریباً تقریباً لوگ ناآشنا ہیں اور اس پر مشتزاد ان فتنوں کی یلغار…اللہ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے۔مرکز اھل السنت والجماعت سرگودھا کی بنیاد ہی انہی مشکلات کے حل کے لیے رکھی گئی تھی الحمد للہ عرصہ پانچ سال میں بالترتیب15…20…41…61…75 فارغ التحصیل علماء کرام، مدرسین، مفتیان کرام مرکزاہل السنت والجماعت کے اساتذہ سے فیض حاصل کرکے ملک کے طول وعرض میں مسلک اھل السنت والجماعت کی اشاعت وحفاظت میں مصروف عمل ہیں۔تعلیمی سلسلے ایک کڑی شارٹ کورس ہیں جووفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات کے فورا بعد مرکز میں 12روزہ کورس بعنوان تحقیق المسائل منعقد ہوا ، جس میں 180 کے لگ بھگ دوردراز سے علمائ، طلبائ، مدرسین، واعظین، خطبائ، مقررین، ائمہ مساجد ،مفتیان کرام اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات نے شرکت کی۔

اس شارٹ کورس میں مندرجہ ذیل باتوں کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا۔

نمبر۱: تمام شرکاء کورس کے وقت کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنایاگیا۔

نمبر۲: نماز،ذکراذکار، تلاوت اور معمولات یومیہ کا بہت زیادہ خیال رکھاگیا۔

نمبر۳: اسباق میں پابندی وقت کے ساتھ شرکت لازمی بنائی گئی۔

نمبر۴: اسباق کے اتنخابات میں دور حاضر کے علمی فتنوں سے آگاہی کو ترجیح دی گئی۔

نمبر۵: سوالات جوابات کی کھلے عام اجازت دی گئی تاکہ اطمینان قلبی کے ساتھ مسلک کی حقانیت سامنے آئے ۔

نمبر۶: بالجملہ انتظامی امور میں مرکز کی انتظامیہ کو الرٹ کردیاگیا، تاکہ مہمانان گرامی کو کسی بھی پریشانی کاسامنانہ کرنا پڑے۔

نمبر۷: تمام شرکاء کو اس بات کا پابند بنایاگیا کہ وہ سیاسی اور جماعتی تبصروں سے گریز کریں۔

جن عنوانات پر دروس دیے گئے ان میں چند ایک یہ ہیں :

1صفات باری تعالیٰ2 ختم نبوت رفع ونزول عیسی علیہ السلام3 اصول مناظرہ 4تقلید کا شرعی مقام 5 پرویزیت 6جماعت المسلمین کے عقائد ونظریات7 ڈاکٹر ذاکر نائیک کا علمی محاسبہ8 بیس تراویح 9عبارات اکابروغیرہ۔

تمام اسباق کو بذریعہ انٹرنیٹ آن لائن کیاگیا اور دنیا بھر کے اھل اسلام نے اس سے استفادہ کیا بعد ازاں تمام اسباق کی ڈی وی ڈیز تیار کرلی گئی ہیں تاکہ یہ کام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے اور ضرورت کے وقت اس استفادہ کیاجائے ڈی وی ڈی منگوانے والے حضرات:اس نمبر پر رابطہ کریں 6353540 0321- 0332-4959155,اللہ ہم سب کو مسلک اھل السنت والجماعت پرکاربند رکھے۔ آمین

Read 6873 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) گنبد خضراء کا سایہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company