AhnafMedia

سلام پھیلائو

Rate this item
(2 votes)

سلام پھیلائو

فیاض الرحمن گنجیال

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہم مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ جو دستور العمل ہمیں قرآن وسنت سے ملتا ہے، اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے کا طریقہ ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایاہے آج ہم اس سے غافل ہیں بلکہ ظلم بالائے ظلم ہم نے اس کو چھوڑ کرغیروں کے طریقوں کو اپنا دستورالعمل بنا لیا ہے حقیقیت یہ ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت میں غور و فکر کریں تو ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات ملتا ہے مثال کے طور پر یہی ایک ’’سلام‘‘ ہی لے لیں اگر ہم اس کے فضائل قرآن وسنت کی روشنی میں آپ کے سامنے بیان کرنا شروع کر دیں تومضمون بہت طویل ہو جائے گا ۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَا اَوْرُدُّوْھَا۔اور جب تمہیں سلام کیاجائے تو اس کا جواب اچھے انداز سے دو یا وہی الفاظ لٹا دو

روایات میں آتاہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنی جگہ تشریف فرماتھے کہ ایک صحابی تشریف لائے اورعرض کیا :’’السلام علیک یارسول اللہ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ پھرایک اورصحابی تشریف لائے اورعرض کیا : ’’السلام علیک ورحمۃ اللہ یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر ایک صحابی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اورعرض کیا : ’’السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وعلیک فرمایا ۔ تو صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ! پہلے جوصحابی تشریف لائے ان کے جواب میں آپ نے ایک لفظ کی زیادتی کی اور میرے جواب میں آپ نے وعلیک پراکتفا فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آپ نے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں جس کی ہم زیادتی کرتے چنانچہ ہم نے قرآن کے حکم مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفا فرمایا اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیاہے۔

اس حدیث سے ہمیں ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ سلام کے جواب میں ایک لفظ کی زیادتی کرو مثلاً السلام علیک کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنا چاہیے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ الفاظ کی زیادتی تین الفاظ تک مسنون ہے اس سے زیادہ مسنون نہیں اگر اس پرکسی لفظ کی زیادتی سنت سمجھ کرکی گئی تو یہ بدعت بن جائے گی اور یہ بہت بڑا گناہ ہے وجہ اس کی واضح ہے کہ سلام کا موقع مختصر کلام کامقتضی ہے ا س میں کلام مناسب ہی نہیں کہ مخاطب کو اس سے تکلیف ہو ۔تیسرا اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سلام کے جواب میں اگر وعلیک پر اکتفا کیاجائے تو حکم قرآن اَوْرُدُّ وْھَا پر عمل ہوجائے گا۔خلاصہ یہ کہ سلام کاجواب واجب ہے اگر جواب نہ دے گا توگناہ گار ہوگا جبکہ دینے والے کو اختیار ہے کہ جواب میں الفاظ کی زیادتی کرے یا وہی الفاظ لوٹا دے۔ایک اورحدیث میں حکم دیا گیا ہے :’’ آپس میں سلام پھیلائو ۔‘‘ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم ایمان لائو اور تم کامل مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ تم آپس میں محبت کروکیا میں ایسی بات کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کرو کہ جس کی وجہ سے تم آپس میں محبت کرو آپس میں سلام پھیلائو۔‘‘

قارئین کرام ! انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ایسے اعمال کرے جس کے بدلے اسے جنت ملے تو آپ نے جنت میں داخلے کا سبب ایمان لانا بتلایا ہے اور ایمان اس وقت تک کامل نہیں جب تک آپس میں محبت نہ ہو اور آپس میں محبت بڑھانے کا سبب آپ نے بتلایا کہ سلام پھیلائو اس سے معلوم ہوا کہ آپس میں محبت بڑھانے کاسبب سلام پھیلانا ہے نہ کہ ہیلو!ہائے وغیرہ جیسے بے ہودہ الفاظ کفار نے محنت کرکرے ہمارے بچے سے لے کر بوڑھے تک کو اپنے الفاظ رٹا لیے ہیں اور ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ بجائے اپنے نبی کی سنت کو پھیلانے کے انہی کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ ہمیں محبت کے ساتھ آپس میں سلام پھیلانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

Read 2187 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) سلام پھیلائو

By: Cogent Devs - A Design & Development Company