AhnafMedia

آب حیات

Rate this item
(2 votes)

آب حیات

محمد فاروق ضمیر

کار کا پہیہ پنکچر ہوا اور کربی کو جھلستے ہوئے صحرا میں پہیہ بدلنے کی مشقت سے گزرنا پڑا۔ پہیہ بدلتے ہوئے اس کا لباس پسینے کے باعث جسم سے چپک گیا۔ اسے اپنے آپ سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔ اچانک گھوڑے کی ہنہناہٹ سن کر اس نے مڑ کر دیکھا اور پھر وہ کئی لمحوں تک سن ہو کر رہ گیا۔ سو گز کے فاصلے پر کم از کم پچاس گھڑ سوار نیم دائرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ ان کی نگاہیں کربی پر گڑی تھیں اور غصے سے سرخ چہروں سے ان کے برے ارادے ظاہر ہو رہے تھے۔اس نیم دائرے سے غصیلی شکل کا ایک شہسوار گھوڑے کو دلکی چال چلاتا اس کی طرف بڑھا، کوئی اور گھوڑا پھر ہنہنایا۔ کربی اٹھ کھڑا ہوا پسینہ اس کے ماتھے سے ٹپک رہا تھا۔

آنے والے کو اس نے فوراً پہچان لیا ’’السلام علیکم محترم شیخ یوسف!‘‘ اس نے کہا۔پھر مصافحے کے لیے آگے بڑھا تو گھڑ سوار نے اس کا آگے پھیلا ہوا ہاتھ نظر انداز کر دیا۔ کربی صورت حال کی سنگینی اور نزاکت بھانپ کر خوفزدہ ہوگیا۔ وہ اس خطے کے آداب اور تمدن سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔ وہ نابلس میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے شام ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب بڑا ہوا تو اعلی تعلیم کے لیے امریکا بھیج دیا گیا جہاں اس نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ کیبل کمپنی نے اسے شام میں نابو کے مقام پر اپنی ایک کان میں اعلی عہدے کی پیش کش کی اور یوں وہ شام واپس آگیا۔

وہ جانتا تھا کہ جب کوئی مصافحے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ نظر انداز کر دے تو وہ دوست نہیں ہوتا۔ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے شیخ یوسف نے کہنا شروع کیا: ’’کربی صاحب! آپ کے خیمے کے باہر کالا اونٹ بیٹھ چکا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ دو راتیں گزریں جب میرا ایک عزیز بنو زیاد قتل کر دیا گیا تھا۔۔۔۔‘‘

کربی نے اپنے ہوش و حواس سنبھالتے ہوئے جواب دیا: ’’اللہ بنو زیاد پر اپنی رحمت نازل کرے! اس کی قبر سے ہمیشہ گلاب کے پھولوں کی مہک آتی رہے اور وہ کروٹ کروٹ۔۔۔۔‘‘

شیخ یوسف نے بڑے تیز اور درشت لہجے میں کربی کی بات کاٹ دی۔ اس کا لہجہ بھی یکسر بدل گیا تھا۔ وہ بولا: ’’کربی! تمھارے یہ خوشامدی جملے مجھے متاثر نہیں کر سکتے۔ تم اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مجھے ہرگز چکما نہیں دے سکتے۔ بنو زیاد کو تمھارے خیمے کے سامنے گولی ماری گئی تھی۔۔۔۔ کان کے اس علاقے میں جس کے بڑے افسر تم ہو۔۔۔۔‘‘

معاملہ بگڑتا جا رہا تھا۔ کربی نے بڑے جذباتی انداز میں جواب دیا: ’’اس جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو میرے محترم شیخ یوسف، جس نے آپ کو ورغلایا۔ ہاں جیسا آپ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو وہاں گولی ماری گئی تھی تو شیخ، وہ شخص آپ کے معزز قبیلے کا رکن نہیں تھا۔ وہ تو آوارہ گرد اور چور تھا۔ گارڈ کے سپاہیوں نے اسے میرے خیمے سے گھسٹتے ہوئے باہر نکلتے دیکھا۔ رات بڑی تاریک تھی، اس لیے کوئی اس کی صورت نہ دیکھ سکا۔ وہ خیمے سے کینوس کا بیگ چوری کرکے نکلا تھا، جس میں مزدوروں کی تنخواہ کی رقم تھی۔ گارڈ نے گولی چلائی اور وہ چور گر پڑا۔ جب ہم وہاں لالٹین لے کر پہنچے تو چور کے ساتھی اس کی لاش گھسیٹ کر لے جا چکے تھے۔ میں اس وقت پولیس اسٹیشن ہی سے آ رہا ہوں جہاں میں نے چوری کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ وہ شخص چور تھا جسے گولی ماری گئی شیخ یوسف! آپ کا احترام۔۔۔۔‘‘ ’’تم وقت ضائع کر رہے ہو کربی !‘‘ شیخ یوسف نے تیزی سے کہا۔ ’’تم جانتے ہو کہ یہاں کا قانون کیا ہے؟‘‘ کربی نے اپنے آپ سے کہا۔ ہاں! میں یہاں کا قانون جانتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل۔۔۔۔ جان کے بدلے جان، دانت کے بدلے دانت۔۔۔۔ اور چونکہ چور اس علاقے میں اس کے آدمیوں سے مارا گیا ہے، اس لیے اس قتل کا ذمے دار بھی وہی ہے۔ مقامی اور قبائلی قانون کے تحت وہی سزا کا حق دار تھا۔

کربی نے آنکھیں اٹھا کر سو ڈیڑھ سو گز دور کھڑے گھڑ سواروں کو دیکھا۔ نیم دائرے میں کھڑے تمام سوار اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ تلواروں اور نیزوں سے لیس تھے۔ بعضوں کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔ کربی نے سوچا ’’شیخ یوسف کا ایک اشارہ پا کر وہ سب مجھ پر پل پڑیں گے، میری کی تکا بوٹی کرکے رکھ دیں گے، میں یہاں صحرا میں ہوں۔ دور دور تک کوئی جان دار ہے نہ آبادی، مجھے کسی طرف سے کسی طور مدد نہیں مل سکتی۔ کسی طرح بھی میں کسی کو اپنی جان بچانے کے لیے آواز نہیں دے سکتا۔ ترکی فوجوں کی چھاؤنی دور ہے۔۔۔۔ پولیس کا تھانہ اس سے بھی دور ہے اور کان کے محافظ بھی پہنچ سے باہر ہیں۔۔۔۔‘‘ اس نے اپنی کار کو کوسا جس کا پہیہ پنکچر ہوا اور اسے رکنا پڑا، اب وہ دشمنوں کے نرغے میں تھا۔ زمین سخت سنگلاخ تھی اور آسمان بہت دور۔۔۔۔ جان پر بنی ہو تو ذہن تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔۔۔۔ اور پھر اس نے بڑی سنجیدگی سے شیخ یوسف کو مخاطب کیا: ’’اے شیخ! میرا حلق پیاس سے خشک ہو رہا ہے۔ میں اس علاقے میں تمھارا مہمان ہوں اور میں جانتا ہوں کہ عربوں کی مہمان نوازی اپنی مثل آپ ہے۔ مجھے پانی پلاؤ۔‘‘

شیخ یوسف کے چہرے پر بے چینی تھی۔ اس نے جلدی سے مشکیزے کے ساتھ لٹکا ہوا کدو کا بنا پیالہ اتار کر مشکیزہ کھولا اور پیالہ پانی سے بھر کر کربی کو تھما دیا۔ کربی نے پیالہ تھام کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور پیالے کو ہونٹوں سے چھو کر پیچھے ہٹا لیا۔ ’’دیر مت کرو، جلدی سے پانی پیو۔‘‘ غصیلے شیخ یوسف کی درشت آواز صحرا میں گونجی۔ ’’جلدی پانی پیو اور بتاؤ تم تلوار سے مرنا پسند کرو گے یا بندوق کی گولی یا خنجر سے۔۔۔۔؟‘‘ کربی نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا: ’’اے شیخ! یہ تمھارے قبیلے کی روایت ہے کہ وہ شخص جو کھا یا پی رہا ہو، اسے کھانے اور پینے کے دوران میں کبھی قتل نہیں کیا جاتا، اس پر کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا۔‘‘ ’’بڑ بڑ مت کرو۔ میں اپنی روایات تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ شیخ یوسف کے لہجے میں غصہ اور بے چینی نمایاں تھی۔ ’’جب تک تم پانی نہ پی لوگے، تم پر کوئی وار نہیں کرے گا۔ پیالہ جلدی سے خالی کر دو۔۔۔۔‘‘

’’معزز شیخ! لیکن مجھے آپ کے ساتھیوں پر اعتماد نہیں۔۔۔‘‘

’’ہاں، ہاں جب تک تم یہ پانی نہیں پی لو گے، تم پر نہ میں وار کر سکتا ہوں نہ میرے قبیلے کا کوئی فرد، لیکن باتیں مت بناؤ۔ اس سے تمھیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ تم اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہو۔ تمھیں مرنا ہے اور بس۔۔۔۔‘‘ کربی نے ایک بھرپور نگاہ شیخ یوسف پر ڈالی۔ کدو کا بنا ہوا پیالہ دونوں ہاتھ میں اوپر اٹھایا اور پھر اسے الٹ دیا۔ پانی صحرا کی ریتلی زمین پر گرا جسے صدیوں کی جھلسی ہوئی ریت نے لمحوں میں جذب کر لیا۔ ’’شکریہ یا شیخ!‘‘ کربی نے کہا: ’’وہ پانی جسے ختم کرنے اور پینے سے پہلے تم اور تمھارے قبیلے کا کوئی فرد مجھ پر وار نہیں کر سکتا، صحرا کی ریت میں جذب ہوگیا ہے۔ اپنے آدمیوں سے کہو وہ ریت سے قطرہ قطرہ کرکے وہ پانی پھر سے اس کدو کے پیالے میں جمع کریں اور پھر میں اسے پی لوں۔ جب تک یہ پانی تم اور تمھارے آدمی ریت سے قطرہ قطرہ نکال کر پھر سے پیالے میں جمع نہیں کر لیتے، تم اور تمھارے آدمی مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہی تمھارا قاعدہ ہے۔ یہی قول تم نے مجھے دیا ہے۔۔۔ ‘‘ شیخ یوسف کے چہرے پر جو غصہ اور بے چینی تھی وہ بے بسی میں تبدیل ہوگئی۔ کربی بڑے اعتماد اور خاموشی سے مڑا اور کار کے پاس بیٹھ کر پہیہ کسنے لگا۔ اس کے دل سے خوف نکل چکا تھا۔ چند منٹ بعد اس نے آنکھیں اوپر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔ جس خاموشی سے شیخ یوسف اسے ٹھکانے لگانے اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا تھا، اسی خاموشی سے وہ جا چکا تھا۔ کربی نے زمین کے اتنے حصے کو دیکھا جس کی ریت کچھ نم اور بھربھری تھی۔ وہ مسکرایا: ’’یہ وہ آب حیات ہے جسے میں نے چکھا نہیں اور زندہ رہا۔ چکھ لیتا تو زندہ نہ رہتا۔۔۔۔‘‘ پھر وہ تیزی سے پہیے کے قبضے کسنے لگا!

Read 2549 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) آب حیات

By: Cogent Devs - A Design & Development Company