AhnafMedia

بے آواز لاٹھی

Rate this item
(2 votes)

بے آواز لاٹھی

عرفانہ فانی، اٹک

آپ بہت ہی دین داراور پاکیزہ صفات کی حامل خاتوں تھیں احادیث مبارکہ کا بڑا ذخیرہ آپ سے مروی ہے ۔ ۴۴ھ کا زمانہ تھا جب مومنین کی ماں (امی جان ) مدینہ منورہ میں راہی ملک بقا ہوئیں جنت البقیع میں آپ کو دفن کردیا گیا اور آج بھی جنت کے مزے لی رہی ہیں ۔

ادا شاہ میر کے بابا کی کیسی طبعیت ہے۔ بھر جائی سلطانہ مجمع سے نکلتے دیکھ کر میری جانب لپکی۔ بس ادی رب سائیں سے دعا کرودواداروتوحکیم جی کررہے ہیں میں نے چہرے پر جان بوجھ کر پریشانی والے آثارپیداکرکے لہجے کوافسردہ کرتے ہوئے کہا۔ میری بات سنتے ہی بھرجائی کے چہرے پرزرد رنگ پھیل گیااوراس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ماں کوروتا دیکھ کر صحن میں بیٹھ کر کنچے کھیلتاچھ سالہ شاہ میر دوڑاہواآیااورکہنے لگا:’’ اماں! تم کیوں روتی ہو؟ کچھ نہیں بیٹا میں تو نہیں رو رہی ہوں۔ اپنے آنچل کے پلو سے آنسو پونچھ کر بھر جائی ’’رسولی‘‘ کی جانب چلی گئی۔

٭٭٭

میں اپنا تعارف توکرواتاچلوں۔ میرانام خدا بخش ہے اور ادامیر شاہ میراچچازاد اور میرابچپن کاگہرا بیلی ہے ہم دونوں کی بچپن ہی سے دوستی بڑی مشہورہے۔ نجانے اس بچپن کی دوستی میں دراڑیں حسد اورلالچ نے کب پیداکیں؟ پتہ ہی نہیں چلا!لیکن یہ دراڑیں صرف میرے ہی دل میں تھیں ادا میر شاہ کادل تو اسی طرح دوستی اورخلوص سے بھراہواتھا۔

ادامیرشروع ہی سے ہر میداں میں مجھ سے آگے تھا۔ بچپن اورلڑکپن میں تو ان چیزوں کا احساس نہیں ہوتالیکن جوانی کے دور میں مجھ میں حسد اور جلن نے سراٹھاناشروع کیا۔ ادا میرکاباپ یعنی کہ میراچچاکافی غریب تھا لیکن ادا میر نے جوان ہوکر انتھک محنت کرنا شروع کردی تا کہ ان کی زمین سونا اُگلنے لگے۔ ہر دفعہ نئی فصل بیچنے کے بعد منافع کو فضول قسم کے عیش و عشرت میں لٹاکر وہ نئی زمین خرید لیتا۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے بہترین اخلاق کی بدولت چھوٹے، بڑے اور بستی کے سب لوگوں میں ہر دلعزیز تھا۔ جب کہ اس کے برعکس میں بالکل الٹ تھا جوانی اور جائیدادوں کے نشے نے مجھے بڑا مغرور کررکھا تھا۔کھیتوں پر محنت کرنے سے تو میں جی چراتا البتہ شکاراوراس جیسے اوربھی میرزادوں والے بہت سے فضول مشغلے میں نے پال رکھے تھے ۔ مجھ میں نفرت کی جڑیںاس وقت گہری ہوگئیںجب دریائے سندھ کے کنارے لگنے والے سالانہ میلے میں اس نے تیراکی مقابلے میں مجھے شکست دے دی۔ حسد سے میرا سینہ جلنے لگا ۔ دوسری طرف ادا میر کی ترقی کی شرح بڑھی ہی جارہی تھی اب تو اس کے کھیتوں کے لیے قسطوں پر ٹریکٹر بھی خرید لیا تھا اوراس کے باڑے میں کھڑے مویشیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ متقی پرہیز گار ادا میر کو دیکھ کرمیرے اندرکی جلن بڑھ جاتی مگر بظاہرمیری اوراس کے دوستی میں کوئی فرق نہیںآیا۔ وہ مجھے میری حرکتوں سے روکتا مگر میں اسے ٹال دیتا۔

ادا میرشادی کرکے اپنے بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہاتھاکہ اس کے خوشیوں بھرے گھرانے کوکسی کی نظر لگ گئی۔ ادا میر بہت سخت بیمارہوگیا پہلے توقبیلے میں موجود حکیم جی سے علاج کروایامگر ’’مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی‘‘ جب شہر والے ڈاکٹر کوجاکر چیک کروایا توپتہ چلاکہ ادا میرکوخون کا کینسر ہو چکا ہے۔ ادامیرکاشہر سے علاج کروانے کے لیے میں ہی جاتا۔ بھرجائی سلطانہ دونوں ہاتھوں سے اپنے شوہر کی تندرستی کے لے جمع پونجی لٹا رہی تھی۔ میرے اندر کاشیطان بیدارہوگیا اورمیں دونوں ہاتھوں سے ادا میر کی حلال کی کمائی لوٹنے لگا ۔ادا میر شاہ کے علاج کے بہانے بڑی بڑی رقمیں بٹورکرمیں اپنی جیب گرم کررہا تھا۔

میراشاطر ذہن بڑی تیزی سے منصوبے بناکران پر عمل بھی کررہا تھااورادامیر شاہ تشکر اور احسان کے بوجھ تلے دبا جا رہاتھا ادامیر کاکوئی بھائی نہ تھا اورمجھے کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ادا میر کی بیماری میں اس کے تمام مال ودولت پر میرا قبضہ ہوچکا تھا۔ مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے ادا میر کاجانبرہونا ناممکن دکھائی دے رہا تھا میرے منصوبے اپنے ہدف کو پوراکرنے والے تھے۔ ابھی میں سویرے سوکر ہی اٹھا کہ ادا میر کے گھر سے اس کی طبعیت بگڑنے کا پیغام آگیا میں حکیم جی کو لے کر ادا میر کے گھر گیا جب میں کمرے سے نکلا اور بھرجائی کی امید کو توڑتے ہوئے میں ادامیر کے گھر سے نکل آیا۔

دن تین بجے ادا میر کے مرنے کی خبر آگئی کچھ دن بعد جرگے نے فیصلہ سنایا کہ ادا میر کی بیوہ اور اس کے بچوں کی ذمہ داری میرے سپرد ہے کیونکہ ادا میرنے اپنے وصیت نامہ میںمرنے کے بعد اپنے بچوں اور مال کا نگران مجھے مقرر کیاتھا۔ میرے تمام منصوبے بالکل مکمل ہوگئے اور کسی کو شک بھی نہ ہوا۔ الٹا پوری بستی میں میری دوستی اورخلوص کی واہ واہ ہوگئی ۔ مگر ادا میر کی بیوہ سلطانہ میرے کھیل کو سمجھ چکی تھی۔ اپنے گھر میں عدت مکمل کرکے وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی :’’اداخدابخش! میں نے اپنے معاملہ کو بڑی عدالت میں پیش کردیا میں تم پر کوئی دعویٰ نہیں کروں گی ۔ میں اپنے بھائیوں کے پاس جارہی ہوں’’کاشف میر‘‘ کو اپنے ساتھ لے جارہی ہوں اور’’شاہ میر‘‘ کو تمہارے حوالے کیے جارہی ہوں۔ میرے سائیں کاخواب اگر تم نے پوراکردیا میرے بچے کو پڑھا لکھا دیا تو میں سارے ظلم معاف کردوں گی۔ میرے پاس اتنا تو ہے کہ ’’شاہ میر‘‘ کاپیٹ بھر جائے مگر اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنا کر اس کے بابا سائیں کی خواہش پوری کرنے کے لیے اس کو تمہارے پاس چھوڑے جارہی ہوں۔‘‘

٭٭٭ شاہ میر میرے گھر میں میرے بچوں کے ساتھ پلنے لگا مگر یہ بات مجھے گوارا نہ تھی ۔شاہ میر جوان ہونے کے بعد اپنے حق کے لیے میرے سامنے آکرکھڑا ہوسکتا تھا ظاہر ہے علم حاصل کرکے شعور آجانے کے بدولت اس نے ایسا کرنا تھا اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔

اس لیے میرے برے سلوک کے باعث ایک مہینے کے بعد ہی ’’شاہ میر‘‘ اپنی ماںکے پاس چلا گیا۔ سننے میں آیاکہ ادی سلطانہ محنت مزدوری کرکے دونوں بچوں کاپیٹ پالنے لگی اس کے بھائی خود بہت غریب تھے۔ ادی سلطانہ نے شاہ میرکوسکول سے اٹھواکر مسجد میں قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے ڈال دیا۔ جس دن میں نے شاہ میرکواپنے گھرسے نکالاتھااس دن میں میری بیوی نجمہ مجھ سے بہت لڑی اور مجھ سے کہا مولاسائیں کے قہر سے ڈر!خداطش توتوفرعون بنا بیٹھا ہے اگرتیرے کرتوتوں کاگائوں والوں کوپتہ چل گیاتوتیراکیاحشر ہوگا؟ادے کسی کو کیاپتاچلے گامیںنے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ ادی سلطانہ کامیکہ اتنا مضبوط نہیں کہ وہ کچھ کارروائی کرسکیںاوررہے ادامیر کے بچے تو بڑے والاتوبچپن سے ہی ’’جَھلّا‘‘ہے اوراس کاٹھیک ہونے کا امکان نہیں۔ اور شاہ میر کوادی سلطانہ نے مسجد میں ڈال دیا ہے زیادہ سے زیادہ وہ قرآن حفظ کرکے امام مسجد لگ جائے گا۔ساری زندگی وہ کبھی اتنا باآثر ہوسکے گا کہ میرے مقابل آئے؟؟؟

ٹھیک ہے تیرے منصوبے بڑے ہی پکے کیوں نہ ہو۔ پر اتنا یاد رکھ کہ ’’ر ب سائیں کی لاٹھی بے آواز ہے‘‘ اورمیری بات سن لے کہ میں نے تیرے مال سے کچھ نہیں کھانا میں یتیموں کا مال کھاکر اپنے آپ کوجہنم کا ایندھن نہیں بنا سکتی۔ میرے پاس اتنا رب کا دیا ہے کہ میں روٹی چٹنی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن پورے کرلوں۔ اس کے بعد میری بیوی نے میکہ سے ملنے والی وراثت سے اپنا خرچ پورا کیا میرے سے ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی اپنی بیوی کے واضح الفاظ میں بھی سمجھانے کے بعد آنکھوں سے لالچ کی پٹی نہ ہٹی اورمیں گناہوں کے دلدل میںہی اترتا چلا گیا میرے بیٹے بھی فطرت کے لحاظ سے مجھ پر ہی گئے تھے ۔ میں نے تو ان کے لیے ہی یہ سب کچھ کیا تھا کہ وہ مشکل میں نہ پڑیں مگر انہوں نے غلط رستے ہی چنے ۔ادا میر کی زمینیں سونا اگل رہی تھیں مگر اس کے اصلی وارث بے یارو مددگار تھے اور ہم عیش کر رہے تھے ۔وقت گزرتا گیا اللہ سائیں نے اپنی رسی کو کھینچنا شروع کیا میری لاڈی بیٹی ’’مہر جان ‘‘کے سسرال والے حد سے زیادہ لالچی اور ظالم نکلے اپنی بیٹی میں میری جان تھی اس کا دکھ میٹھے روگ کی طرح لگ گیا میں اب بوڑھا ہو رہا تھا میرے ہاتھوں میں اتنی سکت نہ تھی کہ اتنی زیادہ محنت کر سکوں ۔

میرا بڑا بیٹا غلام بخش برے دوستوں کی صحبت کے باعث قتل کے الزام میں گرفتار ہوگیا اسے پھانسی کی سزا ہونا تھی مقدمے اور پیشیاں بھگت بھگت کر میں آدھا بھی نہ رہا ۔پانی کی طرح پیسا بھی بہایا آخر کار اسے عمر قید کی سزا ہوگئی ۔عدالتوں کے چکر میں میرا بال بال مقروض ہوگیا اچانک قدرت کی طرف سے ایسا وار ہوا کہ میں بوکھلا گیا ۔ رسول بخش جوکہ غلام بخش سے چھوٹا تھاایک دن گھرآیااورکہنے لگا:’’ باباسائیں! میری امانت سنبھال کر رکھنا میں کچھ سامان گھر میں چھوڑنے جارہاہوں۔‘‘ میں نے گھر میں جاکر یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کہ وہ کیارکھ کر جارہاہے اس کے جانے کے تین گھنٹے بعد پولیس نے چھاپہ مارکرمیرے گھر سے اسلحہ اورمنشیات سمیت مجھے اور’’رسول بخش‘‘ کوگرفتارکرلیا۔جیل میں خبر آئی کہ میری بیوی ’’نجمہ‘‘ جوکہ ایک نیک عورت تھی اپنے بھتیجے کی ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے گئی ہوئی تھی وہیں زائرین کی بس الٹ جانے کے باعث شہید ہوگئی۔

٭٭٭

میری ضمانت منظورنہیں ہورہی تھی۔ مگرآج ایس، ایس، پی ’’شاہ میر‘‘ نے میری ضمانت منظورکروائی۔آپ حیران نہ ہوں ادا میر شاہ کا بیٹا ’’شاہ میر‘‘ جس کے متعلق میرا خیال تھا کہ وہ کبھی میرے مقابل آہی نہیں سکے گا وہی مجھ سے بہت آگے کھڑا تھادنیا میں بھی اوردین میں بھی۔شاہ میرکوحفظ کے دوران مسجد میں آنے والی تبلیغی جماعت کی ساتھ آنے والے کوئی صاحب ثروت عالم اپنے ساتھ لے آئے اور اسے دینی اوردنیاوی دونوں قسم کے علوم سے آراستہ کیا اور سی ، ایس ، ایس کا امتحان پاس کرکے ’’شاہ میر‘‘ آج حافظ قرآن ایس، ایس، پی بنا میرے سامنے کھڑا تھا۔ ادی سلطانہ اور شاہ میر نے تو مجھے معاف کردیاہے۔

لیکن میں خود کو اپنے ہاتھوں سے لگائی جانے والی آگ میں پھینک رہاہوں غلام بخش پہلے ہی جیل کاٹ رہا ہے اوررسول بخش پرصرف منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کے ہی الزام نہیں بلکہ قتل کے بھی الزام تھے۔ اس لیے اس کو پھانسی کی سزا ہوگئی اور قبیلہ والوں نے میرے جرموں کے بدلے میں مجھ سے معاشرتی بائیکاٹ کر دیا ہے۔ میں تنہا اپنی زندگی کے دن پورے کررہاہوں۔

واقعی ’’ اللہ سائیں کی لاٹھی بے آواز ہے۔‘‘

Read 2500 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) بے آواز لاٹھی

By: Cogent Devs - A Design & Development Company