QuestionsCategory: تعویذاتتعویذ پہننا یا گھول کر پینا
محمد سلمان asked 5 years ago

تعویذ لکھ کر پہننایا پانی میں گھول کر پیناکیسا ہے؟ کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو کیا یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا؟

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 5 years ago

جواب:

جواب سے پہلے چند اصول ذہن نشین کر لیے جائیں:
1:            دم اور تعویذات کا استعمال علاج کے طور پر کیا جاتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص بیماری کا علاج کرنے کے لیے دوائی استعمال کرتا ہے تو شرعاً اس کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ دوائی کو  ہی مؤثر بالذات نہ سمجھ بیٹھے اور  اس میں ناجائز اور حرام اجزاء بھی شامل نہ ہوں ۔ اگر کوئی شخص بخار کی دوائی استعمال کرتا ہے تو اتنی بات کافی ہے کہ اس میں حرام اجزاء شامل نہ ہوں، اس شخص سے یہ مطالبہ کرنا کہ دوائی کا نسخہ ، وزن ، ترکیب استعمال اور پرہیز وغیرہ کا  ثبوت شریعت میں دکھائے، غلط ہے۔ بعینہ اسی طرح دم اور تعویذ وغیرہ بھی طریقہ ہائے علاج ہیں جو خالص دنیوی امور ہیں ان کے لیے  یہ تو ضروری ہے کہ  تعویذات کے استعمال میں اللہ تعالیٰ کو مؤثر حقیقی سمجھا جائے اور مضمونِ تعویذ اور دم کے کلمات شرکیہ اور کفریہ نہ ہوں لیکن یہ مطالبہ کرنا کہ فلاں فلاں مرض کا تعویذ احادیث میں دکھاؤ! یقیناً درست نہ ہو گا۔
2:            کوئی شخص اس غرض سے نہ تعویذ دیتا ہے اور نہ کوئی لیتا ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہو جائے، قبر میں سوال و جواب میں آسانی ہو یا  پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزر جائے بلکہ دنیوی امور مثلاً بیماری، پریشانی، درد و الم وغیرہ کے لیے لیتا اور دیتا ہے۔ ثابت ہوا کہ  یہ خالص دنیوی معاملہ ہے اور دنیاوی امور کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل (مادہ کھجور کے درخت پر نر کھجور کا بور ڈالنے) کے قصہ کے ضمن میں یہ قاعدہ ارشاد فرمایا ہے :
انتم اعلم بامر دنیاکم.

( صحیح مسلم: ج 1 ص 264)

  کہ تم لوگ اپنے دنیاوی امور کو بہتر سمجھتے ہو۔
ثابت ہوا کہ دنیاوی امور کی مکمل تفصیلات کا ادلہ اربعہ (قرآن، سنت، اجماع، قیاس) میں مذکور ہونا ضروری نہیں ۔ ہاں محض اتنی بات کافی ہے کہ وہ شریعت کے احکام سے متصادم نہ ہوں۔
3:            امام لغت امام قُتَبِی فرماتے ہیں: بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ تعویذ ہی تمائم ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ تمیمہ تو ایک منکا ہے [جس کی شریعت میں ممانعت ہے] لیکن تعویذات کی تو کوئی ممانعت نہیں جب کہ اس میں قرآنی آیات یا اللہ تعالیٰ کے اسماء لکھے ہوں۔ امام ازہری کہتے ہیں کہ جس نے تعویذ کو تمیمہ کہا وہ غلطی پر ہے۔

(المغرب فی ترتیب المعرب: ج1 ص107، ص108)

اسی طرح لغت کی کتاب ”النہایۃ“ میں ہے:
”تمائم؛ تمیمہ کی جمع ہے اور یہ وہ منکے ہوتے ہیں جو عرب لوگ اپنے بچوں کے گلے میں لٹکاتے تھے کہ نظر بد سے محفوظ رہیں لیکن اسلام نے آ کر جاہلیت کے ان منکوں کو باطل ٹھہرایا۔“

(النہایۃ: ج1 ص198)

معلوم ہوا کہ ”تمیمہ“ کا لٹکانا تو غلط ہے لیکن قرآنی آیات اور صحیح کلمات پر مشتمل تعویذ لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے جاہلیت والے ”تمیمہ“ کا معنی ”تعویذ“ (جو قرآنی آیات یا اسماء و صفات باری تعالیٰ پر مشتمل ہوں) کرنا غلط ہے۔
4:            اردو استعمال میں کچھ پڑھ کر دم کرنے کو ”جھاڑ پھونک“ اور کچھ لکھ کر لٹکانے کو ”تعویذ“ کہتے ہیں جبکہ  محققین علماء کے ہاں اور عربی لغت کے لحاظ سے ”رقیہ“ کا لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس کے مفہوم میں جھاڑ پھونک اور تعویذات دونوں داخل ہیں۔ نیز ”رُقیہ“ کا لفظ جہاں بھی حدیث اور لغت عرب میں وارد ہوا ہے اس سے ایسا کلام مراد ہے جس کےذریعہ سے علاج کیا جائے؛ خواہ کلمات پڑھ کر دم کیا جائے یا کسی چیز پر پڑھ کر مریض پر چھڑکا جائے یا کاغذ یا چمڑے پر لکھ کر مریض کے گلے میں لٹکا دیا جائے، یہ سب رقیہ کا مصداق و اطلاق ہیں۔ چند شواہد ملاحظہ ہوں:
¨ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

باب الرقي؛  بضم الراء وبالقاف مقصور جمع رقية بسكون القاف… وهو بمعنى التعويذ بالذال المعجمة. (فتح الباری: ج10 ص145)

ترجمہ: ”الرُّقیٰ“  یہ ”رُقْیۃ“ کی جمع ہے اور اس کا معنی تعویذ ہے۔
¨ محمد بن علی بن محمد علان الشافعی لکھتے ہیں:

وهو بمعنى التعويذ بالذال المعجمة. (دلیل الفالحین: ج6 ص198)

ترجمہ: ”رقی“ کا معنی تعویذ ہے۔
¨ مولانا احمد علی سہارنپوری فرماتے ہیں:

رقية بسكون القاف… وهو بمعنى التعويذ.

(حاشیۃ صحیح البخاری: ج2 ص850 حاشیہ نمبر5)

ترجمہ: ”رُقْیۃ“کا معنی تعویذ ہے۔
¨ شیخ محمد عوامہ فرماتے ہیں:

والرقي؛ جمع رقية وهو التعويذۃ التی ترقیٰ بھا صاحب الآفۃ.

(حاشیۃ مصنف ابن ابی شیبۃ: ج12 ص38)

ترجمہ: ”رقیٰ“ یہ ”رقیہ“ کی جمع ہے۔ اس سے مراد تعویذ ہیں جن کے ذریعے آفت زدہ (مثلاً بخار و درد  زدہ) شخص کا علاج کیا جاتا ہے۔
¨ لغت کی کتاب ”المنجد“ میں ہے:

العوذۃ جمع عوذ و التعویذ جمع تعاویذ اسمان بمعنی الرقیہ وھی التی تکتب وتعلق علی الانسان لتقیتہ فی زعمھم من الجنون والعین.

(المنجد ص537)

ترجمہ:”عوذۃ“ اور ”تعویذ“؛ ان کی جمع ”تعاویذ“ آتی ہے۔ ان  دونوں‌ لفظوں کا معنی‌”رقیہ“ ہے اور رقیہ اس تحریر کو کہتے ہیں  جو انسان اس یقین سے لٹکاتا  ہے کہ جنون اور نظر بد سے محفوظ ہوجائے ۔
لہٰذا جن احادیث میں ”رقی“‌کی‌رخصت  آئی ہے اس میں تعویذات کی بھی رخصت شامل ہے کیونکہ”رقیہ“  کے لفظ سے پھونکنا اور لکھ کر دینا دونوں مراد ہوتے ہیں اور جہاں ”تعویذ“ کا لفظ آئے گا وہاں بھی پھونکنا اور لکھنا دونوں ہی مراد ہوں گے۔ اس لیے عربی لفظ ”رقیہ“ کا اردو میں ترجمہ ”دم اور تعویذ“ کیا جائےگا تاکہ پورا مفہوم صاف صاف سامنے آئے۔
5:            قرآن و سنت کے ماہر محققین حضرات نے چند ایک شرائط کے ساتھ ”رقیہ“ یعنی دم اورتعویذات کا جواز مانا ہے۔ اگر یہ -معاذ اللہ- قرآن و سنت کے منافی ہوتے تو علماء  امت اس کے جواز کے قائل نہ ہوتے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) فرماتے ہیں:

وقد أجمع العلماء على جواز الرقي عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالىٰ.

(فتح الباری: ج10 ص145)

ترجمہ: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ دم اور تعویذ تین شرطوں  کے ساتھ جائز ہیں؛ (۱) یہ اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن مجید سے ہوں یا اللہ تعالیٰ کے اسماءو صفات سے ہوں۔ (۲) عربی زبان میں ہوں اور اگر کسی دوسری زبان میں ہوں تو اس کے الفاظ کا معنی معلوم ہو۔ (۳) یہ اعتقاد ہو کہ دم اور تعویذ  میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں بلکہ مؤثر حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
اس تمہید کے بعد جاننا چاہیے کہ احادیث و آثار میں تعویذات پہننے اور گھول کر پینے کا ثبوت ہے۔ دلائل ملاحظہ ہوں:
[1]:      عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب بن عمروسے اور وہ ان کے داد (عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي نَوْمِهِ فَلْيَقُلْ : أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَسُوءِ عِقَابِهِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّيَاطِينِ وَمَا يَحْضُرُونِ ، فَكَانَ عَبْدُ اللهِ يُعَلِّمُهَا وَلَدَهُ مَنْ أَدْرَكَ مِنْهُمْ ، وَمَنْ لَمْ يُدْرِكْ ، كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا عَلَيْهِ.

(مصنف ابن ابی شیبہ: ج12 ص 75  باب من رخص فی تعلیق التعاویذ)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جب کوئی شخص نیند میں ڈر جائے تو اسے چاہیے کہ یہ کلمات کہا کرے ”أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَسُوءِ عِقَابِهِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّيَاطِينِ وَمَا يَحْضُرُونِ“ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ یہ کلمات اپنے ان بچوں کو جو یاد کر سکتے تھے، سکھاتے تھے اور جو سیکھ نہ سکتے تھے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔
[2]:       حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:

لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك.

(صحیح مسلم: ج2 ص224 باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، سنن ابی داؤد: ج2 ص542 باب ما جاء فی الرقی)

ترجمہ: جس دم اور تعویذ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔
”رقی“ کا معنی ”دم“ کے ساتھ ساتھ ”تعویذ“ بھی ہے اس پر دلائل ابھی گزر چکے۔
[3]: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں:

إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا ، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ، ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا : بِسْمِ اللهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ : {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِيَّةً ، أَوْ ضُحَاهَا} ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلاَغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} .

(مصنف ابن ابی شیبہ:  ج12  ص59 ص 60 باب فی الرخصۃ فی القرآن لمن یُسقاہ)

ترجمہ: جب عورت کو بچے کی پیدائش میں تکلیف ہو تو  تو یہ دو آیتیں اور یہ کلمات ایک برتن میں لکھ  لیے جائیں اور اسے دھو کر اس عورت کو پلا دیا جائے (تو دلادت میں سہولت ہو گی) وہ کلمات اور آیتیں یہ ہیں: بِسْمِ اللهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِيَّةً ، أَوْ ضُحَاهَا} ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلاَغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ}
[4]:  سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کے بارے میں مروی ہے:

أَنَّهَا كَانَتْ لاَ تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ، ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ.

(مصنف ابن ابی شیبہ:  ج12  ص 60 باب فی الرخصۃ فی القرآن لمن یُسقاہ)

ترجمہ: آپ رضی اللہ عنہا اس بات کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
[5، 6]: حضرت  ابو قلابہ اور حضرت مجاہد رحمہما اللہ کے بارے میں مروی ہے:

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ (ح) وَلَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ؛ أَنَّهُمَا لَمْ يَرَيَا بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ يُسْقَاهُ صَاحِبُ الْفَزَعِ.

( مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60 باب فی الرخصۃ فی القرآن لمن یُسقاہ)

ترجمہ: کہ حضرت ابو قلابہ اور حضرت مجاہد رحمہما اللہ کے ہاں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
[7]: ابو عصمہ  سے روایت ہے، کہتے ہیں:

سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ. (مصنف ابن ابی شیبہ: ج12 ص 75  باب من رخص فی تعلیق التعاویذ)

ترجمہ:میں نے  حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے تعویذ کے باے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تعویذ چمڑے میں باندھ کر پہننا جائے تو  اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں(بلکہ جائز ہے)۔
[8]:      حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

لاَ بَأْسَ أَنْ يُعَلَّقَ الْقُرْآنُ.

(مصنف ابن ابی شیبہ: ج12 ص 75  باب من رخص فی تعلیق التعاویذ)

ترجمہ: قرآن لکھ کر (گلے میں) لٹکایا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
[9]:       حضرت امام باقر رحمہ اللہ کے بارے میں مروی ہے:

أَنَّهُ كَانَ لاَ يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ، ثُمَّ يُعَلِّقُهُ.

(مصنف ابن ابی شیبہ: ج12 ص 74  باب من رخص فی تعلیق التعاویذ)

ترجمہ: آپ رحمہ اللہ اس  بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کی آیات  کو چمڑے پر لکھ کر لٹکایا جائے۔
[10]:    حضرت امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مروی ہے:

أَنَّهُ كَانَ لاَ يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ.

(مصنف ابن ابی شیبہ: ج12 ص 75  باب من رخص فی تعلیق التعاویذ)

ترجمہ: آپ رحمہ اللہ اس  بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قران کریم کی کچھ آیات  کو لکھ کر گلے میں لٹکایا جائے۔

 واللہ اعلم بالصواب

مجیب: محمد الیاس گھمن