QuestionsCategory: مسالکنکاح کرنا کیسا؟؟
Saqib khalil asked 5 years ago

السلام علیکم
محترم و مکرم مفتی صاحب میرا ایک سوال ہے کہ کیا دور حاضر کے ایسے عقائد کے حامل لڑکے یا لڑکی سے اہلسنت لڑکے یا لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہوں اور ازواج مطہرات پر تہمت لگاتے ہوں۔
امید ہے مدلل جواب ارسال کیا جاۓ گا
طالب دعا
ثاقب خلیل

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب:
جو بندہ خواہ مرد ہو یا عورت اگر وہ ازواج مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین  یا شیخین (حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو کافر گردانتا ہو،  یا  صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سبّ وشتم(گالی /بد زبانی) کو حلال سمجھتا ہو، اور صحابہ کرام  کو برا بھلا کہتا ہو  تو ایسے آدمی کا نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ایسے نظریہ والے سے سنی لڑکے یا سنی لڑکی کا نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
 اُن سے سنی مرد وعورت کا نکاح درست نہیں ہے۔
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : الرافضي إذا کان سب الشیخین ویلعنہما والعیاذ باللہ فہو کافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو قذف عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا بالزنا کفر باللہ ۔۔۔۔۔۔ من أنکر إمامۃ أبي بکر الصدیق فہو کافر۔
2/264، مطلب موجبات الکفر أنواع منہا ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام
ترجمہ: رافضی جب کہ شیخین (حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو برا بھلا کہے اور ان پر  معاذ اللہ لعن طعن کرے تو وہ کافر ہے۔۔۔۔۔ اگر کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر زنا کی تہمت لگائی تو  اللہ کے ساتھ کفر کیا۔۔۔۔ جس نے امامت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انکار کیا وہ کافر ہے۔
ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا : أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلمًا ، فلا یجوز للمسلم أن ینکح المشرکۃ لقولہ تعالی : {ولا تنکحوا المشرکٰت حتی یؤمنّ}۔
3/458 ، کتاب النکاح ، فصل في نکاح المشرکۃ
جن عورتوں سے نکاح کیا جائے ضروری ہے کہ وہ مشرک نہ ہوں جب کہ مرد مسلمان ہو اس لیے کہ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی مشرک عورت سے نکاح کرے قرآن پاک میں ہے  “ولا تنکحوا المشرکٰت حتی یؤمنّ” مشرک  عورتیں جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ان سے نکاح مت کرو۔
ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا : اسلام الرجل إذا کانت المرأۃ مسلمۃ ، فلا یجوز إنکاح المؤمنۃ الکافر، لقولہ تعالی : {ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا} ۔ ولأن في النکاح المؤمنۃ الکافر خوف وقوع المؤمنۃ في الکفر ، لأن الزوج یدعوہا إلی دینہ ، والنساء في العادات یتعبن الرجال فیما یؤثروا من الأفعال ، ویقلّدونہم في الدین۔
3/465، فصل في عدم نکاح الکافر المسلمۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت
اسی طرح اگر شادی کرنے والی مسلمان عورت ہے تو اس کے لیے بھی مسلمان مرد ہونا ضروری ہے کسی مومنہ عورت کا نکاح مشرک مرد سے جائز نہیں  قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ” ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا ” کسی مشک مرد سےنکاح مت کرو جب تک کہ وہ مومن نہیں ہو جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی مومنہ کا نکاح مشرک سے کرنے میں اس مومنہ کے کفر  میں جانے کا خوف ہے اس لیے کہ خاوند اسے اپنے دین کفر کی طرف بلائے گا اور عورت تو معاملات میں مردوں کے تابع ہوتی ہیں اور دین میں مردوں کے نقش قدم پر چلتی ہیں۔
ماخوذ از فتاوی رحیمیہ: 8/187، 188، فتاوی محمودیہ:11/457-458، کراچی
ان تمام تحریرات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو بندہ بھی ایسے نظریات کا ماننے والا ہو جیسا کہ سوال میں موجود ہیں ایسے کا نکاح کسی مسلمان مرد و عورت سے کرنا جائز نہیں۔
واللہ اعلم و علمہ اتم
دار الافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
بدھ5 ربیع الاوّل 1440ھ
14نومبر 2018