QuestionsCategory: تقلیدامام کی تقلید یا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں چار آئمہ کرام کا ذکر نہیں ہے تو پھر دین پر عمل کرنے کے لئے کیوں امام شافعی یا امام ابو حنیفہ یا امام مالک  یا امام حنبل کی تعلیمات پر عمل ضروری ہے۔ اور کسی ایک کی تقلید ضروری ہے۔کیا ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے  کہ آپ صلی علیہ وسلم کا طریقہ کار کیا تھا اور صرف اس کے مطابق چلیں۔ چاروں آئمہ کے نزدیک بعض باتیں مختلف کیوں ہیں، کیا وہ سب سنت کے مطا بق نہیں۔

سائل:کاشف جمیل

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قرآن و حدیث میں فقہاء کے تذکرہ موجود ہے قرآن میں خلفاء راشدین کا تذکرہ موجود ہے استخلاف فی الارض کا تذکرہ ہے ان خلفاء اربعہ کانام نہیں ہے اسی طرح قرآن کریم میں صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور دیگر کتب صحاح ستہ کے نام بھی نہیں ہےپھر کہا جا سکتا ہے صرف قرآن کافی ہے قرآن کریم میں حدیث کاتذکرہ توہے لیکن ائمہ محدیثیں میں سے کسی امام کاتذکرہ نہیں ہےاسی طرح قرآن کریم میں فقہاء کاتذکرہ ہے لیکن کسی امام کاتذکرہ صراحتا نہیں تو کوئی حرج نہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم الآیۃ
(سورۃ النساء: 59)
امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م307ھ) فرماتے ہیں :
و قولہ تعالیٰ عقیب ذلک Ī فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُول Ĩ یدل علی ان اولی الامر ہم الفقہاء لانہ امر سائر الناس بطاعتہم ثم قال: Ī فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ Ĩ فامر اولی الامر برد المتنازع فیہ الی کتاب اللہ و سنۃ نبیہ اذا کانت العامۃ و من لیس من اہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لانہم لا یعرفون کیفیۃ الرد الی کتاب اللہ و السنۃ و وجوہ دلائلہما علی احکام الحوادث فثبت انہ خطاب للعلماء․
(احکام القرآن للجصاص ج 2 ص299)
ترجمہ:
اس آیت (یعنی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم الآیۃ) کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُول “ اس بات کی دلیل ہے کہ ”اولی الامر“ سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا:”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ“اس میں ”اولو الامر“ کو حکم دیا ہے کہ اختلافی امور کو کتاب اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی طرف لوٹاؤ۔ ہاں جب عام لوگ ہوں یا ایسے افراد ہوں جو لوگ اہلِ علم نہیں تو ان کا یہ منصب نہیں ہے کیونکہ عام لوگوں کو اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ اختلافی امور کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کس طرح لوٹایا جاتا ہے؟! اور انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہوتا کہ پیش آمدہ مسائل میں دلائل کس طرح کارگر ہوتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ یہ خطاب علماء کو ہے۔
عن علي قال قلت : يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهي فما تأمرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين ۔۔
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج2 ص172 رقم الحدیث:1618)
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے جس میں کرنے یا نہ کرنے کے متعلق وضاحت نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فقہاء اور عابدین سے مشورہ کرنا
تحقیق السند:
قال الطبرانی: لم يرو هذا الحديث عن الوليد بن صالح إلا نوح•
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج2 ص172 رقم الحدیث1618)
اماالولید بن صالح فقد ذكره ابن حبان في الثقات
(کتاب الثقات : ج5ص 491 ، ج7ص551)
واما نوح بن قيس فقد وثقه يحيى بن معين (لسان المیزان: ج7 ص415)
ولذا قال الہیثمی بعد ان اوردہ: رواه الطبراني في الأوسط ورجاله موثقون من أهل الصحيح•
(مجمع الزوائد: ج1 ص179)
احناف ،شوافع،مالکی ،حنبلی اپنے اماموں کی مسائل اجتہادیہ میں تقلید کرتے ہیں اور مسئلہ اجتہادی وہ ہوتاہے جس میں صراحتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ موجود نہ ہواللہ رب العزت کا صراحتا حکم موجود نہ ہوپھراس مسئلہ میں تقلید کی جاتی ہے ان کی تقلید قرآن و حدیث کے مقابلہ میں نہیں کی جاتی بلکہ ان کی تقلید ان مسائل میں کی جاتی ہے جو مسائل اجتہادیہ کہلاتے ہےاور ان مسائل میں ان کا آپس میں اختلاف ہو نا کوئی عیب کی بات نہیں
اجتہادی مسائل میں دو نبیوں کا آپس میں اختلاف ہوا ہے صحابہ کرام کا آپس میں اختلاف ہوا،نبی اور صحابہ میں اختلاف ہوا اور دوفرشتوں میں اختلاف ہوااور یہ اختلاف محدثین میں بھی ہوتا ہے اور اصولییں میں بھی ہوتا ہے اجتہادی اختلاف عیب کی بات نہیں ہے
واللہ اعلم بالصواب