QuestionsCategory: نمازامام کے پیچھے قراءۃ کرنے اور نہ کرنے کے دلائل کا جائزہ
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ

1:       غیر مقلد کہتے  ہیں کے امام کے پیچھے یعنی جس وقت جماعت کے ساتھ نماز پڑھو تو اس وقت سورت فا تحہ پڑھنی  چاہیے اور پھر امام جس وقت سورت فاتحہ کے بعد کوئی بھی  سورت پڑتا  ہے اس وقت خاموشی سے سننا چاہے اور کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ جس وقت جماعت کے ساتھ نماز پڑھو تو سورت فاتحہ  بھی  پڑھو۔ یہ کس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں ؟

2:       ہم اھل السنت والجماعت احناف  امام کے پیچھے سورت فا تحہ نہیں پڑھتے ۔ اس کا  حوالہ بھی  بتادیں  تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے۔

سائل : خرم ہاشمی ۔سرگودھا

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
1: غیر مقلدین کے موقف پر کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو مکمل ان کے موقف کی ترجمانی کرے چند دلائل ہیں جنہیں وہ اپنے موقف پر پیش کرتے ہیں
دلیل نمبر 1:
قال تعا لٰی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ• (سورۃ الاعراف :205)
حضرت زید بن اسلم تابعی نے اس آیت سے استدلال کیا ہےکہ مقتدی امام کے پیچھے ہو تو سورۃ فاتحہ کی قراءۃ آہستہ کرے ۔
عبد العزيز بن محمد قال : سمعت زيد بن أسلم يقول : في قوله ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال : « الذي يكون خلف الإمام قال الله : ( واذكر ربك في نفسك) » قال : « يقول : اذكر ربك وأنصت في نفسك » فأخبر بأنه مأمور بالإنصات والذكر معا فيكون الأمر بالإنصات راجعا إلى ترك الجهر دون ترك الذكر في النفس الذي هو دون الجهر من القول
( کتاب القراءۃ للبیہقی ص:121، 122 رقم الحدیث 293)
جواب اول:
اولاً:…… اس آیت سے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے پر استدلال کرنا باطل ہے۔ اس لیے کہ یہ تفسیر صحیح حدیث، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور محمد بن کعب القرظی کی صحیح تفسیرکے مخالف ہے۔ نیز اس آیت میں امام کا لفظ ہے نہ مقتدی کا، اسی طرح نہ قراءۃ کا اور نہ سورۃ فاتحہ کا۔تو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے پر استدلال کیسے درست ہوا؟؟
ثانیاً: …… حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ کا استدلال ذکر فی النفس کے متعلق ہے، اس میں فاتحہ کا ذکر ہی نہیں تو اس سے استدلال کیسے؟!
جواب ثانی:
اس روایت کی سند یوں ہے: أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أنا أبو علي الحافظ نا أبو عمرو الْحَرَشِىّ نا الفضل بن محمد الشعراني نا إبراهيم بن حمزة نا عبد العزيز بن محمد قال : سمعت زيد بن أسلم الخ
اس سند میں ایک راوی فضل بن محمد شعرانی ہے ۔ائمہ نےا ن پر جرح کی ہے :تکلموا فیہ، فرماہ بالکذب ،انہ کان غالیاً فی التشیع.
(میزان الاعتدال للذہبی: ج3ص356 رقم6378، المغنی فی الضعفاء للذہبی ج:2:ص:195 رقم 4940)
دوسرا راوی عبد العزیز بن محمد ہے۔ گو بعض نے انکو ثقہ کہا ہے، لیکن بہت سے ائمہ نے ان پر جر ح بھی کی ہے ۔ مثلاً:
اذا حدث من حفظہ یہم،لیس ھو بشئی ، اذا حد ث من حفظہ جاء ببواطیل ،لا یحتج بہ ،سیئی الحفظ ، وربما قلب ، فر بما حدث من حفظہ الشئی فیخطی ، لیس با لقوی ، وکا ن یخطئی ، انہ کثیر الوہم فجعل یلحن لحناً منکراً.
(میزا ن الاعتدال للذہبی :ج2ص553 رقم التر جمۃ 4781،تہذیب لا بن حجر :ج4ص204 رقم التر جمہ4830)
لہذا یہ روایت ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں۔
دلیل نمبر 2:
حدیث: عبادہ بن صامت مر فو عاً :لا صلوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب (بخاری و مسلم )
اس حدیث کا عموم ہر اس نماز کو شامل ہے جو کوئی شخص اکیلے پڑھتا ہے، یا امام کے پیچھے پڑھتا ہے، اس کا امام قراءت بالسر کر رہا ہو یا قراءت بالجہر کرے۔( نصر الباری از علی زئی غیر مقلد ص45، فا تحہ خلف امام از علی زئی غیر مقلد ص34)
لفظ من عام ہے جس میں امام، منفرد اور مقتدی سب داخل ہیں۔(ابکار المنن ص120، تحقیق الکلام ج1ص11)
جواب اول :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فر مایا : الحدیث اذا لم تجمع طر قہ لم تفہمہ والحدیث یفسر بعضہا بعضا ً
(الجا مع لاخلاق الرا وی للخطیب: ص370 رقم1651)
کہ جب تک حدیث کے طرق جمع نہ کر لیں اس وقت تک حدیث کا معنی نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے۔
اس اصو ل کے تحت ہم نے حدیث عبا دہ کے مختلف طرق جمع کیے، جن میں یہ الفا ظ آئے ہیں:
” لا صلوۃ لمن لم یقرء بفا تحۃ الکتا ب فصاعداً “( خلق افعال العبا د للبخا ری ص67، صحیح مسلم ج1ص169، سنن ابی داؤد :ج1 ص126)
نیز اس روایت کے کئی شوا ہد بھی موجو دہیں ۔
1: عن ابی ہریرۃ مرفوعًا: لا صلوۃ الا بقرءاۃ فا تحۃ الکتاب فما زاد•
(سنن ابی داؤد :ج1ص 126 با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبان :560رقم الحد یث 1788،کتا ب القراءۃ للبیہقی :ص13،14)
2: عن ابی سعید الخدری مرفوعاً: امر نا ان نقرء بفا تحۃ الکتا ب وما تیسر•
(سنن ابی داؤد :ج1ص 126 با ب من تر ک القراءۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبا ن :560 رقم الحدیث 1788 ،کتا ب القراءۃ للبیہقی :ص15 رقم الحدیث32۔35)
3: عن أبي سعيد مرفوعا: لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في فريضة أو غيرها
(سنن ابن ماجۃ ص60 باب القراءۃ خلف الامام، کتا ب القراءۃ للبیہقی :ص:16، رقم الحدیث 37،36)
تمام طرق جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا مخاطب وہ شخص ہے جو دو نو ں سورتیں [یعنی سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت]پڑ ھتا ہے اور وہ امام یا منفرد ہوتا ہے مقتدی نہیں، لہذا مقتدی اس کا مخا طب نہیں ۔پس یہ روایت مقتدی پر وجوب قر ءاۃ کی دلیل نہیں ۔
جواب ثا نی:
اولاً کلمہ ”من ”کے متعلق علماء اصول مثلاً امام سرخسی وغیرہ فر ماتے ہیں:
وھی عبارۃ عن ذات من یعقل وھی تحتمل الخصوص والعموم۔ (اصو ل السرخسی :ج1ص155، نور الانوا ر :ص84)
قرآن مجید میں بھی لفظ ”من” کئی مقامات پر خصوص کے لیے آیا ہے۔ مثلاً۔۔
1: قال عز وجل: وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ۔( سورۃ الشوریٰ:5)
اور دوسرے مقام پر تصریح فرما دی کہ فرشتے صرف مومنین کے لیے ہی دعا کرتے ہیں:
وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا الآیۃ۔( سورۃ المؤمن:7)
معلوم ہوا کہ یہاں من یہاں عمو م کے لیے نہیں بلکہ خصوص کے لیے ہے۔
2: قال عز وجل: أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ(الملک:17،16)
یہاں مَنْ ہے اور مراد صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
لہذا اس حدیث میں لفظ ”مَنْ” بھی خصوص کے لیے ہے جیسا کہ مشہور محد ث علامہ ابن عبد البر نے ”التمہید “ میں اس کی تصریح فر مائی ہے:
عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل…… خا ص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً•(ج:4ص448،449 )
لہذا لفظ ”مَنْ“کو عا م سمجھ کر اس سے مقتدی پر قرءات واجب کر نا باطل ہے ۔
جواب ثالث:
اس حدیث کی مراد دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم و ائمہ حضرات سے یہی منقول ہے کہ یہ حدیث منفرد کے لیے ہے۔ مثلاً:
1: قال جا بر بن عبد اللہ: اذا کا ن وحدہ ۔
(جا مع التر مذی:ج1ص71باب ماجاء فی تر ک القراءۃ خلف الامام )
2: سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فر ما یا کہ یہ حکم اکیلے آد می کیلئے ہے ۔
( مؤطا امام مالک بحوا لہ احسن الکلام :ج2ص39)
3: امام سفیا ن بن عیینہ جو اس حد یث کے راوی ہیں فر ماتے ہیں: لمن یصلی وحدہ
(تفسیر سفیان بن عیینہ :ص202 ، سنن ابی داؤد :ج1ص126،التمہید لابن عبد البر:ج4ص449)
4: قال امام احمد بن حنبل: اذا کا ن وحدہ ۔
(جامع الترمذی :ج1ص71 باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام )
5: امام ابوبکر اسماعیلی فر ما تے ہیں :کان وحدہ ۔
(بذل المجہود الشیخ سہا رنپوری :ج2ص54 )
6: امام ابن عبد البر فر ماتے ہیں : عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل ۔۔۔۔ خا ص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً
(التمہید لا بن عبد البر :ج4ص448،449 ،الاستذکار :ج1ص470)
7: قال الامام ابن قدا مۃ المقدسی :فھو محمول علی غیر الماموم۔
(المغنی لابن قدا مہ :ج2ص118)
8: شیخ محدث سہا رنپوری نے بھی اس کی مراد: اذا کا ن وحدہ بیا ن فر مائی ہے ۔
(بذل المجہود :ج2ص52)
9: امام اہل السنہ شیخ الحدیث مولانامحمدسرفراز خا ن صفدر رحمہ اللہ نے اس کی مراد اکیلا آدمی بیا ن کی ہے ۔
(احسن الکلام :ج2ص40)
دلیل نمبر 3:
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام فقيل لأبي هريرة إنا نكون وراء الإمام فقال اقرأ بها في نفسك. (صحیح مسلم وغیرہ)
جواب حصہ اول :
اس حدیث کے مرفوع حصہ میں ”مقتدی” کے لفظ نہیں ہیں،اور ائمہ حضرات نے تصریح کی ہے :
و کذلک حدیث ابی ہریرۃ[فھو محمول علی غیر الماموم ]۔
(المغنی لابن قدامۃ ج2ص118)
کہ یہ حد یث مقتدی کے علا وہ پر محمو ل ہے ۔ نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دیگر مفسر روایات میں بھی اس بات کی تصریح ہے کہ امام کی قراءت کے وقت مقتدی خاموش رہے۔ مثلاً
1: عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( إنما جعل الإمام ليؤتم به . فإذا كبر فكبروا . وإذا قرأ فأنصتوا . وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين
(سنن ابن ماجۃ: ص61 باب اذا قرء الامام فانصتوا )
2: عن أبي هريرة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « كل صلاة لا يقرأ فيها بأم الكتاب فهي خداج إلا صلاة خلف إمام »
(کتاب القراءۃ للبیہقی ص 171،170رقم404)
قاعدہ ہے کہ مبہم کے مقابلے میں مفسر حدیث کو دیکھا جائے گا۔
قال الامام البخا ری: والمفسر یقضی علی المبہم
( صحیح البخا ری :ج1ص201 )
قال ابن حجر العسقلانی: لا یقبل الحدیث المبہم ۔
(شرح نخبۃ الفکر :ص98 )
لہذ ایہ روایت قر اءت خلف الا مام کی دلیل نہیں ۔
جواب حصہ ثانی :
اولاً:۔۔۔اس حد یث میں” اقرء بھا فی نفسک” حضرت ابو ہریرہ کا موقوف قول ہے ،جیسا کہ امام بخا ری اور امام بیہقی رحمہما اللہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے ۔
فقلت[أبو السائب] : يا أبا هريرة : فإني أكون أحيانا وراء الإمام قال : فغمز ذراعي ثم قال : اقرأ بها يا فارسي في نفسك۔
(جزء القرءۃ مترجم للبخا ری :ص:80)
وقال: يا ابن الفارسي: اقرأ بها في نفسك• (کتا ب القر ءۃ للبیہقی :ص196 رقم431)
ثا نیا ً :۔۔۔فی نفسک کا معنی قر آن وحدیث میں منفرد واکیلے کے لئے بھی آیا ہے۔ مثلا۔۔۔
1: قال عز وجل: وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا(النساء :63)
قال الامام المفسر أبو الفضل محمود الألوسي البغدادی: وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ أي قل لهم خاليا لا يكون معهم أحد
(روح المعانی ج 3ص69)
قال الامام المفسر علاء الدين علي بن محمد بن إبراهيم البغدادي الشهير بالخازن: وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ إذا خلوت بهم قَوْلًا بَلِيغًا
(تفسیر خازن ج 1ص398)
قال الامام المفسر أبو العباس أحمد بن محمد بن المهدي الشاذلي الفاسي: ( وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ ) ، أي : خاليًا بهم (قَوْلًا بَلِيغًا ) يبلغ إلى قلوبهم•
( البحر المديد للفاسي ج2 ص62)
2: حضر ت ابو ہریرہ سے حد یث قدسی مروی ہے :
فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ•
(صحیح البخا ری :ج:2:ص:1101 بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَيُحَذِّرُكُمْ اللَّهُ نَفْسَهُ ،صحیح مسلم :ج:2:ص:343 باب فضل الذكر والدعاء والتقرب إلى الله تعالى)
لہذا حضر ت ابو ہریرہ کی اس حدیث میں کا معنی” اکیلا ومنفرد” ہے ،یعنی حضرت ابو ہریرہ نے اپنے شا گرد أبو السائب کو فر مایا جب تم اکیلے ہو تو قر ءاۃ کر لیا کرو۔اس معنی سے یہ حدیث دیگر تفاسیر و احادیث سے متعارض نہیں ہوتی۔ اگر غیر مقلدین والا معنی مراد لیں تو ان میں باہم تعارض لازم آتاہے۔ پس اس روایت سے غیر مقلدین کا استدلال باطل ہے۔
ثالثاً۔۔۔ اقرء بھا فی نفسک کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ دل میں غور و فکر کر لیا کرو۔
دلیل نمبر 4:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ « لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ ». قُلْنَا نَعَمْ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ «لاَ تَفْعَلُوا إِلاَّ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا».
(سنن ابی داؤد ج1ص 127 باب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِى صَلاَتِهِ ،جامع التر مذی ج1ص70 باب ما جاء في القراءة خلف الإمام)
جواب نمبر 1:
اس کی سند میں ایک راوی محمد بن اسحا ق بن یسار ہے ،جو عند الجمہور ضعیف، مجرو ح ، کذاب ، دجال ، شیعہ ، معتزلی اور قدری تھا۔
(میزان الاعتدال للذہبی :ج3ص152تا ص458، تہذیب التہذیب لابن حجر: ج5ص439، تقریب التہذیب لا بن حجر: ج2ص498)
نیز محمد بن اسحا ق بن یسار مدلس بھی تھا۔ (طبقات المدلسین :ص:132الطبقۃ الرا بعہ ، الفتح المبین لعلی زئی ص:72)
اور بتصریح علی زئی غیر مقلدمدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے منا فی ہو تا ہے(نور العینین لعلی زئی ص:148 )
لہذا یہ روایت ضعیف و ناقابل حجت ہے۔
جواب نمبر2:
اس میں دوسرا را وی ”مکحو ل“ ہے ۔ بتصریح ائمہ یہ بھی مدلس ہے( طبقات المدلسین ص:113 المرتبۃ الثا لثہ، الفتح المبین لعلی زئی ص 64 )
نیز امام ابن سعد فرماتے ہیں: ضعفہ جماعۃ (میزان الاعتدال ج4 ص378)
علامہ ذہبی فرماتے ہیں: قلت: ھو صاحب تدلیس و قد رمی بالقدر۔(میزان الاعتدال ج4 ص378)
پس روایت ضعیف ہے۔
جواب نمبر3:
اس کی ایک دوسری سند میں ایک راوی نا فع بن محمود بن الربیع ہے ، ان سے خلف الامام کی روایت کےعلاوہ کوئی روایت مروی نہیں۔ امام ابن حبان نے انھیں ثقات میں شمار تو کیا ہے لیکن ساتھ یہ تصریح بھی کر دی ہے:حدیثہ معلل۔(میزان الاعتدال للذہبی ج5ص7)
کہ اس کی حدیث معلول ہے۔
قال الطحاوی: لا یعرف فکیف یصح او یکون سندہ حسنا. (الجوہر النقی علی البیہقی ج2ص165)
قال ابن عبد البر: نافع مجھول.(تہذیب التہذیب ج6ص519)
قال ابن قدامۃ: فانہ غیر معروف. (المغنی لابن قدامۃج2ص118)
قال ابن حجر: مستور من الثالثۃ. (التقریب لابن حجر ص588)
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ یہ راوی مجہول ہے۔ اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ مجہول کی روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔ چنانچہ مجہول کے متعلق امام نووی نے تصریح کی ہے: فالجمہور علی انہ لا یحتج بہ• (مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی :ص17 )
امام بیہقی رحمہ اللہ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ولم يكلفنا الله تعالى أن نأخذ ديننا عمن لا نعرفه•( کتا ب القراءۃ للبیہقی :ص395)
لہذا یہ روایت قابل استدلال نہیں۔
جواب نمبر4:
یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا، بعد میں اس سے منع کر دیا گیا، جیسا کہ ہمارے دلائل میں محمد بن کعب القرظی کی تفسیر گزر چکی ہے۔
2: اھل السنت کے موقف پر کئی ایک دلائل موجود ہیں
قرآن کریم مع التفسیر:
قال اللہ عزوجل: وَإِذَا قُرئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ • (سورۃ الاعراف :204)
اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔
قال أحمد: فالناس على أن هذا في الصلاة وعن سعيد بن الْمُسَيَّبِ و الحسن و إبراهيم و محمد بن كعب و الزهري أنها نزلت في شأن الصلاة وقال زيد بن أسلم و أبو العالية كانوا يقرأُوْن خلف الإمام فنزلت : (وَإِذَا قُرئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) وقال أحمد في رواية أبي داؤد : أجمع الناس على أن هذه الآية في الصلاة ولأنه عام فيتناول بعمومه الصلاة۔
(المغنی لابن قدامۃ ج2ص117، مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ ج22ص150)
تفسیر نمبر 1:
قَدْ اخرج الامام المحدث أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي البيهقي م 458 ھ :أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان أنا أحمد بن عبيدا لصَّفَّارُ ، نا عبيد بن شَرِيكٍ ، نا ابن أبي مريم ، نا ابن لَهِيعَةَ ، عن عبد الله بن هُبَيْرَةَ ، عن عبد الله بن عباس ، « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) فهذه في المكتوبة » ثم قال ابن عباس : « وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذًا لأجفىٰ من الحمير » (کتاب القراءۃ للبیہقی ص109رقم الحدیث:255)
تحقیق السند: اسنادہ حسن ورواتہ ثقات
نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بسند صحیح موقو فاً روایت مروی ہے جو اس کی موید ہے۔
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزكي ، أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن عَبْدُوس ، نا عثمان بن سعيد نا عبد الله بن صالح ، حدثني معاوية بن صالح ، عن علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس ، في قوله : « (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) يعني في الصلاة المفروضة »
(کتاب القراءۃ للبیہقی :ص109 رقم الحدیث 254)
تفسیر نمبر 2:
قال الامام الحافظ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد أبي حاتم بن إدريس بن المنذر التميمي الحنظلي الرازي م 327 ھ: حدثنا يونس بن عبد الاعلى انبا ابن وهب ، ثنا أبو صخر عن محمد بن كعب القرظى : قال كان رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) إذا قرا في الصلاة اجابه من وراءه إن قال بسم الله الرحمن الرحيم قالوا مثل ما يقول حتى تنقضي الفاتحة والسورة فلبث ما شاء الله ان يلبث ثم نزلت : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ فَقَرَاَ واَنْصَتُوا .
(تفسیر ابن ابی حاتم الرازی ج4ص259رقم9493)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
احادیث مبارکہ
احادیث مرفوعہ:
دلیل نمبر1:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا أبو أسامة حدثنا سعيد بن أبي عروبة ح وحدثنا أبو غسان المسمعي حدثنا معاذ بن هشام حدثنا أبي ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير عن سليمان التيمي كل هؤلاء عن قتادة في هذا الإسناد [عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي] بمثله [ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فبين لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا فقال إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم فإذا كبر فكبروا وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين] وفي حديث جرير عن سليمان عن قتادة من الزيادة وإذا قرأ فأنصتوا
[حاصل السند و المتن: حدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير عن سليمان التيمي عن قتادة عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي قال صليت مع أبي موسى الأشعري صلاة ۔۔۔۔۔۔ فقال أبو موسى أما تعلمون كيف تقولون في صلاتكم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فبين لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا فقال إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين]
(صحیح مسلم ج1ص174باب التشہد فی الصلاۃ)
حدیث نمبر2:
قد روی الامام أبو عبدالله محمد بن يزيد ابن ماجۃ القزويني م 273ھ:حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة . حدثنا أبو خالد الأحمر عن ابن عجلان عن زيد بن أسلم عن أبی صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( إنما جعل الإمام ليؤتم به . فإذا كبر فكبروا . وإذا قرأ فأنصتوا . وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين•
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
(سنن ابن ماجۃ:ص61 باب اذا قرء الامام فانصتوا، ،سنن النسائی ج1ص146 باب تاویل قولہ عزوجل وذاقرء القران فاستمعوالہ وانصتوا)
حدیث نمبر 3:
اخرج الامام المحدث أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي البيهقي م 458 ھ :أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ، أنا أبو بكر بن إسحاق الفقيه ، أنا أحمد بن بشر بن سعد المرثدي ، نا فضيل بن عبد الوهاب ، نا خالد يعني الطحان ، ح قال أبو عبد الله : وأخبرني أبو بكر بن عبد الله ، نا الحسن بن سفيان ، نا محمد بن خالد بن عبد الله الواسطي ، نا أبي ، عن عبد الرحمن بن إسحاق ، عن سعيد المقبري ، عن أبي هريرة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « كل صلاة لا يقرأ فيها بأم الكتاب فهي خداج إلا صلاة خلف إمام »
(کتاب القراءۃ للبیہقی: ص 194، ص195 رقم428)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات
حدیث نمبر 4:
روی الامام ابو محمد یوسف بن یعقوب : عن ابیہ [ابی یوسف] عن ابی حنیفۃ عن موسی بن ابی عائشۃ عن عبد اللہ بن شداد بن الھاد اللیثی ابی الولیدعن جابر بن عبداللہ ان رجلا قرء خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الظہر او العصر قال قال: فاوما الیہ رجل فنھاہ فابی فلما انصرف قال اتنھانی ان اقرءخلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فتذاکرنا ذالک حتی سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من صلی خلف امام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ.
(مسند ابی حنیفہ بروایۃ القاضی ابی یوسف: ص23رقم الحدیث 113)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم.
احادیث موقوفہ
حدیث نمبر1:
عبد الرزاق عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه قال۔۔۔أخبرني أشياخنا أن عليا قال من قرأ خلف الإمام فلا صلاة له قال [عبد الرزاق] وأخبرني موسى بن عقبة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبو بكر وعمر وعثمان كانوا ينهون عن القراءة خلف الإمام۔ (مصنف عبدالرزاق ج2ص91،90رقم2813باب القراءۃ خلف الامام)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح و رواتہ ثقات
حدیث نمبر2:
روی الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي م235ھ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَصْبَهَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بن الأصبهاني ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص278رقم الحدیث 3802باب من کرہ القراءۃ خلف الامام)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات
حدیث نمبر3:
عبد الرزاق عن منصور عن أبي وائل قال جاء رجل إلى عبد الله فقال: يا أبا عبد الرحمن! أقرأ خلف الإمام؟ قال: أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا وسيكفيك ذلك الإمام• (مصنف عبدالرزاق ج2ص89، 90رقم2806باب القراءۃ خلف الامام )
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
احادیث مقطوعہ
حدیث نمبر 1:
عن أبي إسحاق أن علقمة بن قيس قال وددت أن الذي يقرأ خلف الإمام ملىء فوه قال أحسبه قال ترابا أو رَضْفًا۔
(مصنف عبدالرزاق ج2ص90رقم2811باب القراءۃ خلف الامام ،کتاب الحجۃ لمحمد ج1ص90باب القراءۃ خلف الامام ،مؤطا امام محمد ص100باب القرءۃ فی الصلوۃ خلف الامام)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم۔
حدیث نمبر2:
روی الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي م235ھ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّهُ قَالَ : وَدِدْت أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ مُلِئَ فُوهُ تُرَابًا.
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج3ص279 رقم3810 من كره الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الإِمَامِ. ، مصنف عبدالرزاق ج2ص90رقم2810 باب القراءة خلف الإمام)
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم۔
جمہور کا موقف اور اجماع امت
1: روی الامام الحافظ المحدث أبو داؤد سليمان بن الأشعث السجستاني م 275ھ: حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِىُّ عَنْ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِىِّ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم انْصَرَفَ مِنْ صَلاَةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ « هَلْ قَرَأَ مَعِى أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا ». فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « إِنِّى أَقُولُ مَا لِى أُنَازَعُ الْقُرْآنَ ». قَالَ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِيمَا جَهَرَ فِيهِ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم بِالْقِرَاءَةِ مِنَ الصَّلَوَاتِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
(سنن ابی داؤد ج1ص127باب من کرہ القرءۃبفاتحۃ الکتاب اذا جھر الاما م )
2: قال الامام الحافظ المحدث الفقیہ ابو الحسن علي بن أبي بكر بن عبد الجليل المرغینانی م593ھ: ولنا قوله عليه الصلاة والسلام من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة وعليه إجماع الصحابة رضي الله عنهم۔
(الہدایۃ شرح البدایۃ ج1ص121، 122فصل فی القراءۃ)
صاحب ہدایہ کے اس قول پر امام ابومحمد محمود بن احمدالعینی الحنفی م855ھ فرماتے ہیں:
قال صاحب ( الهداية ) من أصحابنا وعلى ترك القراءة خلف الإمام إجماع الصحابة فسماه إجماعاً باعتبار اتفاق الأكثر ومثل هذا يسمى إجماعا عندنا۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للعینی ج4ص449باب وجوب القراءۃ)
ائمہ مجتہدین اور ترک قراءۃ خلف الامام
1: امام اعظم فی الفقہاء ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی م150ھ:
قال محمد رحمہ اللہ: لا قراءۃ خلف الامام فیما جھر فیہ ولا فیما لم یجھر بذ لک جاءت عامۃ الآثار و ھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی۔ (مؤطا امام محمد: ص96،97 باب القراءۃ فی الصلوۃ خلف الامام،کتاب الحجۃ لمحمد ج1ص87 باب القراءۃ خلف الامام)
2: امام سفیان الثوری م161ھ :
قال الثوری رحمہ اللہ: ولا یقرء الماموم خلف الامام شیئا لا الفاتحۃ و لا السورۃ۔
(فقہ سفیان الثوری ص562تحت لفظۃ: صلاۃ، المغنی لابن قدامۃ ج2ص118 مسئلۃ نمبر 183)
3: امام مالک بن انس المدنی م179ھ:
جہری نمازوں میں قراءۃ خلف الامام کے قائل نہیں تھےاور سری نمازوں میں وجوب کے قائل نہیں تھے۔
وقال مالک: الامر عندنا انہ لا یقرء مع الامام فیما جھر فیہ الامام بالقراءۃ۔
(التمہید لابن عبدالبر ج4ص439 تحت رقم الحدیث 236 ، مؤطاامام مالک ص68 باب ترک القراءۃ خلف الامام فیما جھر فیہ)
4: امام ابویوسف یعقوب القاضی م182ھ :
[ترک القراءۃ خلف الامام]و ھو قول ابی حنیفۃ و ابی یوسف و محمد رحمہم اللہ تعالی۔
(سنن الطحاوی ج1ص159باب القراءۃ خلف الامام ،فتح الملہم ج2ص20 المسئلۃ الثانیۃ)
5: امام محمد بن الحسن الشیبانی م189ھ :
قال محمد رحمہ اللہ: لا قراءۃ خلف الامام فیما جھر فیہ ولا فیما لم یجھر بذ لک جاءت عامۃ الآثار۔
(مؤطا امام محمد ص97 باب القراءۃ فی الصلوۃ خلف الامام ، سنن الطحاوی ج1ص159باب القراءۃ خلف الامام)
5: امام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل البغدادی م241ھ :
جہری نمازوں میں قراءۃ خلف الامام کے قائل نہیں تھے اور سری نمازوں میں وجوب کے قائل نہ تھے۔
قال الامام عبد اللہ بن احمد بن حنبل: سمعت ابي سئل عن الرجل يصلي خلف الامام فلا يقرأ خلفه قال اعجب الي ان يقرا فإن لم يقرأ يجزئه۔
و قال ایضاً: سمعت ابي يقول اذا قرأ الامام فأنصت قلت فالركعتين الاخريين اذا لم يسمع الامام يقرأ فقرأ هو في نفسه قال نعم ان شاء قرأ وان شاء لم يقرأ۔ (مسائل احمد بروایۃ عبداللہ ص78،المغنی ج2ص118)
ابواب محدثین اور ترک قراءۃ خلف الامام
ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی یہ عادت ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کو ذکر کرتے ہیں جو ان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں، پھر ان احادیث کو ذکر کرتے ہیں جو ان کے ہاں ناسخ ہوتی ہیں۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ م676ھ اس قاعدہ کو یوں ذکر کرتے ہیں:
ذکر مسلم فی ھذاالباب الاحادیث الواردۃ بالوضوء مما مست النار ثم عقبھا بالاحادیث الواردۃ بترک الوضوء مما مست النار فکانہ یشیرالی ان الوضوء منسوخ وھذہ عادۃ مسلم وغیرِہ من ائمۃ الحدیث یذکرون الاحادیث التی یرونھا منسوخۃ ثم یعقبونھا بالناسخ۔ (شرح مسلم للنووی ج1ص156 باب الوضوء مما مست النار)
محدثین کرام رحمہم اللہ تعالی نے قر ءا ت کے مسئلہ میں بھی یہی اسلوب اختیار فرمایاہے کہ پہلےقراءت خلف الامام کی احادیث لائے ہیں اور بعد میں ترک قراءت خلف الامام کی، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ قراءت خلف الامام منسوخ ہے۔
1 : امام مالک بن انس المدنی م 179 ھ نے پہلے”القراءۃ خلف الامام فیما لا یجہر فیہ بالقراءۃ”اور بعد میں ”ترک القراءۃ خلف الامام فیما جہر فیہ ”کا باب باندھا ہے
(مؤطا امام مالک ص66 ،68 )
2: امام محمد بن حسن الشیبانی م 189 ھ نے پہلے اثبات قراءۃ کی احادیث کو اور بعد میں ترک قراءۃ کی احادیث کو بیان کیا۔
(مؤطا امام محمد :ص94 تا ص 102 باب القراءۃ فی الصلوۃ خلف الامام)
3: امام عبد الرازاق بن الہمام م211 ھ نے پہلے قراءۃ خلف الامام کی احادیث اور بعد میں ترک کی احادیث کو ذکر کیا۔
(مصنف عبدالرازاق ؛ج2 ص 82 الی ص92 باب القراءۃ خلف الامام )
4: امام ابو بکر ابن ابی شیبہ م235 ھ نے پہلے ”من رخص فی القراءۃ خلف الامام ” کا باب باندھا اور بعد میں”من کرہ القراءۃ خلف الامام” کا باب باندھا ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص 267، 273)
5: امام محمد بن اسمعیل البخاری م؛256 ھ نے اپنے جزء ”القراءۃ” میں پہلے قراءۃ خلف الامام کی احادیث کو ذکر کیا اور آخر میں ترک قراءۃ کی احادیث کو بیان کیا ۔
6: امام ابن ماجہ القزوینی م 273 ھ نے پہلے” باب القراءۃ خلف الامام” باندھا اور قراءۃ کی احادیث کو ذکر کیا ، بعد میں “باب اذا قرء الامام فانصتوا” باندھا اورترک قراءت کی احادیث کو بیان کیا ۔
(سنن ابن ماجہ ؛ج؛1 ص 60 ،61 )
7: امام ابو داؤد و سلیمان الاشعث م 275 ھ نے پہلے” باب من رای القراءۃ اذا لم یجہر ” باندھا اور قراءۃ کی احادیث کو ذکر کیا ، پھر”باب من لم یر القراءۃ اذا لم یجھر” باندھا اور احادیث ترک کو بیان کیا ۔
(سنن ابی داؤد ؛ج1؛ص127)
8: امام ابو عیسی التر مذی م؛279 ھ نے پہلے” باب ما جاء فی القراءۃ خلف الامام ” باندھااور قراءت کی احادیث کو ذکر کیا ، بعد میں ”باب ما جاء فی ترک القراءۃ خلف الامام اذا جھر بالقراءۃ”ترک کا باب باندھا اور احادیث کو بیان کیا۔
(جامع الترمذی ؛ج 1 ص 69، ص71)
9: امام ابو عبداللہ عبد الرحمن النسائی م 303 ھ نے پہلے ”ایجاب قراءۃ فاتحۃ الکتاب فی الصلوۃ” کا باب باندھا اور قراءت کرنے کی احادیث کو ذکر کیا، بعد میں” ترک القراءۃ خلف الامام فیما لم یجھر فیہ” اور ” ترک القراءۃ خلف الامام فیما جھر بہ ” کے ابواب باندھےاور احادیث ترک قراءت کو بیان فرمایا۔
( سنن النسائی ج1ص145 ،146)
10 : امام ابو جعفر الطحاوی م ؛ 321 ھ نے پہلے قراءت کی احادیث کو ذکر کیا ، بعد میں ترک قراءت کی احادیث کو بیان کیا۔
(سنن الطحاوی ج1 ص157 تا 160 باب القراءۃ خلف الامام )
واللہ اعلم بالصواب