QuestionsCategory: تقلیدامام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تقلید کا ماخذ
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلا م علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ!

محترمی و  مکرمی متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے  تقلیدکاحکم کہاں سےلیا ؟

سائل : عبداللہ فاروق ۔جامعہ کنزالعلوم یارو

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ خود مجتہد تھے اور مجتہد ادلہ شرعیہ میں تمام احکام مستنبط کرتا ہے تو امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حکم قرآن و سنت سے لیا ہے۔
1: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم الآیۃ (سورۃ النساء: 59)
اولی الامرسے مراد ”فقہاء “ہیں۔
1: روی عن جابر بن عبد اللہ و ابن عباس روایۃ، و الحسن و عطاء و مجاہد انہم اولو الفقه والعلم.
(احکام القرآن للجصاص ج2 ص298)
2: عن معاوية بن صالح ، عن علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس قوله : وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم يعني : اهل الفقه والدين
( تفسیر ابن ابی حاتم ج3ص69)
فائدہ: قال الحاکم: تفسیر الصحابی الذی شہد الوحی و التنزیل عند الشیخین حدیث مسند.
(مستدرک الحاکم: ج2 ص383)
2: فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل: 43)
علاّمہ آلوسی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
واستدل بها أيضا على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم وفي الإكليل للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العامي في الفروع
(روح المعانی ج 8ص 148)
3: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَتَتْ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ قَالَتْ أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ كَأَنَّهَا تَقُولُ الْمَوْتَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ.
(صحیح البخاری ج1 ص516 باب قول النبی صلى الله علیہ وسلم لو كنت متخذا خليل)
ترجمہ:
حضرت محمد بن جبیر اپنے والد سےروایت کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پا س آئی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر آنے کا حکم دیا ۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤتو ؟یعنی وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی ۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس آنا
4: عَنْ هُزَيْلَ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ.
(صحیح البخاری ج2 ص997 باب المیراث ابنۃ ابن مع ابنۃ)
ترجمہ:
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھرحضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اورحضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہو چکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہو جائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورحضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔
واللہ اعلم بالصواب