QuestionsCategory: تقلیدامام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرنے کی حیثیت
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ ہم حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ رحمہ کی تقلید کرتے ہیں ۔ یہ  تقلید کرنا فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہے   قرآن کی آیت اور حدیث مبارکہ سے مجھے بتائیں ؟

سائل:محمد ریحان۔ پتا  میرٹھ ،یو پی ، انڈیا

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرنا واجب ہے
تقلید کی دوقسمیں ہیں: (۱)تقلیدِ مطلق (۲)تقلیدِ شخصی۔
تقلیدِ مطلق:
تقلید مطلق سے مراد یہ ہے کہ مسائل واحکام کی تحقیق میں انسان کسی ایک فقیہ کا پابند ہوکر نہ رہ جائے؛ بلکہ مختلف مسائل میں مختلف اصحاب علم سے فائدہ اٹھائے، یہ تقلید ہرزمانہ میں ہوتی رہی ہے، خود قرآن اس تقلید کا حکم دیتا ہے:
“يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ”۔
(النساء:59)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
تقلیدِ شخصی:
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف کے کسی متعین شخص کے علم وکمال پربھروسہ کرکے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پرعمل کرنے کوتقلید شخصی کہتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کویمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کودین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
“عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي”۔
(جامع ترمذی۔ كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْہ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:1249)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کویمن کاگورنربناکربھیجا توان سے پوچھا کہ لوگوں کے مسائل کوحل کیسے کروگے؟ انہوں نے کہا، قرآن سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا؛ اگرقرآن میں نہ ملے توانہوں نے کہا: سنتِ رسول سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھرپوچھا: اگرسنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں نہ ملے تو، کیسے فیصلہ کروگے؟ توانہوں نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرونگا۔
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرمجتہد کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پائے تواجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع وتقلید ضروری ہوگی؛ پس گویا اہلِ یمن کوحضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا۔
موجودہ دور میں اگرتقلیدِ مطلق کی اجازت دیدی جائے تودین محض کھلونا بن کررہ جائے گا اور اسلام کی شکل مسخ ہوکر رہ جائے گی، اس لیے کہ ہرمجتہدکے یہاں نادر اور شاذ اقوال موجود ہیں جوخواہشاتِ نفس کے لیے ہیں، لوگ سہولت کے لیے اسی کو تلاش کرتے پھریں گے، اس سے تحفظ کا واحد نسخہ تقلید شخصی ہے اور مصلحتِ دین کے لیے اس طرح کا لزوم کوئی نئی بات نہیں، خیرالقرون میں خواہشات اور ہوا کا غلبہ نہیں تھا؛ اس لیے اس زمانہ میں تقلید مطلق اور شخصی دونوں میں اختیار تھا، جس کوچاہے اختیار کرے؛ لیکن بعد کے حالات ایسے نہیں رہے اس لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہا کہ تقلیدشخصی کوضروری قرار دیا جائے۔
چنانچہ محدث الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں:
“وبعد المأتین ظہر فیہم التمذہب للمجتھدین باعیانہم وقل من کان لایعتمد علی مذہب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان”۔
(انصاف:59)
ترجمہ:
اوردوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہدین کا مذہب اختیار کرنا شروع ہوا اور ایسے لوگ بہت کم تھے جومتعین مجتہد کے مذہب پراعتماد نہ کرتے ہوں اور اس زمانہ میں یہ واجب تھا۔
واللہ اعلم بالصواب