QuestionsCategory: عقائدامام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کس کے مقلد تھے؟
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ

1:       فرض نماز کے  بعد جو دعا کی جاتی ہے اس کا ثبوت تو  قران یا حدیث یا  آثار صحابہ سے نہیں  تو پھر کیوں کرتے ہیں یہ  تو بدعت ہو گی ہے  لہذا نا جائز  ہونی چاہیے جب کے ہم کرتے ہیں ؟

2:      امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کس کے  مقلد  تھے؟

سائل:عثمان یونس   ۔  ایبٹ آ با د

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
احادیث میں دعا کی قبولیت کے کئی مقامات ذکر کیے گئے ہیں اسی طرح فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے ۔ فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں۔
عن العرباض بن ساریہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من صلی الفریضۃ فلہ دعوۃ مستجابۃ ومن ختم القرآن فلہ دعوۃ مستجابۃ
المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث :647
ترجمہ:
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی فرض نماز پڑھے (اور دل سے دعا کرے ) تو اس کی دعا قبول ہے اورجو آدمی قرآن مجید ختم کرے اور دعا کرے تو اس کی بھی دعا قبول ہے۔
فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہے۔متعدّد احادیث میں فرض نماز کے بعد دعا کی ترغیب و تعلیم دی گئی ہے اور ہاتھ اٹھانے کو دعا کے آداب میں سے شمار کیا گیا ہے ۔
1: سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
قيل لِرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم – : أيُّ الدُّعاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ : (( جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ ، وَدُبُرَ الصَّلَواتِ المَكْتُوباتِ )) رواه الترمذي ،وقال 🙁 حديث حسن )
ترجمہ:
عرض کیا گیا “یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم” کس وقت کی دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا: رات کے آخری حصّہ کی دعا اور فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔
2: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي بَشَرٌ.
مسند احمد :رقم الحدیث: 26218
ترجمہ: انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ اے اللہ! میں تو بشر ہوں۔
3: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل فرماتے ہیں:
إِذَا دَعَوْتَ اللهَ فَادْعُ اللهَ بِبَطْنِ كَفَّيْكَ وَلَا تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا فإذا فرغتَ فامسحْ بهما وجهَك جامع الاحادیث: رقم الحدیث 1936
ترجمہ: جب آپ اللہ سے دعا کریں تو اپنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصّہ کی طرف سے کریں ،اپنی ہتھیلیوں کی پشت سے نہ کریں اور جب آپ دعا سے فارغ ہو جائیں تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پر پھیر لیں۔
مذکورہ تینوں احادیث (اور اسی طرح دیگر احادیث) سے ثابت ہوا کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز اور مستحب ہے۔ اسے خلافِ سنّت عمل قرار دینا درست نہیں ۔کیوں کہ یہ بالکل واضح سی بات ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرض نماز کے بعد دعا کرنے کی ترغیب دی ہے اور عملاً فرض نماز کے بعد دعا فرمائی بھی ہےتو مقتدی حضرات یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے دعا نہیں کرتے ہوں گے؟ چنانچہ نماز کے بعد امام و مقتدی سب کے لیے دعا کرنا مستحب ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
عن محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»۔
(المعجم الكبیر للطبرانی : رقم الحدیث: 324)
ترجمہ: حضرت محمد بن یحییٰ اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)
اس حدیث سے نماز کے بعد دعا کرنا اور اس دعا میں ہاتھ اٹھانا دونوں چیزیں ثابت ہوئیں ۔
عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یتعوذ دبر الصلاۃ اللھم انی اعوذ بک من الجبن واعوذ بک من ان ارادالی ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا واعوذ بک من عذاب القبر
صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد ان الفاظ کے ذریعے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ، اے اللہ ہمیں بزدلی ، ناکارہ عمر کی طرف لوٹ کر جانے ، دنیاوی فتنے اور عذاب قبر سے محفوظ فرما۔
عن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یدعو بھن دبر کل صلاۃ اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر و عذاب القبر
مستدرک الحاکم: ج 1 ص 253۔سنن نسائی ۔کتاب السہو ، باب تعوذ فی دبر الصلاۃ
اس امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ نے اس کو حدیث حسن کہا ہے ۔
مذکورہ روایات میں نماز کے بعد کو “دبرکل صلاۃ” سے تعبیر کیا گیا ہے۔
نماز کے بعد امام اور مقتدی دونوں آہستہ دعا مانگیں دعا میں اصل اخفاء ہے :جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ،انہ لا یحب المعتدین اعراف :55
ترجمہ: اے بندے اپنے رب سے گڑگڑا کر اور چپکے سے دعا کرو( زور سے دعا کرنا حد سے بڑھنا ہے) اوراللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
یا ایھا الناس اربعوا علی انفسکم انکم لیس تدعون اصم ولا غائبا انکم تدعون سمیعاً و قریباً وھو معکم
صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد، باب غزوہ خیبر صحیح مسلم ۔باب استحباب حفض الصوت بالذکر
ترجمہ: اے لوگوں اپنی جانوں پر رحم کرو تم اس ذات کو نہیں پکار رہے جو بہرہ اور غائب ہے بلکہ تم سمیع اور قریب ذات کو پکار رہے ہو اور وہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے ۔
عن زہری قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفع یدیہ عند صدرہ فی الدعاء ثم یمسح بھما وجھہ مصنف عبد الرزاق ۔باب رفع الیدین فی الدعاء
ترجمہ:
حضور صلی اللہ علیہ و سلم دعا میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے کے سامنے تک اٹھاتے تھے اور پھر (دعا سے فارغ ہوکر )دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پر پھیر لیا کرتے تھے۔
اس حدیث سے دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کا سینے تک اٹھانا اور اختتام پر دونوں ہاتھ چہرہ پر پھیرنا ثابت ہوا۔
اس طرح کی روایات کے پیش نظر فقہاء کرام نے فرمایا کہ مستحب یہ ہے کہ دعا کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے کے سامنے تک اٹھائے اور ہاتھوں کا رخ آسمان کی طرف ہو اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو ۔
محدثین کرام سے نماز کے بعد دعا کا ثبوت
1: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب باندھا ہے
باب الدعاء بعد الصلاۃ بخاری۔ کتاب الدعوات
شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ اس باب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
قولہ (باب الدعاء بعد الصلاۃ ) ای المکتوبۃ وفی ھذہ الترجمۃ رد علی من زعم ان الدعاء بعد الصلاۃ لا یشرع فتح الباری ۔کتاب الدعوات
ترجمہ:
امام بخاری کا یہ باب (نماز کے بعد دعا ) یعنی فرض نماز کے بعد دعا کے بارے میں ہے امام بخاری کا یہ باب قائم کرنے میں ان لوگوں کا رد ہے جن کا گمان یہ ہے کہ نماز کے بعد شرعاً دعا ثابت نہیں
2: مشہور محدّث امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“الدعاء للامام والمأموم والمنفرد وهو مستحب عقب كل الصلوات بلا خلاف” المجموع شرح المہذب للامام النووی ،باب فرع استحباب الذکر والدعاء للامام والماموم
ترجمہ: نمازوں کے بعد دعا کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے ، امام کے لیے بھی ، مقتدی کے لیے بھی اور منفرد کے لیے بھی۔
اس طرح کی روایات اور محدثین و فقہاء کرام کی آراء فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ۔ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں لیکن اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے کبھی کبھار امام جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔
2: امام اعظم امام ابو حنیفہ کسی کے مقلد کے نہیں ہیں بلکہ وہ مجتہد ہیں اور مجتہد کسی کامقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ اصول خود قرآن و حدیث سے اخذ کرتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب