QuestionsCategory: طہارتکچھوے کے پیشاب کا حکم
احمد علی asked 2 years ago

سوال :
محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کچھوے کے پیشاب کا کیا حکم ہے؟ اگر یہ کپڑوں پہ لگ جائے تو اس کے ساتھ نماز ہو گی یا نہیں؟   جواب دے کر ممنون فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
سائل:  احمد علی

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 2 years ago

جواب :
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
 
فقہائے کرام نے کچھوے کو حرام جانوروں میں شمار کیا ہے۔ اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ حرام جانوروں کے متعلق قاعدہ ہے کہ ان کا پیشاب پاخانہ نجاست غلیظہ ہے۔ یعنی یہ ایسی ناپاکی ہے کہ اگر بدن یا کپڑوں پر ایک درہم    (تقریباً ایک انچ قطر کے دائرہ)  کے برابر یا اس سے کم لگ جائے تو معاف ہے،  اگر ایک درہم سے زیادہ لگ جائے تو معاف نہیں۔
 
اس لیے کچھوے کا پیشاب اگر کپڑے پہ لگ جائے اور ا س کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو اس صورت میں نماز نہیں ہو گی۔ ہاں اگر ایک درہم یا اس سے کم لگ جائے تو نماز ہو جائے گی تاہم کپڑا دھو کر نماز پڑھنا افضل ہے۔
 
نوٹ:       کچھوا پانی میں بھی رہتا ہے اور خشکی پہ بھی۔ پانی میں رہنے کی صورت میں پانی کو اس کے پیشاب سے بچانا مشکل ہے اس لیے اگر یہ پانی میں پیشاب وغیرہ کر دے تو  ضرورت اور محبوری کی وجہ سے اس  پانی کو ناپاک شمار نہیں کریں گے  بلکہ اس پانی سے کیے گئے وضو سے نماز پڑھنا درست  ہو گا۔
 
امام ابو الحسن علی بن ابی بكر بن عبد الجلیل المرغینانی (ت593ھ) لکھتے ہیں:
ويكره أكل الضبع والضب والسلحفاة والزنبور والحشرات كلها.
(الھدایۃ: ج4 ص68فصل فیما تحل اکلہ وما لا یحل)
ترجمہ:  بجو، گوہ، کچھوے، بھڑ اور دیگر تمام حشرات الارض کو کھانا مکروہ   (یعنی حرام، اللباب فی شرح الکتاب للمیدانی) ہے۔
 
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی (ت1362ھ) لکھتے ہیں:
“في الدر المختار في النجاسة الغليظة: وبول غير مأكول۔ پس بنا بریں قاعدہ  بول غُوک نجس غلیظ است، البتہ در غُوکے کہ در آب می ماند حکمِ نجاست نکرہ شود للضرورۃ ۔كما في الدر المختار مسائل البير: ولا نزح في بول فأرة على الأصح. في رد المحتار،  ولعلهم رجحوا القول بالعفو للضرورة”.
(امداد الفتاویٰ: ج1 ص75 طبع قدیم)
ترجمہ: در مختار میں نجاست غلیظہ کے بیان میں لکھا ہے کہ ایسے جانور جن کا گوشت کھانا جائز نہیں ان کا پیشاب پاخانہ بھی نجاست غلیظہ ہے۔ اس قاعدہ کی رو سے مینڈک کا پیشاب نجس ہے۔ ہاں البتہ مینڈک اگر پانی میں پیشاب کر دے تو ضرورت (ومجبوری) کی وجہ سے پانی پہ نجاست  کا حکم عائد نہیں کریں گے جیسا کہ در مختار میں کنویں کے مسائل میں لکھا ہے کہ اگر چوہا کنویں میں پیشاب کر دے تو صحیح قول کے مطابق کنویں کے پانی کو نہیں نکالا جائے گا (بلکہ پانی پاک ہی سمجھا جائے گا) ممکن ہے کہ فقہاء نے ضرورت کی بناء پر چوہے کے پیشاب کو  ناپاک قرار نہ دیا ہو۔
 
چوہے کا پیشاب شامل ہونے کے باوجود کنویں کے پانی پر ناپاک ہونے کا حکم  مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے نہیں لگایا جا رہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی میں کچھوے  کے پیشاب سے بچنا بھی چونکہ ممکن نہیں، اس لیے ضرورت کی وجہ سے اس پانی پہ بھی ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد الیاس گھمن
21-  دسمبر 2021ء