QuestionsCategory: صحابہ واہل بیتباغ فدک کے معاملہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی طرف غلط نسبت کرنے کا حکم
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب باغ فدک کا مطالبہ کرنے کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں اور کہا کہ یہ باغ میرے والد کی وراثت ہے لہذا آپ یہ باغ ہمیں دیں تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا یہ فرمان پڑھ کر سنایا کہ انبیاء کی وراثت درھم اور دینار نہیں  بلکہ علم ہوا کرتا ہے لہذا یہ باغ آپ کو نہیں مل سکتا۔اب سیدہ فاطمہؓ کے اس مطالبے کو یہ کہنا کے وہ ناجائز مطالبہ تھا یا سیدہ فاطمہؓ خطا پر تھی ان الفاظ کی (ناجائز۔خطا )نسبت سیدہ فاطمہؓ کی طرف کرنا کیا یہ گستاخی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں اس حوالے سے علماء دیوبند کا کیا عقیدہ ہے ۔

سائل :محمد بلال رفیق

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
واضح رہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سنائی۔
حدثنا يزيد بن خالد بن عبد الله بن موهب الهمداني، حدثنا الليث بن سعد، عن عقيل بن خالد، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير،عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها اخبرته، ان فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ارسلت إلى ابي بكر الصديق رضي الله عنه تساله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، مما افاء الله عليه بالمدينة وفدك وما بقي من خمس خيبر، فقال ابو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” لا نورث ما تركنا صدقة”، إنما ياكل آل محمد من هذا المال وإني والله لا اغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن حالها التي كانت عليه في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلاعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فابى ابو بكر رضي الله عنه ان يدفع إلى فاطمة عليها السلام منها شيئا.
(ابو داود۔رقم الحدیث 2968)
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ ان سے رسول اﷲﷺ کی میراث کا مطالبہ کرتے ہوئے جو اﷲ تعالیٰ نے حضورﷺ کو مدینہ منورہ اور فدک میں عطا فرمایا تھا اور جو خیبر کے خمس سے باقی تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ رسول پاکﷺ کا ارشاد ہے۔ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑیں، وہ صدقہ ہے مال سے آلِ محمدﷺ کھاتے ہیں اور خدا کی قسم میں رسول پاکﷺ کے صدقہ میں ذرا سی تبدیلی بھی نہیں کروں گا اور اسی حال میں رکھوں گا جس حال میں وہ رسولِ پاکﷺ کے عہدِ مبارک میں تھا اور میں اس میں عمل نہیں کروں گا مگر اسی طرح جیسے رسول پاکﷺ کیا کرتے تھے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اس میں سے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کردیا
حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس حدیث کے بارے میں علم نہیں تھا لیکن جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس طرف توجہ دلائی تو انہوں نے اس کا مطالبہ نہیں کیا
لہذا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا پہلے مطالبہ کرنا درست تھا اور حدیث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جائز تھا لیکن جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی طرف توجہ دلائی تو اپنا مطالبہ چھوڑ دیا ۔
لہذا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف خطا وغیرہ کی نسبت کرنا درست نہیں ایسے الفاظ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے ایسے الفاظ ان کی طرف منسوب کرنا گستاخی ہے
واللہ اعلم بالصواب