QuestionsCategory: متفرق سوالاتفضائل اعمال میں کثرت عبادت کے واقعات پر اعتراض
Abdul mateen asked 6 years ago

mera nam Abdul Mateen hai .Mai hyd India ka rehne wala Alhamdulillah Maine jab se allama ameen Safdar okarvi Ra aur mutakallim e Islam Hazrat Maulana Ilyas guman SAB ke bayanat Suna tab se ahle sunnat k aqail o amal k difa’a me jitna mere bas ki kam hai kar raha hu mera sawal ye hai ke ye log fazail e amal me jo ibadat ki kasrat per jo salaf ka Amal lika Gaya ke ek rat me 1000 rakat namaz padna aur is tarah ke zuhad ke waqiyat Ko Islam aur Shariyat ke khilaf bayata jata hai wo kehte hai ke huzur se ye amal Sabit nahi hai aur kuch ahadees naqal karte hai ke h.ayesha rz ne kaha ke huzur kabi bi Puri rat ibadat nahi kiye aur huzur ne chand nowjawan logon ku unki kasrat e ibadat ka irada jan kar unko isse roka is tarah ke ahadees bataya ke logon ku bolte hai ke ye amal hadees ke khilaf hai iska  qubul hona mushkil hai iska kya jawab dena chahiye maraye Meharbani batadijiye۔

میرا نام عبد المتین ہے، میں انڈیا حیدر آباد کا رہنے والا ہوں۔ جب سے مولانا امین صفدر اوکاڑی اور مولانا محمد الیاس گھمن کےح بیانات سنے ہیں اہل السنت کے عقائد و مسائل کے دفاع میں جتنا میرے بس میں ہے کام کررہا ہوں۔ میرا سوال یہ  ہے کہ کچھ لوگ فضائل اعمال میں جو کثرت عبادات پر اسلاف کے واقعات نقل کیے گئے ہیں جیسا کہ ایک رات میں ایک ہزار نفل پڑھنا اور اسی طرح زُہد کے واقعات  کو اسلام کے مخالف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اعمال ثابت نہیں ہیں اور کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پوری رات عبادت نہیں کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند نوجوانوں کو ان کی کثرت عبادت کا ارادہ جان کر اس سے روکا۔ اس طرح  کی احادیث دکھا کر وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اعمال حدیث کے خلاف ہیں ان کا قبول ہونا مشکل ہے۔ اس کا جواب ازراہ کرم بتائیے۔

1 Answers
Mufti Kefayat-Ullah answered 6 years ago
  •          جواب :صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے واقعات و کرامات پر جو عقل میں نہیں آتے کہا جاتا ہے اس کے متعلق بڑی ہی اہم بات حضرت شیخ الحدیثؒ نے تحریر فرمائی ہے:
    “ساری رات کو بے چینی اور اضطراب یا شوق و اشتیاق میں جاگ کر گزار دینے کے واقعات کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ ہم اس لذّت سے اتنے دُور ہوگئے ہیں کہ ہم کو ان واقعات کی صحت میں بھی تردد ہونے لگا ، لیکن اوّل تو جس کثرت اور تواتر سے یہ واقعات نقل کئے گئے ہیں ان کی تردید میں ساری ہی تواریخ سے اعتماد اٹھتا ہے کہ واقعات کی صحت کثرتِ نقل ہی سے  ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو آئے دن دیکھتے ہیں جو سینما اور تھیٹر میں ساری رات کھڑے کھڑے گزار دیتے ہیں کہ نہ ان کو تعب ہوتا ہے ، نہ نیند ستاتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ایسے معاصی کی لذّتوں کا یقین کرنے کے باوجود ان طاعات کی لذّتوں کا انکار کریں، حالانکہ طاعات میں اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے قوت بھی عطا ہوتی ہے۔ ہمارے اس تردّد کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ان لذّتوں سے ناآشنا ہیں اور نابالغ  بلوغ کی  سے ناواقف ہوتا ہی ہے۔ حق تعالیٰ شانہ اس لذّت تک پہنچادیں تو زہے نصیب۔”(فضائلِ نماز ص 87)
    حضرت شیخ الحدیثؒ کی ان تصریحات سے تمام اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں جو یہ
  •  لوگ کرتے ہیں کہ یہ عقل میں بات نہیں آتی وہ دنیا دار سینیما ، فون اور رات میں گپ شپ کرنے والوں کو
  • اور یہ بات آج کل تو سمجھنابہت آسان ہو چکا ہے کہ بعض لوگ موبائل پر پوری پوری رات گزار دیتے ہیں انکو دیکھ لیں کہ وہ نافرمانی کے کاموں  میں بشاشت کے ساتھ راتیں گذار
  • دیتے  ہیں تو کیا اللہ کی اطاعات میں کوئی ایسا نہیں کرسکتا۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ اسکو احادیث کے خلاف کہنا جہالت اور ناواقفیت کی وجہ سےہے کیونکہ یہ کرامات میں سے ہے اور کرامت ہوتی ہی خرق عادت ہیں  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع کرنا امت کومشقت سے بچانے کی وجہ سے تھا نہ کہ ناجائز ہونے کی وجہ سے ۔فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب