QuestionsCategory: متفرق سوالاتبیماری کا متعدی ہونے کے متعلق اہل السنہ کا موقف
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ

1:      ایک بندے سے بیماری دوسرے بندے کو لگ سکتی ہے یا نہیں کوئی مرض متعدی ہوتا ہے یا نہیں ؟موجودہ حالات میں کرونا وائرس سے بچنے کےلیےجو  تدابیربتائی جارہی ہیں  کہ ماسک کا استعمال کیا کریں کسی ایسے مریض سے مصافحہ نہ کریں اور ایسے مریض سے الگ رہا جاے اور اس قسم کے مریض کی میت سے مرض پھیلنے کا خطرہ ہے تو کیا یہ باتیں کرنا اور یہ کام کرنا ٹھیک ہےاب ہمیں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟

2:      حدیث (لا عدوی) کی باره میں اہل السنہ و الجماعہ کا عقیده کیا ہے؟  احادیث کا جمع کیسا ممکن ہے؟

سائل؛عمران عالَم

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1: یہ تصور کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے، زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں ، چنانچہ اہل عرب کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص بیمار کے پہلو میں بیٹھ جائے یا اس کے ساتھ کھائے پئے تو وہ بیماری اس میں بھی سرایت کر جائے گی ، لہذا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اعتقاد خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ مرض کا ایک سے دوسرے میں سرایت کرنا اور اڑ کر لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق نظام قدرت اور قادر مطلق کی مشیت سے ہے کہ جس طرح پہلا شخص بیمار ہوا ہے اسی طرح دوسرا شخص بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى ولا هامة ولا صفر . فقال أعرابي يا رسول فما بال الإبل تكون في الرمل لكأنها الظباء فيخالها البعير الأجرب فيجر بها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن أعدى الأول .
سنن ترمذی ۔کتا ب التقدیر،رقم الحدیث :2143
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کسی بیماری کا ایک دوسرے کو اڑ کر لگنا ‘ہامہ “[جس گھر پر الو آکر بیٹھ جائے اور بولے تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے یا اس کا گھر سے کوئی مر جاتا ہے] اور صفر،[صفر کا مہینہ مراد ہے] اس سب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ (ایک دیہاتی نے کہ جو اپنے ناقص مشاہدے و تجربہ کی بنا پر خارش کو متعدی بیماری سمجھتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تو پھر ان اونٹوں کے بارے میں کہا جائے گا (جو اپنی تندرستی اور اپنی کھال کی صفائی ستھرائی کے اعتبار سے) ہرن کی مانند ریگستان میں دوڑے پھرتے ہیں، لیکن جب کوئی خارشی اونٹ ان میں مل جاتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اچھا تو یہ بتاؤ ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ بنایا ؟ یعنی خارش پیدا ہونے کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی سے اڑ کر لگے لہٰذا جس طرح ان تندرست اونٹوں میں آملنے والے خارش زدہ اونٹ میں خارش کا پیدا ہونا بتقدیر الہٰی ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے اونٹوں کا خارش زدہ ہو جانا بھی حکم الٰہی کے تحت اور نظام قدرت کے مطابق ہوتا ہے
2: احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ نفس مرض فی ذاتیہ متعدی نہیں ہوتی یعنی بیماری کی ذات میں اللہ نے یہ تاثیر نہیں رکھی کہ وہ ایک سے دوسرے کو لگے اگر کسی خارجی سبب سے بیماری ایک سے دوسرے کو لگی تو یہ حدیث کے خلاف نہیں اس طرح خاص بیماری کے اندر یہ اللہ کی طرف سے تاثیر ہوتو وہ ایک سے دوسرے کو لگے تو یہ بھی حدیث کے خلاف نہیں جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
‏‏‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ
صحیح بخاری ،کتاب الطب ،باب جذام ،رقم الحدیث:5707
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگو جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
کیونکہ شیر طبعاً حملہ کرتا ہے ہاں کسی وجہ سے بندہ بچ جائے احتیاط کرکے تو ٹھیک ہے اس طرح جذام کی بیماری جو کہ حملہ کرتی ہے ہاں اگر تم تدابیر اختیار کرو تو بچ جاؤ تو بچنے کی کوشش کرو ۔
حاصل یہ کہ وبا سے ڈر کر بھاگنا بلا شک و شبہ ممنوع اور معصیت ہے اور اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ بھاگے کہ یہاں موجود رہا اور صبر و اثبات کی راہ اختیار کی تو یقینا وبا کا شکار ہو کر مر جاؤں گا اور اگر یہاں سے نکل بھاگا تو بچ جاؤں گا تو ایسا شخص نہ صرف بھاگنے کی معصیت ہی کا مرتکب ہو گا بلکہ اس فاسد اعتقاد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا خطرہ ہے اور اس اعتقاد کے بغیر بھاگنے والا گنہگار ہوگا ۔
تنبیہ : یہ فتوی فقہ حنفی کے مطابق دیا گیا ہے مالکیہ ،حنابلہ، شوافع اپنی اپنی فقہ کے مطابق عمل فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب