QuestionsCategory: متفرق سوالاتبارش نہ ہونے کی وجہ سے روضہ رسول سے کھڑکی کھولنا
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ ایک عالم نے یہ بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد بارش نہیں ہوتی تھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ روضہ رسول سے پردہ ہٹا لو بارش ہو جائے گی اور لوگوں نے اس طرح کیا

آیا کیا یہ صحیح روایت سے ثابت ہےیا نہیں  ؟

سائل: ولید اسد

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مذکورہ روایت صحیح الاسناد ہے اور کئی ایک کتب احادیث میں موجود ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
قُحِطَ أهل الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَي عائشۃ ، فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوْا مِنْهُ کِوًي إلَي السَّمَاءِ، حَتَّي لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّي نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْاِبِلُ حَتَّي تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ ’’عَامَ الْفَتْقِ“۔
ترجمہ:
ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اُگ آیا اور اُونٹ موٹے ہوگئے ۔ پس اُس سال کا نام ہی ’’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
(سنن دارمی،ج 1 :ص 56، رقم الحدیث: 92۔وفاء الوفا باحوالِ دار المصطفیٰ:ابن جوزی : 817، رقم الحدیث: 1534۔شفاء السقام فی زيارة خير الأنام :ص 128)
مشہور مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی المتوفی ۹۱۱ ؁ھ فرماتے ہیں:
زین المراغی نے کہا : جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رُخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔
(تاریخ وفاء الوفا باخبار دار المصطفیٰ : ج2ص 560)
یہ روایت سنن الدارمی میں مندرجہ ذیل سند کے ساتھ ہے
حدثنا أبو النعمان ثنا سعيد بن زيد ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال :” قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كووا إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق ”
مذکورہ روایت مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے
1) سنن الدارمي للإمام أبو محمد عبد الله الدارمي (م 255) ج 1 ص 277
2) مشكاة المصابيح للإمام محمد بن عبدالله التبريزي(م741) ج 3 ص 1676
3) مرقاة المفاتيح للإمام علي بن سلطان المعرف الملا علي القاري ( م 1014) ج 9 ص 3839
4) غريب الحديث للإمام الحافظ إبراہيم بن إسحاق الحربي ( م 285) ج 3 ص 946
5) إمتاع الأسماع للإمام أحمد بن علي المقريزي (م: 845) ج 14 ص 615
6) جمع الفوائد للمحدث محمد بن محمد المغربي المالكي (م 1094) ج 1 ص 345
7) الوفا بتعريف فضائل المصطفى للإمام المحدث إبن الجوزي (م597) ج 1 ص 515
8) خلاصۃالوفا بأخبار دار المصطفى للعلامۃ علي بن عبد الله السمهوي الشافعي (م911 ) ج 2 ص 141
9) المواهب اللدنيۃ للعلامۃأحمد بن محمد القسطلاني (م: 923) ج 3 ص 374
10) شرح الزرقاني على المواهب اللدنيہ للإمام أبي عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني المالكي (م: 1122)ج 11 ص 150
11) سبل الهدى والرشاد للإمام العلامہ محمد بن يوسف الصالحي الشامي (م: 942) ج 12 ص 347
تصحیح السند:
ابو النعمان :[م224]
نام :محمد بن فضل اور نسب السدوسی ہے اور کنیت ابو نعمان اورلقب عارم سے مشہور ہے امام ابو حاتم الرازی ،نسائی، دارقطنی اور امام بخاری نے قبل ان یختلط اس کو ثقات میں شمار کیا ہے جبکہ ذہبی اور امام عجلی نے مطلق ثقہ بتایا ہے بہرحال اگر اس کو احد الثقات قبل ان یختلط مان لیا جائے تب بھی بالکل یہ مجروح نہیں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ روایت اس نے بعدالاختلاط نقل کیا ہے تہذیب التہذیب جلد 9 صفحہ 357
سعید بن زید:[م167]
کنیت ابو الحسن
امام احمد جنبل نے فرمایا :لیس نہ باس
مسلم بن ابراہیم نے کہا :صدوق
یحیی بن سعید القطان نے فرمایا:لیس بشی
یحیی بن معین ،سلیمان بن حرب ،محمد بن سعد نے توثیق کی ہے
تہذیب التہذیب ج 4ص 89
عمروبن مالک النکری:[م129]
ابن حبان اور الذہبی نے توثیق کی ہے تہذیب التہذیب ج8 ص84
ابو الجوزاء:[م83]
قال ابن عدی :لاباس بہ احادیثہ مستقیمۃ
ابن حبان اور العجلی نے توثیق بیان کی ہے
تہذیب التہذیب ج1ص 335
اس حدیث کے تحت ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں
وقیل انہ یستشفع بہ عند الجدب فتمطر السماء فامرت عائشہ بکشف قبرہ مبالغہ فی الاستشفاع فلا یبقی بینہ و بین السماء الحجاب
مرقاۃ المفاتیح۔ج11ص231
نبی علیہ السلام کے ساتھ قحط سالی میں استشفاع کیا جاتا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے مبالغۃًک قبر کو ظاہر کرنے کا حکم دیا تو قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کی حجاب نہ رہا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روشن دان اُم المؤمنین نے قحط کے زمانے میں حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے بارش لانے کے لئے بنوایا تھا ۔ جب قحط سے لوگ اور جانور بھوکے مررہے ہوتے ، بارش نہ ہونے سے زمین پر سبزہ ختم ہوجاتا اور سورج آگ برسارہا ہوتا ایسے میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے اوپر سے اس کھڑکی کو کھول دیا جاتااور دیکھتے ہی دیکھتے رحمۃ اللعالمین کے وسیلہ سے بارانِ رحمت چھماچھم برسنے لگتی ۔
واللہ اعلم بالصواب