QuestionsCategory: نکاح و طلاقرخصتی سے قبل ایک لفظ سے اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم
خالد حسین asked 4 years ago

سوال:
السلام  علیکم ورحمۃ الله وبركاتہ
ایک شخص کا ابھی صرف نکاح ہوا ہے اور رخصتی نہیں ہوئی۔ یہ شخص فون پر اپنی منکوحہ سے باتیں کر رہا تھا کہ دونوں کی تو تو میں میں ہو گئی۔ اس شخص نے فون پر اپنی منکوحہ کو کہا:
”تمہیں تین طلاق ہیں!“
سوال یہ ہے کہ ان الفاظ سے طلاق ہو گئی یا نہیں؟  اگر طلاق ہو گئی تو کتنی؟ نیز اگر یہ دوبارہ ملنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ برائے مہربانی تفصیلاً جواب دیں۔ جزاک اللہ خیرا
سائل: خالد حسین، پشاور

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 4 years ago

جواب:
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نکاح کے بعد اگر رخصتی نہیں ہوئی اور نہ ہی خلوتِ صحیحہ ہوئی ہے  (خلوتِ صحیحہ ؛ خاوند اور بیوی کے تنہائی میں بغیر کسی مانع کے ملاقات کرنے کو کہتے ہیں)  تو خاوند کے ان الفاظ ”تمہیں تین طلاق ہیں!“ سے اس کی منکوحہ پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور وہ اپنے خاوند پر حرام ہو چکی ہے۔ اب حلالہ شرعی کے بغیر دونوں کا ملنا ممکن نہیں ہے۔ حلالہ شرعی یہ ہے  کہ یہ عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے، دوسرا خاوند نکاح کے بعد وظیفہ زوجیت بھی ادا کرے۔ پھر اگر دوسرا شوہر از خود طلاق دے دے یا وفات پا جائے  اور اس کی عدت بھی گزر جائے تو یہ عورت  اگر پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
علامہ شمس الدین محمد بن عبد اللہ بن احمد تمر تاشی  الحنفی (ت1004ھ) لکھتے ہیں:
 قَالَ لِزَوْجَتِهِ غَيْرِ الْمَدْخُولِ بِهَا: “أَنْتِ طَالِقٌ  ثَلَاثًا ” وَقَعْنَ.
(تنویر الابصار مع  الدر المختار: ج4 ص496 کتاب الطلاق، باب طلاق المدخول بھا)
ترجمہ: خاوند نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی (جس کی رخصتی اور خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی)کو کہا : تجھے تین طلاقیں ہیں! تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
 
نوٹ:
تین طلاق کے کے وقوع کے دلائل درج ذیل ہیں:
قرآن مجید مع التفسیر:
پہلی آیت:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(سورۃ البقرہ :229)
ترجمہ: طلاق  دو با رہونی چاہیے۔ اس کے بعد (شوہر) یا تو قاعدے کے مطابق (بیوی کو) روک رکھے (یعنی طلاق سے رجوع کر لے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔
استدلال و تفسیر:
[۱]: امام محمد بن اسما عیل بخا ری رحمۃ اللہ علیہ تین طلا ق کے وقوع پر مذکورہ آیت سے استدلال کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں:
”با ب من اجاز طلاق الثلاث‘‘[وفی نسخۃ :باب من جوز طلاق الثلاث ] لقولہ تعالیٰ : أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ .“
(صحیح البخاری: ج2 ص791)
ترجمہ: باب؛ جس نے تین طلاقیں دیں تو وہ واقع ہو جائیں گی اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
[۲]:شارح بخاری علامہ قسطلانی رحمہ اللہ صحیح البخاری کے اس باب کا عنوان قائم کر کے ﴿أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾  کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہذا عام یتناول ایقاع الثلاث دفعۃ واحدۃ وقد دلت الآیۃ علی ذلک من غیر نکیر الخ․
(ارشاد الساری: ج8 ص157)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ سے  (جس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں متفرق طور پر دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں، اسی طرح) یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو بھی واقع ہو جاتی ہیں، اس آیت سے یہی ثابت ہوتا ہے اور اس میں کسی کا انکار منقول نہیں۔
[۳]: امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصا ری القرطبی رحمہ اللہ اس آ یت کی تفسیر کر تے ہو ئے فر ماتے ہیں:
قال علماؤنا واتفق ائمۃ الفتویٰ علیٰ لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمۃ واحدۃ•
(الجامع لاحکا م القر آن للقرطبی :ج1ص492)
ترجمہ: ہمارے علماء بھی یہی فرماتے ہیں اور فتویٰ دینے والے ائمہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ تین طلاقیں ایک کلمہ سے دی جائیں تو تین  ہی واقع ہوتی ہیں۔
دوسری آیت: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
 (سورۃ البقرۃ:230)
ترجمہ:      پھر اگر شوہر( تیسری) طلاق بھی دے دے تو(وہ مطلقہ عورت) اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔
استدلال و تفسیر:
[۱]: مشہور صحابی اور مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ.
(السنن الکبری للبیہقی: ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
ترجمہ:  اگر کوئی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔
[۲]: مشہور فقیہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ’’وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ_وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939)
ترجمہ:  قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کسی اورشوہر سے نکاح نہ کرے۔
[۳]: علامہ ابن حزم اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قول اللہ تعالیٰ: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾ فَهٰذَا يَقَعُ عَلَى الثَّلاثِ مَجْمُوعَةً وَمُفَرَّقَةً، وَلا يَجُوزُ أَنْ يُخَصَّ بِهَذِهِ الآيَةِ بَعْضُ ذَلِكَ دُونَ بَعْضٍ بِغَيْرِ نَصٍّ.. (المحلیٰ لابن حزم: ج9 ص394 كتاب الطلاق مسألۃ1945)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾ ان تین طلاقوں پربھی صادق آتا ہے جو اکٹھی ہوں اور ان پر بھی سچا آتا ہے جو  متفرق طور پر ہوں، اور بغیر کسی نص (دلیل) کے اس آیت کو  تین اکٹھی طلاقوں کو چھوڑ کر صرف متفرق کے ساتھ مخصوص کر دینا صحیح نہیں ہے۔
احادیث مبارکہ:
(1): عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ……قَالَ عُوَیْمَرُرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کَذَبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ (وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ دَاؤُدَ)قَالَ:فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ.
(صحیح البخاری ج2ص306 باب من اجاز طلاق الثلاث، سنن ابی داؤد ج 1ص324 باب فی اللعان – وقال الالبانی: صحیح رقم 2252)
ترجمہ:      حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے(جب اپنی بیوی سے لعان کیا  توحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں) کہا: یارسول اللہ! اگر اب بھی میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹا بہتان باندھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ) عویمرنے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان طلاقوں کو نافذ بھی کردیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو نافذ فرما دیا تھا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ”با ب من اجاز طلاق الثلاث‘‘ [باب؛ جس نے تین طلاق دی تو وہ واقع ہو جائے گی] کے تحت اس روایت کو لائے ہیں۔ ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ  تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اگرچہ ایک مجلس میں دی گئی ہوں۔
(2):        عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ.
(صحیح البخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث، السنن الکبری للبیہقی ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات)
ترجمہ:      ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیاکہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شخص بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا: ”با ب من اجاز طلاق الثلاث‘‘ [باب؛ جس نے تین طلاق دی تو وہ واقع ہو جائے گی]، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو ”باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات“ [باب : تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں اگرچہ اکٹھی دی جائیں] میں لائے ہیں اور حا فظ ابن حجر عسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
فا لتمسک بظاہر قولہ ”طلقہا ثلاثاً “فا نہ ظاہر فی کونہا مجموعۃ•
(فتح الباری لا بن حجر :ج9ص455باب من جوز الطلاق الثلاث)
 تر جمہ: اس روا یت کے الفا ظ ”فطلقہا ثلاثاً“ سے استدلال کیا گیا ہے (کہ تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں) کیو ں کہ یہ الفاظ اس بارے میں بالکل ظاہر ہیں کہ اس شخص نے تین طلا قیں اکٹھی دی تھیں۔
(3):        عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِىَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقَرْئَيْنِ الْبَاقِيَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَ اللَّهُ إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قَرْءٍ. قَالَ : فَأَمَرَنِى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ:« إِذَا هِىَ طَهَرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! رَأیْتَ لَوْاَنِّیْ طَلَّقْتُھَاثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟قَالَ لَاکَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً.
 (سنن الدارقطنی: ج4ص20 حدیث نمبر3929- وسندہ صحیح)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض ایک طلاق دے دی پھر ارادہ کیاکہ باقی دوطلاقیں بھی بقیہ دوقرء (حیض یا طہر) کے وقت دے دیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے فرمایا:’’تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح تو حکم نہیں دیا، تو نے سنت کے مطابق نہیں کیا۔ سنت تویہ ہے کہ جب پاکی کا زمانہ آئے تو ہر طہرکے وقت اس کوطلاق دے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیاکہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا:’’جب تیری بیوی کا پاکی کا زمانہ آئے تو(مرضی ہو تو) اس کوطلاق دے دینا اورمرضی ہوتو بیوی بناکررکھ لینا۔ اس پرمیں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا اس سے رجوع کرنا میرے لیے حلال ہوتا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اوریہ (کام کرنا) گناہ ہوتا۔“
(4):        عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا أُصِيْبَ عَلِىٌّ وَبُوْيِعَ الْحَسَنُ بِالْخِلَافَةِ قَالَتْ : لِتَهْنِئْكَ الْخِلاَفَةُ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ فَقَالَ : یُقْتَلُ عَلِىٌّ وَ تُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ اذْهَبِى فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ نِسَاجَهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتَهَا وَبَعَثَ إِلَيْهَا بِعَشْرَةِ آلاَفٍ مُتْعَةً وَ بَقِيَّةٍ بَقِيَ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا فَقَالَتْ : مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مُفَارِقٍ فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ لَرَاجَعْتُهَا.
(سنن الدارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3927 کتاب الطلاق و الخلع و الطلاق- اسنادہ صحیح)
ترجمہ:      حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا تو اس موقع پر عائشہ خثعمیہ نے آپ کوکہا :’’ اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہو۔“ اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ”کیا یہ مبارک باد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہارکر رہی ہے؟ جا!تجھے تین طلاقیں ہیں“ اس نے اپنی عدت کے کپڑے اوڑھ لیے اور وہیں عدت گزار دی۔عدت گزرنے پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو دس ہزار اور بقیہ مہر(جو ابھی ادا نہیں ہوا تھا) دے دیا۔ جب اس کو یہ رقم ملی تو وہ کہنے لگی: ”بچھڑنے والے دوست کی طرف سے یہ مال کم ملاہے۔“ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ رو دیے اور فرمایاکہ اگر میں نے اپنے نانا جان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ نہ سنا ہوتا- یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی- کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یاتین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ “ تو میں ضروراس سے رجوع کرلیتا۔
(5):        عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ اِذَااُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص 11 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا- اسنادہ حسن ورواتہ ثقات)
ترجمہ:      حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں توحضرت عمر اس کو سزا دیتے اوران میاں بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔‘‘
(6):        عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي یَحْيٰى قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عُثْمَانَ فَقَالَ : إنِّي طَلَّقْت امْرَأَتِي مِئَةً ، قَالَ : ثَلاَثٌ يُحَرِّمْنَهَا عَلَيْك ، وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ عُدْوَانٌ.
(مصنف ابن ابی شیبہ :ج4ص13باب ما جا ء یطلق امرأتہ مائۃ او الف فی قول وا حد- اسنادہ صحیح و رجالہ ثقات، مثلہ فی مصنف عبد الرزاق :ج6ص306 باب المطلق ثلاثاً- واسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم)
ترجمہ: حضرت معاویہ بن ابی یحییٰ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ”میں نے اپنی بیوی کو ایک سو طلاقیں دی ہیں۔“حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”تین طلاقوں نے تیری بیوی تجھ پر حرام کر ڈالی ہے اور باقی ستانوے زیادتی اورظلم ہیں۔ “
(7):        عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِیْ نَمْرٍقَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلٰی عَلِیٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِیْ عَدَدَ الْعَرْفَجِ۔ قَالَ تَاْخُذْ مِنَ الْعَرْفَجِ ثَلاَثاً وَتَدْعُ سَائِرَہُ۔
(مصنف عبدالرزاق ج6ص306 حدیث نمبر 1 1385باب المطلق ثلاثا- اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم، و مثلہ فی مصنف ابن ابی شیبۃ: ج4ص12 باب فی الرجل یطلق امراتہ ماۃ او الفا فی قول واحد- اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم)
ترجمہ:      شریک بن ابی نمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ ایک آدمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیااورکہنے لگاکہ میں نے اپنی بیوی کوعرفج درخت کے عدد کے برابر طلاق دی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’عرفج درخت سے تین کو لے لے اور باقی تمام چھوڑ دے۔‘‘
(8):        قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْکَبِیْرُ أَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّابِعِیُّ الْکُوْفِیُّ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ حُسَیْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ دِیْناَرٍ عَنْ عَطَاء عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَ ثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ. (مسند ابی حنیفہ بروایۃ بحوالہ جامع المسانید للخوارزمی ج2ص 148- اسنادہ صحیح)
ترجمہ:      حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آکرکہنے لگامیں نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی ہیں۔آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اورتیری بیوی تجھ پرحرام ہوگئی جب تک وہ تیرے علاوہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے (تیرے لیے حلال نہیں ہو گی)۔‘‘
اجماع امت:
[۱]:         امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص  (متوفیٰ307ھ):
فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا. (احکام القر آ ن للجصا ص :ج1 ص527ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً )
ترجمہ: قرآن مجید، سنت اور سلف کے اجماع سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں۔
[۲]:        امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر (متوفیٰ319ھ):
وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَ ثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَاجَائَ بِہٖ حَدِیْثُ النَّبِیّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ•  (کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
ترجمہ: ان (فقہاء اورمحدثین) کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے (اور وہ از خود طلاق دے دے یا مر جائے اور عدت بھی گزر جائے) تواب حلال ہوجاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔
[۳]:        امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی (متوفیٰ321ھ):
مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّفِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ… فَخَاطَبَ عُمَرُبِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ• (سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا)
ترجمہ: جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور طلاق دیتے وقت تینوں کو نافذ بھی کر دیا (یعنی ایک مجلس میں دیں)تو یہ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ جب) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا (کہ تین طلاقیں تین ہیں) اور ان مخاطبین میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے جوحضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔
[۴]:        قاضی ثناء اللہ پانی پتی (متوفیٰ1225ھ):
اَجْمَعُوْاعَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ: “أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً”  یَقَعُ ثَلَاثاً بالْاِجْمَاعِ.
(التفسیر المظہری ج1ص300 تفسیر سورۃ البقرۃ. تحت قولہ تعالیٰ: الطلاق مرتن)
ترجمہ:      ان (فقہاء ومحدثین) کااس  بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو بالاجماع تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
فقہاء کرام رحمہم اللہ:
فقہاء کرام خصوصاً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں:
1: امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت [م150ھ] (مؤطا امام محمد:ص263، سنن الطحاوی:ج2ص34، 35، شرح مسلم:ج1 ص478)
2: امام مالک بن انس المدنی [م 179ھ] (التمہید لابن عبد البر :ج6ص58،المدونۃ الکبریٰ:ج2ص273، شرح مسلم: ج1 ص478)
3:  امام محمد بن ادریس الشا فعی [م 204ھ] (کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939)
4: امام احمد بن حنبل [م241ھ] (شرح مسلم:ج1 ص478)
5: جمہور علماء تابعین و غیرہ․․․ علامہ بدر الدین العینی   (متوفیٰ 855ھ) صحیح البخاری کی شرح   ”عمدۃ القاری“ میں لکھتے ہیں:
ومذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم الأوزاعي والنخعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد وآخرون كثيرون علی أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن ولكنه يأثم. (عمدۃ القاری: ج 14ص236 باب من اجاز  طلاق الثلاث)
ترجمہ: جمہور تابعین حضرات اور بعد کے علماء کا جن میں امام اوزاعی، امام نخعی،  امام ثوری، امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد، امام مالك اور ان کے شاگرد، امام شافعی اور ان کے شاگرد،امام احمد اوران کے شاگرد، امام اسحاق، ا مام ابو ثور، امام ابو عبید  اور ان کے علاوہ بہت سے علماء شامل ہیں، یہ موقف ہے کہ  اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ تین ہی واقع ہوں گی اور خاوند (تین طلاقیں اکٹھی دینے کی وجہ سے) گناہ گار بھی ہو گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
19 محرم الحرام 1442ھ/
8- ستمبر 2020ء