QuestionsCategory: نکاح و طلاقحلالہ شرعی کے متعلق چند سوالات کے جوابات
محمد اعجاز asked 2 years ago

سوال :
 
مسمیٰ  محمد اقبال نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اور عورت نے عدت بھی گزار لی ہے۔ عدت مکمل ہونے کے بعد اب  محمد اقبال اور یہ عورت صلح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اس کے لیے حلالہ شرعی کا طریقہ اختیار کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے چند امور دریافت طلب ہیں:
 
1:            کیا حلالہ شرعی میں صرف خلوت کافی ہے یا  جماع  بھی ضروری ہے؟ اگر صرف خلوت کافی ہے تو کیا طلاق ہونے کے بعد عدت ہو گی یا نہیں ؟
 
2:            کیا حلالہ شرعی میں خاوند ثانی حقِ زوجیت معاف کر سکتا ہے؟ یعنی وہ یہ کہہ دے کہ میں نکاح کرتا ہوں لیکن حقِ زوجیت یعنی ہمبستری معاف کرتا ہوں۔ اگر وہ حقِ زوجیت معاف کر سکتا ہے تو کیا طلاق کے بعد عدت واجب ہو گی یا نہیں؟
 
3:            اگر خاوند سے حقِ زوجیت معاف کرنے کی شرط لگا دی جائے تو یہ شرط لگانے سے  حلالہ شرعی درست ہو گا یا نہیں ؟
 
4:            کیا حلالہ شرعی میں وقت کو متعین کر سکتے ہیں؟ مثلاً نکاح کرتے ہوئے دوسرے شوہر کا یہ کہنا کہ پانچ دن یا دس دنوں کے لیے نکاح کرتا ہوں۔
 
سائل: محمد اعجاز ، سرگودھا

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 2 years ago

جواب:
 
واضح رہے کہ  قرآن وسنت اور فقہائے کرام کی تشریحات کی روشنی میں حلالہ شرعی یہ ہے کہ عورت طلاق مغلظہ ہو جانے کے بعد پہلے عدت گزارے، پھر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے۔ اس نکاح میں خلافِ شرع کوئی شرط نہ لگائی جائے۔ نکاح کے بعد دوسرے خاوند کے ساتھ گزر بسر کرے اور  دوسرا خاوند ہمبستری بھی کرے۔ اس کے بعد خاوند از خود طلاق دے دے یا فوت ہو جائے اور یہ عورت عدت گزارے۔  عدت گزارنے کے بعد اگر چاہے تو پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔
 
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں:
 
[1]:        حلالہ شرعی  میں خلوتِ صحیحہ کافی نہیں بلکہ ہمبستری کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس لیے اگر کسی عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور خاوند سے صرف خلوف صحیحہ ہو سکی لیکن ہمبستری نہ ہو سکی اور اس نے طلاق دے دی تو  یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہو گی۔ ہاں البتہ یہ واضح رہے کہ خلوت صحیحہ کے پائے جانے کی صورت میں اگر خاوند نے طلاق دے دی ہو تو اس عورت پر عدتِ طلاق لازم ہو گی۔ گویا خلوتِ صحیحہ؛ عدت واجب ہونے کے حق میں تو مؤثر ہوتی ہےلیکن خاوند اول کے لیے حلت  کے حق میں مؤثر نہیں ہوتی۔
 
نوٹ:       خلوتِ  صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ خاوند اور بیوی ایسی جگہ میں تنہا جمع ہوں جہاں ہمبستری کرنے میں حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ پایا جاتا ہو۔  حسی مانع  جیسے خاوند اور بیوی دونوں یا ان میں سے کوئی ایک ایسا بیمار ہو کہ ہمبستری کرنا اس کے لیے مضر ہو۔ طبعی مانع جیسے بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو۔ شرعی مانع جیسے خاوند بیوی دونوں یا ان میں سے کوئی ایک احرام کی حالت میں ہو۔
 
[2]:        اگر  خاوند نے حقِ زوجیت معاف کر دیے  اور ادا بھی نہ کیے ، اس کے بعد طلاق دے دی تو یہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ اس صورت میں اگر خلوتِ صحیحہ میسر نہ آئی  اور خاوند نے طلاق دے دی تو عدت واجب نہ ہو گی اور اگر خلوتِ صحیحہ (بغیر ہمبستری) کے پائی گئی اور خاوند نے طلاق دے دی  تو عدتِ طلاق لازم ہو گی جیسا کہ پہلے تفصیل گزری۔
 
[3]:        خاوند کے لیے حقِ زوجیت معاف کرنے کی شرط لگانا جائز نہیں۔ ایسی شرط خود بخود باطل ہو جائے گی اور خاوند سے حقِ زوجیت ساقط نہ ہو گا۔ تاہم اگر کسی نے یہ شرط لگا کر نکاح کیا لیکن دوسرے خاوند نے  اس شرط کے برخلاف جماع بھی کر لیا اور اس کے بعد طلاق دے دی تو ایسے نکاح کی وجہ سے وہ عورت شوہرِ اول کے لیے حلال ہوجائے گی لیکن اس قسم کی شرائط لگا کر نکاح کرنا لعنت کا باعث بنتا ہے۔ نیز یہاں بھی واضح رہے کہ اگر اس شرط کی وجہ سے واقعتاً خاوند نے ہمبستری نہ کی ہو تو اس سے حلالہ شرعی درست نہ ہو گا اور یہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہو گی۔
 
[4]:        اس طرح وقت مقرر کر کے نکاح کرنا جائز نہیں۔ اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
 
دلائل:
 
(1):        اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾. (سورۃ البقرۃ:230)
ترجمہ:      پھر اگر شوہر( تیسری) طلاق بھی دے دے تووہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک وہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔
 
(2):        امام ابو عبد اللہ  محمد بن اسماعیل البخاری ( ت 256ھ) روایت نقل کرتے ہیں:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:”لَا حَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ.”
(صحیح البخاری: رقم الحدیث 5261، صحیح مسلم: رقم الحدیث 1433، السنن الکبریٰ للبیہقی: رقم الحدیث15348)
ترجمہ:      ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیاکہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شوہر بھی اس سے ہمبستری نہ کر لے۔“
 
(3):        علامہ علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی المعروف خازن (ت741ھ) لکھتے ہیں:
مذهب جمهور العلماء أن المطلقة بالثلاث لا تحل للزوج المطلقة منه بالثلاث إلّا بشرائط ، وهي أن تعتد منه ثم تتزوج بزوج آخر ويطأها ، ثم يطلقها , ثم تعتد منه ، فإذا حصلت هذه الشرائط فقد حلت للأول وإلّا فلا.
(تفسیر الخازن: ج1 ص181)
ترجمہ:       جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ  جس عورت کو تین طلاقیں ہوئی ہوں وہ اپنے خاوند کے لیے چند شرائط کے ساتھ حلال ہوتی ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں کہ اس طلاق کی وجہ سے یہ عورت عدت گزارے، پھر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر اس سے ہمبستری بھی کرے۔ پھر وہ اسے طلاق دے اور یہ عورت اس طلاق کی عدت بھی گزارے۔ جب یہ شرائط پائی جائیں تو اب یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو گی ورنہ نہیں۔
 
(4):        علامہ فخر الدین ابو محمد عثمان بن علی زیلعی الحنفی (ت743ھ) لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ أَصْحَابَنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ أَقَامُوا الْخَلْوَةَ الصَّحِيحَةَ مَقَامَ الْوَطْءِ في حَقِّ بَعْضِ الْأَحْكَامِ دُونَ الْبَعْضِ فَأَقَامُوهَا في حَقِّ تَأَكُّدِ الْمَهْرِ وَثُبُوتِ النَّسَبِ وَالْعِدَّةِ …..  وَلَمْ يُقِيمُوهَا مَقَامَ ….. حِلِّهَا لِلْأَوَّلِ.
(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق: ج2 ص551، 552 کتاب النکاح، باب المہر)
ترجمہ: جان لیجیے کہ ہمارے اصحاب احناف ؛ خلوتِ صحیحہ کو بعض مقامات میں ہمبستری کے قائم مقام ٹھہراتے ہیں اور بعض میں نہیں۔ چنانچہ  خلوتِ صحیحہ  کو مہر کے واجب ہونے، نسب کے ثابت ہونے اور عدت کے لازم ہونے میں ہمبستری کے قائم مقام ٹھہراتے ہیں لیکن پہلے خاوند کے لیے عورت کے حلال ہونے کے حق میں ہمبستری کے قائم مقام نہیں ٹھہراتے۔
 
(5):        علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز بن احمد ابن عابدین شامی (ت1252ھ) لکھتے ہیں:
ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ اشْتِرَاطَ الدُّخُولِ ثَابِتٌ بِالْإِجْمَاعِ فَلَا يَكْفِي مُجَرَّدُ الْعَقْدِ .
(رد المحتار:  ج5 ص44 کتاب الطلاق، باب الرجعۃ)
ترجمہ:       جان لیجیے کہ (نکاح کے بعد) خاوند کا ہمبستری کرنا اجماع سے ثابت ہے۔ اس لیے صرف عقد نکاح کر لینا کافی نہیں۔
 
(6):        علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد الحصکفی  الحنفی(ت1088ھ) لکھتے ہیں:
( وَكُرِهَ ) التَّزَوُّجُ لِلثَّانِي ( تَحْرِيمًا ) لِحَدِيثِ لَعْنِ الْمُحَلِّلِ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ ( بِشَرْطِ التَّحْلِيلِ …  وَإِنْ حَلَّتْ لِلْأَوَّلِ ) لِصِحَّةِ النِّكَاحِ وَبُطْلَانِ الشَّرْطِ.
(الدر المختار: ج5 ص51 کتاب الطلاق، باب الرجعۃ)
ترجمہ: حلالہ کی شرط پر دوسرے خاوند کا نکاح کرنا مکروہِ تحریمی ہے کیو نکہ اس بارے میں حدیث منقول ہے کہ ”حلالہ کرنے اور حلالہ کروانے والے پر لعنت ہے“ اگرچہ اس طرح یہ عورت اپنے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی کیونکہ  یہ نکاح صحیح ہے اور (حلالہ والی) شرط باطل ہے۔
 
(7):        امام ابو الحسن علی بن ابی بكر بن عبد الجلیل المرغینانی (ت593ھ) لکھتے ہیں:
وَالنِّكَاحُ الْمُؤَقَّتُ بَاطِلٌ مِثْلُ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً بِشَهَادَةِ شَاهِدَيْنِ إِلٰى عَشْرَةِ أَيَّامٍ.
(الہدایۃ: ج2 ص333، 334 کتاب النکاح ، فصل فی بیان المحرمات)
ترجمہ:  نکاح موقت باطل ہوتا ہے۔ جیسے ایک شخص کسی عورت سے دو گواہوں کی موجودگی میں دس دنوں کی مدت کے لیے نکاح کرے۔
 
واللہ اعلم بالصواب
(کتبہ) محمد یوسف
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
31- جولائی 2022ء
 
(الجواب صحیح)
 محمد ریاض
دار الافتاء،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
31- جولائی 2022ء
 
(الجواب صحیح)
ابو محمد شبیر احمد حنفی
رئیس دار الافتاء،
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
31- جولائی 2022ء