QuestionsCategory: نکاح و طلاقتین طلاق کا حکم
اختر حسین asked 2 years ago

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میں نے اپنی زوجہ کو تقریباً 12 سال پہلے دورانِ جھگڑا پہلی طلاق اس کی بد زبانی کی وجہ سے دی تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد دوسری طلاق معلق اسے اس طرح دی کہ میں نے اسے حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کے لیے مقررہ اوقات میں اپنے پاس بلایا اور یہ کہا: ”اگر تو نہ آئی تو تجھے طلاق ہے۔“   بہرکیف یہ عورت میرے پاس مقررہ اوقات میں نہ آئی۔  اس ضمن میں صبح کی نماز کے بعد مفتی ارشاد صاحب سے طلاق کے وقوع کے بارے میں معلوم کرنے گیا تو مفتی ارشاد صاحب نے کہا کہ طلاق ہوگئی ہے۔کیونکہ مذکورہ دونوں طلاقیں رجعی تھیں اس لیے میں نے رجوع کر لیا۔ اب دو ماہ پہلے زوجہ کو تیسری طلاق اس کی بدکرداری کے عینی مشاہدے کے بعد دی ہے۔ توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ میری زوجہ پہلی اور تیسری طلاق کو مان رہی ہے جبکہ درمیانی -جو معلق تھی- اسے نہیں مان رہی۔ اس ضمن میں تیسری طلاق دینے سے پہلے اس سے دو طلاقوں کا تذکرہ ہوا تو اس نے شک و شبہ اور حیرانگی سے درمیانی -یعنی معلق طلاق- سے لاعلمی کا اظہار کیا البتہ تیسری طلاق سے پہلے وہ دو طلاقیں مانتی ہے کہ دورانِ جھگڑا دو طلاقیں ہوئی ہیں جبکہ دورانِ جھگڑا کی مجھے ایک طلاق یاد ہے۔ لہذا اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ آیا  دو طلاقیں ہوئی ہیں یا تین؟

سائل: اختر حسین، ڈیرہ غازی خان

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 2 years ago

جواب:
جب آپ کو اقرار ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، اس طرح کہ پہلی طلاق پہلے جھگڑے کے دوران، دوسری طلاق معلق اور تیسری طلاق عینی مشاہدے کے واقعہ کے بعد تو شرعاً آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور وہ آپ پر حرام ہو چکی ہے۔ تین طلاقوں کے بعد صلح کرنا اور اکٹھے رہنا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔   اب اس عورت پر عدت گزارنا لازم ہے۔ عدت گزار کر یہ عورت دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ ہاں اگر یہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، دوسرا خاوند وظیفہ زوجیت بھی ادا کرے، پھر از خود طلاق دے یا فوت ہو جائے اور اس کی عدت بھی گزر جائے تو پھر آپ سے اس عورت کا نکاح ہو سکتا ہے ورنہ نہیں!
 
نوٹ:       خاوند کو تین طلاق دینے کا اقرار ہے اس لئے بیوی کے بیان کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم بیوی کے بیان سے بھی پہلے جھگڑے کے دوران دو طلاقیں اور عینی مشاہدے کے واقعہ کے بعد ایک طلاق دینا ثابت ہو رہا ہے جو کل ملا کر تین طلاقیں ہی بنتی ہیں۔ اس لئے بیوی کا بیان بھی انجام کے اعتبار سے شوہر کے بیان کی طرح ہے جس کا حکم تین طلاقوں کے وقوع ہے۔
 
تین طلاق کے وقوع کے دلائل
 
[1]:        اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (سورۃ البقرہ :229)
ترجمہ: طلاق  دو با رہونی چاہیے۔ اس کے بعد شوہر یا تو قاعدے کے مطابق بیوی کو روک رکھے  یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔
امام محمد بن اسما عیل بخا ری رحمۃ اللہ علیہ تین طلا ق کے وقوع پر مذکورہ آیت سے استدلال کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں:
”بَابُ منْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ‘‘[وَفِیْ نُسْخَۃ :باب من جوز طلاق الثلاث ] لقولہ تعالیٰ : أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ .“
(صحیح البخاری: ج2 ص791)
ترجمہ: باب؛ جس نے تین طلاقیں دیں تو وہ واقع ہو جائیں گی اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصا ری القرطبی اس آ یت کی تفسیر میں فر ماتے ہیں:
قال علماؤنا واتفق ائمۃ الفتویٰ علیٰ لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمۃ واحدۃ. (الجامع لاحکام القر آن للقرطبی :ج1ص492)
ترجمہ: ہمارے علماء بھی یہی فرماتے ہیں اور فتویٰ دینے والے ائمہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ تین طلاقیں ایک کلمہ سے دی جائیں تو تین ہی واقع ہوتی ہیں۔
 
[2]:        عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ……قَالَ عُوَیْمَرُرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کَذَبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ (وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ دَاؤُدَ)قَالَ:فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ.
(صحیح البخاری ج2ص306 باب من اجاز طلاق الثلاث، سنن ابی داؤد ج 1ص324)
ترجمہ:      حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے(جب اپنی بیوی سے لعان کیا توحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں) کہا: یارسول اللہ! اگر اب بھی میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹا بہتان باندھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ) عویمرنے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان طلاقوں کو نافذ بھی کردیا۔
 
[3]:        عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ.
(صحیح البخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث، السنن الکبری للبیہقی ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات)
ترجمہ:      ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیاکہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شخص بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے۔‘‘
 
[4]:        عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ اِذَااُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص 11 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا)
ترجمہ:      حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں توحضرت عمر اس کو سزا دیتے اوران میاں بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔‘‘
 
[5]:        امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص  (متوفیٰ307ھ):
فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا.
(احکام القر آن للجصا ص :ج1 ص527ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً )
ترجمہ: قرآن مجید، سنت اور سلف کے اجماع سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں۔
 
[6]:        فقہاء کرام خصوصاً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں:
امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت [م150ھ]
(مؤطا امام محمد:ص263، سنن الطحاوی:ج2ص34، 35)
امام مالک بن انس المدنی [م 179ھ]
(التمہید لابن عبد البر :ج6ص58،المدونۃ الکبریٰ:ج2ص273)
  امام محمد بن ادریس الشا فعی [م 204ھ]
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939)
امام احمد بن حنبل [م241ھ]
(شرح مسلم:ج1 ص478)
جمہور علماء تابعین و غیرہ
(عمدۃ القاری: ج 14ص236 باب من اجاز  طلاق الثلاث)
 
واللہ اعلم بالصواب
(کتبہ) محمد یوسف
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
15، جنوری 2022ء
 
(الجواب صحیح)
ابو محمد شبیر احمد حنفی
رئیس دار الافتاء،
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
15، جنوری 2022ء