QuestionsCategory: نمازتشہد میں انگلی ہلانا خلاف سنت ہے
Muhammad Abdullah asked 3 years ago

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترمی و مکرمی جناب مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
ایک مسئلہ میں رہنمائی در کار ہے کہ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کی کیا صورت ہے اور اشارہ کے بعد انگلی کو ہلاتے رہنا کیسا ہے ؟

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 3 years ago

تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے اس کی صورت یہ ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ان رسول اللہ ﷺ کان اذا قعد فی التشہد وضع یدہ الیسری علی رکبتہ الیسری ووضع یدہ الیمنی علی رکبتہ الیمنی وعقد ثلاثۃ و خمسین و اشار بالسبابۃ

صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب صفۃ الجلوس فی الصلوۃ

ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے تھے اور دائیں ہاتھ سے (53) کے عدد کی شکل بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے
شارح مشکوۃ علامہ ملا علی قاری ؒ ( ت 1014) اس حدیث کے لفظ ”ثلاثۃ وخمسین“ پر لکھتے ہیں:

قولہ ثلاثۃ و خمسین وھو ان یعقد الخنصر والبنصر والوسطی ویرسل المسبحۃ ویضم الابہام الی اصل المسبحۃ قال الطیبی وللفقہاء فی کیفیۃ عقدھا وجوہ احدھا ماذکرنا والثانی ان یضم الابھام الی الوسطی المقبوضۃ کالقابض ثلاثا وعشرین فان ابن زبیر رواہ کذالک

مرقاۃ المفاتیح ج 3 ص 441 کتاب الصلوۃ باب التشہد

ترجمہ:
(ترپن کا عدد) وہ یوں ہے کہ چھنگلی اور منجھلی اور درمیان والی انگلی کو موڑ لے اور شہادت کی انگلی کو کھلا رہنے دے اور انگوٹھے کو انگشت شہادت کی جڑ سے ملا دے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ فقہاء نے  تشہد میں انگلی کا اشارہ کرنے کی مختلف صورتیں ذکر کی ہیں ایک وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے اور دوسری یہ ہے کہ انگوٹھے کو بند کی ہوئی درمیانی انگلی سے اس طرح ملا دیں جیسے تیئس (23 ) کا عقد ہو تا ہے ۔کیونکہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے ۔
ا نگلی کا اشارہ اشہد اللہ الہ الا اللہ کہتے وقت کرنا چاہیے
1۔          حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ  روایت نقل کرتے ہیں

ان النبی ﷺ یشیر باصبعہ اذا دعا ولا یحرکھا

سنن ابی داؤد ج1 ص 142 کتاب الصلوۃ باب الاشارۃ فی التشہد

سنن نسائی کتاب الصلوۃ ص 173

ترجمہ:
 حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اشہد ان لا  الہ الا اللہ کہتے وقت انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور انگلی کو ہلاتے نہیں رہتے تھے

2۔ عن ہشام بن عروۃ ان اباہ کان یشیر باصبعہ فی الدعاء ولا یحرکھا

ترجمہ:
 حضرت ہشام بن عروہ  رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت عروہ (تابعی) تشہد پڑھتے وقت اشارہ کرتے ہلاتے نہیں رہتے تھے ۔

مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 29695

شبہ :

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انگلی کو ہلاتے رہنا چاہیے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

قلت لانظرن الی صلوۃ رسول اللہ ﷺ کیف یصلی ؟ فنظرت الیہ فقام فکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم قعد وافترش رجلہ الیسری ووضع کفہ الیسری علی فخذہ ورکبتہ الیسری وجعل حد مرفقہ الایمن علی فخذہ الیمنی ثم قبض اثنتین من اصابعہ وحلق حلقۃ  ثم رفع اصبعہ فرایتہ یحرکھا یدعوبھا

صحیح ابن خزیمہ ج1 ص 386رقم الحدیث 714

ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ حضور ﷺ کی نماز کو غور سے دیکھوں کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ  نے کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا ( پھر نماز کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا) آپ بائیں پاؤں پر بیٹھے اور اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران کے گھٹنے پر رکھا اور داہنے ہاتھ کو داہنی ران پر رکھا اور دو انگلیوں کو ملا کر حلقہ بنایا اور اپنی شہادت کی انگلی کو اٹھایا حضرت وائل فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ آپ نے دعا ( اشہد ان لا الہ الا اللہ ) کہتے وقت انگلی ہلائی ۔

جواب:

”یحرکھا“ سے حرکت مراد لینا درست نہیں بلکہ یہاں پر اس سے رفع مراد ہے انگلی کو حرکت دیتے رہنا مراد نہیں۔
امام بیہقی دونوں طرح کی روایتوں میں تطبیق اس طرح فرماتے ہیں

فیحمل ان یکون المراد بالتحریک  الاشارۃ بھا لا تکریر تحریکھا فیکون موافقا لروایۃ ابن زبیر

السنن الکبری للبیہقی کتاب الصلوۃ ج 2 ص 132 باب من روی انہ اشار بھا ولم یحرکھا

راوی حدیث ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ (ت 311) فرماتے ہیں  

لیس فی شئی من الاخبار (یحرکھا) الا فی ھذاالخبر

ترجمہ:
راوی حدیث ابو بکر فرماتے ہیں کہ (یحرکھا) کا لفظ اس طریق کے علاوہ دوسرے طرق میں نہیں ہے
                 اکثر علماء  کے نزدیک بار بار انگلی ہلانا مفہوم حدیث کے خلاف ہے
چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں
1۔           مشہور فقیہ علامہ ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ الحنبلی (ت 620) لکھتے ہیں
ویشر بالسبابۃ یرفعھا عند ذکر اللہ تعالی فی تشہدہ لما رویناہ              ولا یحرکھا لما روی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ان النبیﷺ کان یشیر باصبعہ ولا یحرکھا                                                رواہ ابو داؤد

کتاب المغنی ج2 ص 87 باب صفۃ الصلوۃ رقم المسئلہ 173

ترجمہ:
اور تشہد میں اشہد ان لا  الہ الا اللہ کہتے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے جیسا کہ روایات گزر چکی ہیں اور بار بار ہلاتے نہ رہے اس لیے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ نبی کریم ﷺاپنی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے اور ہلاتے نہیں رہتے تھے
2۔            محی السنۃ امام یحی بن شرف نووی ؒ ( ت676) لکھتے ہیں

الصحیح الذی قطع بہ الجمہور انہ لا یحرکھا فلو حرکھا کان مکروھا  ولا تبطل صلوتہ لانہ عمل قلیل

المجموع ج4 ص 441

ترجمہ:
صحیح بات وہ ہے جس کو جمہور علماء نے اختیار کیا ہے کہ نماز میں انگلی کو نہ ہلائے اگر بار بار ہلائے گا تو مکروہ ہو گا اگرچہ نماز باطل نہیں ہو گی یہ اس لیے کہ عمل قلیل ہے
3۔           أبو الحسن علی بن سلطان محمد نور الدين الملا الهروی القاری( 1014) لکھتے ہیں

عن عبد اللہ ابن زبیر قال کان النبی ﷺ یشیر باصبعہ اذا دعا ای: اذا دعا اللہ بالتوحید ( ولا یحرکھا ) قال ابن الملک : یدل علی انہ لا یحرکھا الاصبع اذا رفعھا للاشارۃ ، وعلیہ ابو حنیفۃ

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ج 2 ص 735

ترجمہ:
 حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اشہد ان لا الہ الا اللہ کہتے وقت انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور ہلاتے نہیں رہتے تھے ابن ملک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انگلی اٹھاتے وقت حرکت نہ دے ، اور اسی پر امام ابو حنیفہ ؒ کا فتویٰ ہے
واللہ اعلم بالصواب