QuestionsCategory: نمازتراویح میں دیکھ کر قرآن پڑھنا
Muhammad Furqan asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ کیا آج کل کی صورت حال میں (جبکہ ہمارے ہاں مکمل لاک ڈاؤن ہے،) اگر کسی گھر میں صرف ایک ہی حافظ قرآن ہو تو تراویح کے دوران اس کا قرآن پاک کوئی مقتدی قرآن پاک پر دیکھ کر سن سکتا ہے؟

  سائل:مولوی محمد فرقان ۔ طائف ،سعودیہ

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (ت150ھ) کا موقف یہ ہے کہ نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرأت کی جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

وَلَوْ قَرَأَ الْمُصَلِّي مِنَ الْمُصْحَفِ فَصَلَاتُهُ فَاسِدَةٌ عِنْدَ أبي حَنِيْفَةَ رَحِمَہُ  اللهُ.

(بدائع الصنائع للکاسانی: جلد 1 صفحہ 236)

ترجمہ: اگر نماز پڑھنے والے نے قرآن دیکھ کر قرأت کی تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی نماز فاسد ہو  جائے گی۔
اس موقف پر دلائل یہ ہیں:
[1]:    عملِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِي أُصَلِّيْ․

(صحیح البخاری: کتاب الاذان باب الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة والإقامة)

ترجمہ: نماز اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں قرآن مجید اٹھا کر نماز نہیں پڑھی اور نہ ہی کہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت نہیں کہ کسی صحابی نے قرآن مجید دیکھ کر نماز میں قرأت کی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش رہ کر اس کی تائید فرمائی ہو۔ یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ نماز میں زبانی قرأت کرنا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر صحیح طور پر عمل پیرا ہونا  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جیسی نماز پڑھنا ہے۔
[2]:     عمل خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
                حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.

(سنن ابی داؤد:ج2 ص290  کتاب السنۃ. باب فی لزوم  السنۃ)

ترجمہ: تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس پر مضبوطی سےقائم رہنا اور دین میں نئی نئی باتیں( یعنی نئے عقیدے اور نئے عمل) پیدا کرنے سے بچتے رہنا۔  اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
                خلفائے راشدین ؛ حضرت  ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے بھی قولاً، عملاً یا تقریراً کسی طرح بھی یہ بات ثابت نہیں کہ انہوں نے نماز میں قرآن مجید دیکھ کر قرأت کی ہو یا اس کی اجازت دی ہو۔
[3]:     مستحب کی خاطر سنت مؤکدہ کا ترک کرنا
نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر باندھنا سنت مؤکدہ ہے۔

¨                                عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ .

 (صحیح البخاری ج 1ص 102باب وضع الیمنی علی الیسریٰ)

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں بازو پر رکھے۔

¨                                عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّا مَعْشَرُ الْاَنْبِیَائِ اُمِرْنَااَنْ نُؤَخِّرَسُحُوْرَنَا وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَاوَاَنْ نُمْسِکَ بِاَیْمَانِنَاعَلٰی شَمَائِلِنَا فِیْ صَلٰوتِنَا.

( صحیح ابن حبان ص 555.554ذکر الاخبار عما یستحب للمرء، رقم الحدیث 1770)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے  کہ ہم سحری تاخیر سے کریں، افطار جلدی کریں اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھوں سے اپنے بائیں ہاتھوں کو پکڑے رکھیں۔
اگر کوئی شخص نماز میں قرآن مجید کا نسخہ یا موبائل ہاتھ میں پکڑ کر نماز پڑھے تو ظاہر بات ہے کہ وہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر نہیں رکھ سکتا۔ نماز میں اتنی قرأت کافی ہوتی ہے جس سے وجوب ادا ہو سکے،  اس سے زائد قرأت مستحب  ہے جبکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنا سنت مؤکدہ ہے۔ تو مستحب کی خاطر سنتِ مؤکدہ کو کیسے ترک کیا جا سکتا ہے؟
[4]:     تشبہ باھل الکتاب
نماز میں قرآن مجید ہاتھ  میں پکڑ کر قرأت کرنا یہ تشبہ باہل الکتاب ہے کیونکہ اہل کتاب  خصوصاً یہود جب نماز پڑھتے ہیں تو اپنی کتاب ہاتھ میں لے کر اس سے دیکھ کر پڑھتے ہیں۔ اس کے لیے یہود کی عبادات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ امتِ محمدیہ کو اہل کتاب کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں حضرت  شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَالِفُوا الْيَهُوَدَ وَالنَّصَارٰى.                   (صحیح ابن حبان: رقم الحدیث 2186)

ترجمہ: یہود اور نصاریٰ کی مخالفت کرو!
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے:

يوسف عن ابيه قال وبلغني عن ابن عباس رضى الله عنهما انه قال في الرجل يؤم القوم وهو ينظر في المصحف انه يكره ذلك وقال كفعل اهل الكتاب.

(کتاب الآثار بروایۃ ابی یوسف: ص رقم الحدیث  171)

ترجمہ: امام یوسف اپنے والد امام ابو یوسف القاضی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: مجھے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے اس امام کے متعلق جو لوگوں کو  قرآن مجید دیکھ کر امامت کروائے، یہ بات فرمائی کہ یہ مکروہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس شخص کا یہ فعل اہل کتاب کے فعل کی طرح ہے۔

عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا اَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّؤُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ قَالَ: ہُوَ مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْکِتَابِ․

(تاریخ بغداد:ج7 ص208، ترجمۃ سعد بن محمد بن اسحاق، رقم الترجمۃ 4744)

ترجمہ: حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص رمضان کے مہینے میں قرآن میں دیکھ کر لوگوں کو نماز پڑھائے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ قرآن میں دیکھ کر نماز ادا کرنا یہ اہلِ کتاب کا عمل ہے۔
[5]:     غیر نمازی سے لقمہ لینا
اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور جو شخص نماز میں شامل نہیں وہ اس نمازی کو لقمہ دے اور یہ اس لقمہ کو لے کر قرأت کر لے تو اس نماز کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ چنانچہ علامہ محمد امین بن عمر ابن عابدین شامی الحنفی (ت1252ھ) اس صورت میں نماز کے فاسد ہونے پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا استدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أَنَّهُ تَلَقُّنٌ مِنْ الْمُصْحَفِ فَصَارَ كَمَا إذَا تَلَقَّنَ مِنْ غَيْرِهِ .

(رد المحتار: ج4 ص452)

ترجمہ:  (نماز اس لیے فاسد ہو جاتی ہے کہ)قرآن مجید سے دیکھ کر قرأت کرنا مصحف سے لقمہ لینے والی بات ہو گی  اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی غیر نمازی سے  لقمہ لیا جائے۔
[6]:     صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین  رحمہم اللہ اور اسلافِ امت کا عمل
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین  رحمہم اللہ اور دیگر اسلافِ امت  سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ وہ قرآن مجید سے دیکھ کر نماز پڑھنے کو منع فرماتے تھے اور اس کو ناپسند کرتے تھے۔
(1):         حضرت  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ت24ھ)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَهَانَا أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنْ  نَؤُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ.

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص711باب ہل یؤم القرآن  فی المصحف)

ترجمہ:  امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں قرآن پاک دیکھ کر لوگوں کی امامت کرنے سے منع فرمایا۔
(2):         حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما (ت37ھ)

عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا اَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّؤُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ قَالَ: ہُوَ مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْکِتَابِ․

(تاریخ بغداد:ج7 ص208، ترجمۃ سعد بن محمد بن اسحاق، رقم الترجمۃ 4744)

 

ترجمہ: حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص رمضان کے مہینے میں قرآن میں دیکھ کر لوگوں کو نماز پڑھائے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ قرآن میں دیکھ کر نماز ادا کرنا یہ اہلِ کتاب کا عمل ہے۔
(3):          حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  (ت68ھ):

يوسف عن ابيه قال وبلغني عن ابن عباس رضى الله عنهما انه قال في الرجل يؤم القوم وهو ينظر في المصحف انه يكره ذلك وقال كفعل اهل الكتاب.

(کتاب الآثار بروایۃ ابی یوسف: ص رقم الحدیث  171)

ترجمہ: امام یوسف اپنے والد امام ابو یوسف القاضی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: مجھے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے اس امام کے متعلق جو لوگوں کو  قرآن مجید دیکھ کر امامت کروائے، یہ بات فرمائی کہ یہ مکروہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس شخص کا یہ فعل اہل کتاب کے فعل کی طرح ہے۔
(4):         حضرت سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ

عَنْ سُوَيْدِ بْنِ حَنْظَلَةَ الْبَكْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ مَرَّ عَلٰى رَجُلٍ يَؤُمُّ قَوْمًا فِي مُصْحَفٍ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ.

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص715باب ہل یؤم القرآن  فی المصحف)

ترجمہ: حضرت سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کا گزر ایک آدمی پر ہوا جو لوگوں کو قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھا رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنا پاؤں مارا۔
                مطلب یہ ہے کہ اس امام کے اس فعل پر ناگواری کا اظہار فرمایا۔ نیز ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:

“وَنَحَّا الْمُصْحَفَ.”

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص715باب ہل یؤم القرآن  فی المصحف)

کہ آپ رضی اللہ عنہ  نے اس کا مصحف لے کر ایک طرف رکھ دیا۔
(5):         امام ابو عبد الرحمٰن عبد اللہ بن حبیب السلمی التابعی (ت بعد 70ھ)

عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيِّ  أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ.

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص715باب ہل یؤم القرآن  فی المصحف)

ترجمہ: امام ابو عبد الرحمٰن السلمی  کے بارے میں مروی ہے کہ آپ قرآن دیکھ کر امامت کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔
(6):         امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ (ت94ھ)

عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: “إِذَا كَانَ مَعَهُ مَا يَقُومُ بِهٖ لَيْلَهُ رَدَّدَهُ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ.”

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص711باب ہل یؤم القرآن  فی المصحف)

ترجمہ: امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ (ت94ھ) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر قیام اللیل (تہجد) میں پڑھنے کے لیے کچھ قرآن یاد ہے تو وہی بار بار پڑھے لیکن قرآن مجید کو دیکھ کر نہ پڑھے۔
(7):         فقیہ العراق امام ابراہیم بن یزید النخعی (ت96ھ) 

عَنْ إِبْرَاهِيْمَ: “أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَؤُمَّ  فِي الْمُصْحَفِ.”

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص713باب ہل یؤم القرآن  فی المصحف)

ترجمہ: امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ مصحف کو دیکھ کر امامت کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔
(8):         امام مجاہد بن جَبْر المکی التابعی رحمہ اللہ (ت103ھ)

عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ.

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص89 باب من کرہہ [ای الامامۃ بالقراءۃ فی المصحف])

ترجمہ:  امام مجاہد رحمہ اللہ  اس بات کو نا پسند فرماتے تھے کہ آدمی امام بنے اور قرآن دیکھ کر نماز پڑھائے۔
(9):         دار العلوم دیوبند کے ایک فتویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
”نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد صلاة ہے اس لیے کہ یہ تلقن من الخارج ہے جو کہ مفسد صلاة ہے جس طرح کسی خارجِ نماز شخص سے لقمہ لینا مفسد ہے شامی میں ہے: إنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ (الدر مع الرد: ۲۸/ ۳۸۴)“

(دار الافتاء ویب سائٹ: فتویٰ نمبر 925-845/D=9/1439)

(10):      دار الافتاء جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ یہ ہے:
”سوال:      کیا نفل نماز میں مصحف یا موبائل سے دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟
جواب: جی نہیں! اس طرح کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؛ اس لیے کہ اس میں نماز کے دوران خارج سے تعلم پایا جاتاہے، اور دورانِ نماز، خارج سے تعلم کی صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے۔“

(ویب سائٹ: فتویٰ نمبر: 144008200257)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا صحیح مفہوم:

جو لوگ نماز میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کے قائل ہیں تو ان کی بنیاد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ اثر ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
” وَكَانَتْ عَائِشَةُ يَؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ “  (صحیح البخاری، باب امامۃ العبد والمولیٰ، تعلیقاً)
کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے غلام ذکوان قرآن دیکھ کر نماز پڑھاتے تھے۔
اس اثر کا صحیح مفہوم یہ ہے:
[۱]:    ظاہری معنی مراد نہیں ہے  بلکہ اس روایت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ذکوان جب نماز پڑھاتے تھے تو اپنے ساتھ مصحف رکھ لیتے تھے ۔ قرأت میں اگر کہیں بھول ہو جاتی یا ان کو الفاظ کا شک پڑتا تو نماز کے بعد مصحف کھول کر دیکھ لیتے تھے۔ یہی معنی فقہاء نے  بیان فرمایا ہے:
1:            علامہ علاء الدین ابو بكر بن مسعود بن احمد الکاسانی الحنفی (ت587ھ)

کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف في غیر حالة الصلاة․

 (بدائع الصنائع: ج2 ص133، 134)

ترجمہ:      حضرت ذکوان والی حدیث  کا معنی یہ ہے کہ حضرت ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور نماز سے باہر قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے۔
                مطلب یہ کہ یہ الگ الگ حالتیں تھیں، راوی نے ان کو ایک کر کے بیان کر دیا ہے۔
2:            حافظ بدر الدین محمود بن احمد بن موسیٰ العینی الحنفی (ت855ھ)

أثر ذکوان إن صح فہو محمول علی أنہ کان یقرأ من المصحف قبل شروعہ في الصلاة أي ینظر فیہ ویتلقن منہ ثم یقوم فیصلي… فإنہ کان یفعل بین کل شفعین فیحفظ مقدار ما یقرأ من الرکعتین، فظن الراوی أنہ کان یقرأ من المصحف.

(البنایۃ شرح الہدایۃ:ج2 ص504)

ترجمہ: اس اثر کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس بات پرمحمول ہوگا کہ ذکوان نماز شروع کرنے سے پہلے قرآن دیکھتے تھے، پھر ذہن نشین کرکے نماز پڑھاتے تھے، ذکوان ہر دورکعت بعد یہ عمل کرتے اور اگلی دو رکعت میں جتنا پڑھنا ہوتا وہ یاد کرلیتے۔ اسی کو راوی نے اس طرح نقل کردیا کہ وہ قرآن دیکھ کر قراء ت کرتے تھے۔
[۲]:    ابو انس محمد بن فَتْحی  آل عبد العزیز اور  ابو عبد الرحمٰن محمد بن محمد الملّاح نے ایک کتاب لکھی ہے  ”فتح الرحمٰن فی بیان ھَجْر القرآن“ اس میں  ”حکم القراءۃ من المصحف فی صلاۃ التراویح“ کے عنوان کے تحت محمد ناصر الدین البانی صاحب  کا یہ جواب نقل کرتے ہیں:

لا نرى ذلك، وما ذُكر عن ذكوان حادثة عين، لا عموم لها، وبإباحة ذلك لأئمة المساجد يؤدي بهم إلى ترك تعاهد القرآن والعناية بحفظه غيباً، وهذا خلاف قوله – صلى الله عليه وسلم -: ” تعاهدوا القرآن فوالذي نفسي بيده لهو أشد تفصياً من الإبل في عقلها”. (فتح الرحمٰن فی بیان ھَجْر القرآن: ص124)

ترجمہ:  ہمارا موقف یہ ہے کہ تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔ باقی جو حضرت ذکوان کی امامت کا واقعہ ذکر کیا جاتاہے تو وہ ایک جزوی اور خصوصی واقعہ ہے،  عمومی نہیں ہے۔
[۳]:    نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے غلام والی روایت کا یہی معنی ہی لیا جائے کہ حضرت ذکوان قرآن دیکھ کر ہی نماز پڑھاتے تھے تو یہ  انفرادی عمل ہو گا جو جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں ہے اور ظاہر ہے کہ اس موقع پر سواد اعظم اور جمہور ہی کو ترجیح دی جائے گی جیسا کہ حدیث  مبارک میں ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا» وَقَالَ: «يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ.

(المستدرک علی الصحیحین: ج1 ص199)

ترجمہ: حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس امت کو گمراہی پہ جمع نہیں فرمائے گا۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے سواد اعظم کی اتباع کیا کرو!

فائدہ نمبر1:

ہاتھ میں اٹھا کر قرأت کرنے میں سابقہ ممانعت کے ساتھ ساتھ مصحف کو اٹھائے رکھنا، سجدہ کی جگہ پر نظر رکھنے کے بجائے مصحف میں دیکھتے رہنا اور صفحات کو پلٹتے رہنا ایسے امور ہیں جو عملِ کثیر شمار ہوتے ہیں، ان کی بناء پر بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ علامہ محمد امین بن عمر ابن عابدین شامی (ت1252ھ) اس صورت میں نماز کے فاسد ہونے پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا استدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أَنَّ حَمْلَ الْمُصْحَفِ وَالنَّظَرَ فِيهِ وَتَقْلِيبَ الْأَوْرَاقِ عَمَلٌ كَثِيرٌ .

(رد المحتار لابن عابدین: ج4 ص452)

ترجمہ: مصحف کو اٹھانا، اس میں دیکھتے رہنا اور صفحات کو پلٹتے رہنا یہ سب عمل کثیر ہے (جس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے)

فائدہ نمبر2:

یہ بات حفاظ کرام کے تجربہ سے ثابت ہے  کہ عام مہینوں میں فرض نمازوں کی امامت اور رمضان المبارک میں تراویح کی امامت ہی قرآن کریم یاد رکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اگر نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنے کا رواج شروع ہوگیا تو ڈر ہے کہ لوگ قرآن کریم یاد کرنے میں سستی کریں اور قرآن کہیں سینوں سے نکل ہی نہ جائے۔  حدیث مبارک میں ہے کہ  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الْإِبِلِ فِيْ عُقُلِہَا.

(صحیح البخاری: کتاب فضائل القرآن باب استذکار  القرآن و تعاہدہ)

ترجمہ: قرآن کریم کی حفاظت کیا کرو! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قرآن کریم سینوں سے نکل جانے میں اونٹ کے اپنے بندھن سے بھاگنے سے زیادہ تیز ہے۔
اس لیے نماز میں مصحف دیکھ کر تلاوت کرنے کے بجائے اسے زبانی پڑھنے کا اہتمام ہی اس کی حفاظت اور یاد کرنے کا عظیم ذریعہ ہے۔                                                       واللہ اعلم بالصواب