QuestionsCategory: نمازاوقات نماز
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

محترمی و مکرمی متکلم اسلام  مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ

دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں !

1۔      سجدہ کرنا منع ہے عصر کی نماز پڑھ کر یا پھر جب عصر کی نماز کا وقت شروع ہو جائے اور عصر کی نماز سے پہلے بھی  نہ ہی تو کوئی قضا نماز پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی نفل نماز؟

2۔      جب ہم تبلیغی جماعت میں نکلتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خواتین کو اول وقت نماز پڑھنی چاہیے اگر ہم لوگ گھر میں اول وقت نماز پڑھیں گی تو ہمیں اتنا اجر ملے گا  جتنا مردوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اجر ملتا ہے لیکن آپ کی کتاب  (نماز اہل السنۃ والجماعۃ)میں نماز کی ادائیگی کے مستحب اوقات مختلف ہیں؟

سائل : اہلیہ شہزاد منیر

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔ درج ذیل تین اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے:
(۱) سورج طلوع ہونے سے اشراق کا وقت شروع ہونے تک، یعنی تقریباً15، 20منٹ
(۲) زوال کا جووقت (نصف النہار عرفی) ہے اس سے احتیاطاً پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد تک۔
(۳) غروب شمس کے وقت، یعنی جب سورج ڈوبنا شروع ہوجائے تو مکمل ڈوبنے تک نماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔
عن عقبۃ بن عامر الجہنی رضی اللّٰہ عنہ قال ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلی فیہن أو أن نقبر فیہن موتانا حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس، وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب الأوقات التی نہی عن الصلاۃ فیہاج1 ص:276 ، حدیث نمبر:831)
ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تین اوقات میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روکا ہے کہ ہم اس میں نماز پڑھیں اور اپنے مردے کا نماز جنازہ پڑھیں : سورج طلوع ہونے سے بلند ہونے کے وقت تک، اور دوپہر کے وقت میں سورج ڈھلنے تک، اور غروب کے وقت جب تک کہ غروب نہ ہو جائے۔
الأوقات المکروہۃ أولہا: عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین والثانی عند استوائہا والثالث عند اصفرارہا۔
(مراقی الفلاح مع الطحطاوی ص:149،)
ترجمہ:
تین اوقات مکروہ ہیں طلوع آفتاب کے وقت سے اس کے بلند ہونے تک اور دوسرا زوال کے وقت اور تیسرا غروب کے وقت
ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ إذا طلعت الشمس حتی ترتفع و عند الإنتصاف إلی أن تزول وعند احمرارہا إلی أن تغیب۔
(الفتاویٰ الہندیۃ ج1، ص52، ہدایۃ ج1 ص 84)
ترجمہ:
تین اوقات میں فرض نماز ، نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت ادا کرنا جائز نہیں طلوع آفتاب کے وقت اس کے بلند ہونے تک اور زوال کے وقت اور غروب کے وقت
عصر کے بعد کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں البتہ یہ وقت فرض نمازوں کے لئے مکروہ نہیں جس طرح عصر کی وقتیہ فرض نماز اس وقت میں پڑھی جاسکتی ہےاسی طرح قضاء شدہ نمازیں بھی پڑھنے کی اجازت ہے البتہ جب سورج زرد پڑجائےتو وقتیہ نماز کے علاوہ کوئی نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا۔
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال سمعت غیر واحد من أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منہم عمر بن الخطاب وکان من أحبہم إلی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن الصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وعن الصلاۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس۔
وھو قول أکثر الفقہاء من أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن بعدہم أنہم کرھوا الصلوۃ بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس وأما الصلوات الفوائت فلابأس أن تقضی بعد العصر وبعد الصبح۔
(سنن الترمذی ج 1 ص 45)
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سارے صحابہ سے سنا جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ان کے ہاں یہ بات پسندیدہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا غروب آفتاب تک
عصر کی نماز سے پہلے سجدہ کرنا جائز ہے اور بعد میں بھی جب تک سورج کی روشنی زرد نہ پڑ جائے ، اصفرار شمس ( دھوپ زرد ) ہونے سے پہلے سجدۂ تلاوت مطلقاً درست ہے اور زردی ہو جانے کے بعد تفصیل یہ ہے کہ اس مکروہ وقت میں پڑھی گئی آیت سجدہ کا سجدہ کیا جا سکتا ہے( اگر چہ بہتر ہے کہ بعد میں کامل وقت میں کرے ) اور کامل وقت میں تلاوت کی گئی آیت کا سجدہ اس وقت نہیں کیا جا سکتا۔
واِذا وجبت السجدۃ فی الأوقات التی یجوز فیہا الصلاۃ فسجدہا فی الأوقات المکروہۃ لم یجز، واِن تلاہا فی ہذہ الأوقات وسجدہا جاز ۔
(الفتاویٰ التاتار خانیۃ ج2 ص 465 )
ترجمہ:
اور جب سجدہ تلاوت ایسے وقت میں واجب ہو جس وقت میں نماز پڑھنا جائز ہے تو اوقات مکروہ میں وہ سجدہ تلاوت ادا کرنا جائز نہیں اور اگر سجدہ تلاوت اوقات مکروہ میں واجب ہوا تو اس وقت ادا کرنا جائز ہے


مردوں کے لئے اچھا یہ ہے کہ وہ دیر سے (جس میں کافی اجالا ہو جائے ) فجر پڑھیں لیکن سورج نکلنے میں اتنا وقت باقی ہونا چاہئے جس میں کم از کم ۴۰ آیتیں پڑھ کر نماز پڑھ لی جائے اور پھر جب نماز فاسد ہو جائے تو لوٹائی بھی جا سکے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا سفروا بالفجر فانہ أعظم للأجر
(جامع ترمذی کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی الاسفار بالفجر ج 1 ص 289 حدیث نمبر:154)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ فجر کو خوب روشن کر کے پڑھو کیونکہ اس میں اجر بہت زیادہ ہے
اول وقت نماز کے لئے افضل وپسندیدہ ہے ایام گرما میں ظہر کی نماز وقت میں رہتے ہوئے قدرے دیر کر کے پڑھی جائے ایسا کرنا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے ہے اسی لئے ظہر میں ابراد کو مستحب قرار دیا گیا ہے
ابراد(ٹھنڈک) کے استحباب پر چند احادیث یہ ہیں
1۔ اِذا اشتد الحر فأبردوا بالصلوٰۃ فاِنّ شِدۃ الحَر من فیح جہنم،
( صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر ج1 ص 113 حدیث نمبر 536،
صحیح مسلم کتاب الصلوۃ کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استحباب الابراد بالظھر ۔۔۔ج1 ص 430 حدیث نمبر:180)
ترجمہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش اور حرارت سے ہے لہٰذا نماز کو ٹھنڈا کرو مراد تاخیر سے ادا کرو
2۔ أبردوا عن الحرّ فی الصلوۃ فان شدۃ الحر من فیح جہنم۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استحباب الابراد بالظھر ۔۔۔ج1 ص 431 حدیث نمبر:183)
ترجمہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش اور حرارت سے ہے لہٰذا نماز کو ٹھنڈا کرو مراد تاخیر سے ادا کرو
عصر کی نماز عصر ثانی ہی میں پڑھی جائے نہ کہ عصر اول میں۔
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمّنی جبریل علیہ السلام عند البیت مرتین فصلی بی الظہر حین زالت الشمس – إلی قولہ – فلما کان الغد صلی بی الظہر حین کان ظلہ مثلہ وصلی بی العصر حین کان ظلہ مثلیہ۔
(سنن أبی داؤدکتاب الصلاۃ باب فی المواقیتج1 ص 56 حدیث نمبر: ۳۹۳ دار الفکر)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل ؑ نے بیت اللہ کے پاس دو دن امامت کروائی مجھے ظہر کی نماز سورج کے ڈھل جانے کے بعد پڑھائی ۔۔۔ اگلے دن ظہر کی نماز پڑھائی جب ان کا سایہ ان کے قد کے برابر ہو گیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب ان کا سایہ دو مثل ہو گیا
مغرب کی نماز کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہو جاتا ہے
سرخ شفق کے بعد عشاء کا وقت آ جاتا وقت شروع ہو جانے پر اول وقت میں نماز پڑھ لینا اچھا ہے۔
وعن النعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما قال أنا أعلم الناس بمیقات ہذہ الصلاۃ عشاء الآخرۃ کان رسول اﷲ یصَلّیہَا لسقوط القمر لثالثۃوسقوط القمر غیبتہ وغیبۃ القمر فی اللیلۃ الثالثۃ یکون مع ذہاب الشفق۔
(سنن النسائیج1 ص 262)
مغرب کا وقت غروبِ آفتاب کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق باقی رہے۔ شفق ( سرخی ) کے غائب ہو جانے کے بعد ہی سے عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے شفق عام طو رپر سوا گھنٹہ تک رہتی ہے البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ غروب آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد عشاء پڑھیں۔
اس تفصیل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جو وقت مردوں کے لئے افضل ہے وہی عورتوں کے لئے بھی افضل ہے اس میں کسی قسم کی تقسیم اور تفریق نہیں ہے۔
جماعت میں جو بتائے جانے کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ مستند نہیں ہے کتاب (نماز اہل السنۃ والجماعۃ)میں جو روایات لکھی ہوئی ہیں وہ درست ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب