QuestionsCategory: نمازاذان مغرب اور نماز مغرب کے دوران وقفہ کرنا
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ مغرب کی جماعت اذان کے متصل فوراً کھڑی کرنی چاہیے یا اس میں کچھ وقفہ ہونا ضروری ہے اگر وقفہ کرنا ضروری ہے تو کتنا وقفہ کیا جائے۔

سائل:حافظ محمد اویس۔راوی روڈ، لاہور

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
شریعت مطہرہ کی تعلیمات کے مطابق میں اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ جس میں کھانے میں مشغول شخص کھانا اور وضو کرنے والا شخص وضو سے فارغ ہوکر جماعت میں شرکت کرسکے۔
“عن أبی بن کعب قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: یا بلال! اجعل بین أذانک و إقامتک نفسا یفرغ الآکل من طعامه فی مهل و یقضی المتوضئ حاجته فی مهل. “ (مسند أحمد، حدیث عن أبی بن کعب،ج5، ص143)
البتہ مغرب کی نماز میں ایسا وقفہ نہیں بلکہ تھوڑا وقفہ کے بعد نماز مغرب کو ادا کرنے کا حکم ہے ۔ بالکل اذان کے بعد نماز ادا کرنا یہ بھی فقہاء کے ہاں مکروہ ہے بلکہ وقفہ ضروری ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاعذر ستاروں کی کثرت تک نماز مغرب مؤخر کرنے کو اس امت کی خیر سے روگردانی کی علامت بتایا ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو أَيُّوبَ غَازِيًا وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ عَلَى الْفِطْرَةِ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ.
سنن ابوداؤد۔کتاب الصلاۃ،رقم الحدیث: 418
ترجمہ: حضرت مرثد بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ مصر کے حاکم تھے، تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے مغرب میں دیر کی، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: اےعقبہ! بھلا یہ کیا نماز ہے؟ عقبہ نے عرض کی : ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں ۔
اس لیے مغرب کی اذان اور نماز میں زیادہ وقفہ نہیں زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ اور بالکل وصل بھی مکروہ ہے ۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت کی بقدر کھڑے کھڑے وقفہ کیا جائے، صاحبین رحمہما اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ مغرب کی اذان کے بعد جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان معمولی جلسہ کی مقدار زمین پر بیٹھا جائے۔
ثم عند أبي حنيفة مقدار السكتة ما يقرأ ثلاث آيات قصار أو آية طويلة ۔۔۔وعندهما مقدار الجلسة ما جلس الخطيب بين الخطبتين من غير أن يطول، وتمكن مقعده على الأرض”.
المحيط البرهانی فی الفقہ النعمانی۔ج1ص346
ترجمہ: امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں وقفہ کی مقدار تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت کی بقدر ہو اورحضرات صاحبین [امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ ] کےہاں مغرب کی اذان کے بعد جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان معمولی جلسہ کی مقدار زمین پر بیٹھا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب