QuestionsCategory: زیب وزینتبالوں پر کلر کی شرعی حیثیت
Salik asked 5 years ago

ڈاڑھی پر یا سر کے بالوں پر مہندی کے علاوہ کوئی اور کلر مینٹ لگا سکتے ہیں یا نہیں؟

مسئلہ نمبر2 آئی برو کا کیا حکم ہے بینوں وتؤجرو

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب بعون الملک الوھاب
جز1۔    سر اور داڑھی کے بالوں کو خضاب لگانا مسنون عمل ہے ممانعت جو آئی ہے حدیث میں وہ بالکل سیاہ خضاب لگانے کی ہے اس کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب لگانا بالکل درست ہے، خضاب لگانا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی ترغیب فرمائی ہے فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: “عن جابربن عبداللہ قال :اتی بابی قحافة یوم فتح مکة وراسہ ولحیتہ کالثغامة بیاضا، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:غیرواھذا بشیء واجتنبواالسواد”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بالوں کو خضاب لگاؤ اور بالکل کالے [سیاہ] خضاب سے اجتناب کرو۔
وفیہ ایضا وعن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:ان الیھودوالنصاری لایخضبون فخالفوہم
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک یہود اور نصاری خضاب نہیں کرتے لہذا تم ان کی مخالفت کیا کرو۔
)صحیح مسلم شریف کتاب اللباس والزینة(
اتحاف الخیرۃ المھرۃ : کتاب النکاح ج4ص542 شاملہ
وقدثبت فی غیرحدیث ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یخضب بالحناء وفیہ ان الخضاب بالسواد یختلف حکمہ باختلاف الاغراض علی الشکل التالی :الخ
وفی تکملة فتح الملہم 4:148
خضاب کے مسئلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :
(1)سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علماءمجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے۔
(2) سرخ خضاب خالص مہندی کا ،کچھ سیاہی مائل جس میں کتم شامل ہو یہ مسنون ہے ۔
(3)خالص سیاہ خضاب میں درج ذیل تین صورتیں ہیں {الف } مجاہدوغازی بوقت جہاد لگائے تاکہ دشمن پررعب ظاہر ہو یہ باجماع ائمہ واتفاق مشائخ جائز ہے. {ب}کسی کودھوکہ دینے کیلئے سیاہ خضاب کریں ،جیسے مرد عورت کو یا عورت مرد کو دھوکہ دینےاور اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنے کیلئے سیاہ خضاب لگائے یاکوئی ملازم اپنے آقا کو دھوکہ دینے کیلئے اس طرح کرے ،یہ بالاتفاق ناجائز ہے {ج} صرف زینت کی غرض سے خالص سیاہ خضاب لگائے تاکہ اپنی بیوی کو خوش کرے ،اس میں اختلاف ہے جمہور ائمہ ومشائخ اس کو مکروہ فرماتے ہیں ،امام ابو یوسف اور دیگر بعض مشائخ جائز قرار دیتے ہیں احادیث میں ممانعت اور سخت وعید کے پیش نظر فتوی اسی پر ہے کہ یہ صورت مکروہ ہے ۔
(مزیدتفصیل کیلئے ملاحظہ ہو کتاب جواھرالفقہ 2:427)
و یستحب للرجل خضاب شعرہ ولحیتہ ۔ و یکرہ بالسواد ( درمختار) و فی الشامیۃ قولہ یکرہ بالسواد أی بغیر الحرب ۔ وإن لیزین نفسہ للنساء فمکروہ‘ وعلیہ عامۃ المشائخ
(کتاب الحظر والإباحۃ‘ باب فی البیع 6/422 ‘ ط سعید)
أما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلک من الغزاۃ لیکون أھیب فی عین العدو فھو محمود منہ اتفق علیہ المشائخ و من فعل ذلک لیزین نفسہ للنساء أو لیحبب نفسہ الیھن فذلک مکروہ و علیہ عامۃ المشائخ
(عالمگیری: 5/359)
 
باقی کم عمری میں اگر بال سفید ہو جائیں تو اس صورت میں کیا حکم ہے اس سلسلہ میں ہم آپ کو دارالعلوم کراچی کے فتوی کا ایک حصہ ساتھ ملاتے ہیں جس میں اس کے بارے میں کلام کیا گیا ہے اور یہ فتوی ان کی سائٹ پر موجود ہے
” لیکن جوانی  میں بال سفید ہونے کی صورت  میں سیاہ خضا ب  کے استعمال  سے متعلق  عبارات  فقہاء  میں کوئی صریح عبارت  مذکور نہیں۔ البتہ  بڑھاپے میں سیاہ خضاب  کی ممانعت  کی جو  علت  فقہاء کرام  نے ذکر فرمائی ہے وہ خداع اوردھوکہ ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی  خوش کرنے کے لیے  سیاہ خضاب لگائے  اس میں اگر چہ  قصد خداع کا نہیں لیکن  دیکھنے والے جوان سمجھیں  گے اس لیے  ایک طرح کا دھوکہ  یا کتمان  حقیقت  ہے ۔ اس لیے جمہور  فقہاء  کرام نے  مکروہ فرمایا ہے ۔لیکن جوانی  میں سیاہ خضاب  لگانے میں کسی قسم  کا  دھوکہ یا کتمان  حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک طرح  کا اظہار حقیقت  ہے کیونکہ سیاہ  بال اس کی طبعی عمر کا تقاضا ہے  اس لیے سیاہ خضاب  کا استعمال جائز معلوم ہوتا ہے  ۔
دوسرا یہ کہ جوانی میں بالوں کا سفید ہونا ایک عیب ہے  اورازالہ عیب شرعاً جائز ہے ۔ جس طرح  جنگ  کلاب میں حضرت  عرفجۃ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک  کٹ گئی تھی  انھوں نے  چاندی کی ناک لگائی  جب اس میں بدبو پیدا ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ناک بنوانے کی اجازت مرحمت  فرمائی  اس پر قیاس کرتے ہوئے بھی جوانی میں سیاہ خضاب  کا استعمال درست معلوم ہوتا  ہے ۔
اور جوانی کا معیار  یہ ہے کہ جس میں عام طور سے بال سفید نہیں ہوتے”
دارالافتاء دارالعلوم کراچی
2- عورت اگرزینت کیلئے اور شوہر کوخوش کرنے کیلئے خالص سیاہ خضاب لگائے تواس کی گنجائش ہے۔
 فی تکملة فتح الملہم: اما خضاب المراة شعرھا لتتزین لزوجھافقداجازہ قتادہ….وکذالک اجازہ اسحاق فیما حکی عنہ ابن …
جز2۔    ابرو (بھنوٴں) کے بال جو فطری ہوتے ہیں اگر کسی عورت کے بال ان بالوں سے بہت زیادہ بڑھ گئے کہ بہت بھدی شکل ہوگئی تو بڑے ہوئے بالوں کو کاٹ کر فطری طور پر جتنے بال ہوتے ہیں اس مقدار میں کرلیے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں لیکن آج کل فیشنی انداز کی جو کٹنگ رائج ہوئی ہیں جو عامةً فیشن پرست عورتیں کراتی ہیں ایسے انداز پر کٹنگ کرنا کرانا گناہ اور موجب لعنت ہےاگر عورت کی بھنووں کے زائد بد نما بال ہوں تو ان کے دور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں خصوصاً شوہر کے لیے زینت کی غرض سے کوئی خاتون اگر اس طرح کرتی ہےتو اور بھی مستحسن ہے لیکن فاحشہ قسم کی عورتوں اور ہیجڑوں کی طرح ہیئت اختیار کرنے سے گریز کرے۔ ولا بأس باخذ الحاجبین و شعر وجھہ مالم یشبہ المحنث ،اھ،ومثلہ فی المجتبی۔ عورتوں کابھنوؤں اور چہرے کے بالوں کو لینے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ ہجڑوں سے مشابہت نہ ہو۔
فتاوی الشامی: ج9 ص615،کتاب الحظر،فصل فی النظر
لیکن آج کل جو فیشن عام ہو رہا ہے کہ عورتیں اپنی بھوؤں کو تلوار کی طرح ڈیزائن دے کر بناتی ہیں اس طرح محض زیب و زینت کے لیے بنانا جائز نہیں۔حدیث میں آتا ہے۔ عن علقمة عن عبد الله قال * لعن الله الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله۔
صحيح مسلم :ص949،رقم2125:دارالسلام
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ تعالی نے گودنے والی اور گدوانے والی اور (خوبصورتی کی خاطر) پلکوں کے بالوں کو اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی اور دانتوں کو ( خوبصورتی کی خاطر) کشادہ کرنے والی اور اللہ کی (دی گئی )بناوٹ میں تبدیلی کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا ،پاکستان
02 مارچ 2019ء مطابق 24 جمادی الثانی 1440ھ