QuestionsCategory: خواتینبیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا
قاسمہ فائز asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
عرض یہ ہے کہ عورت شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کے نام کی بجائے اپنے شوہر کا نام اپنا سکتی ہے ؟

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بیوی کا اپنےنام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تعارف کے لیے ہوتا ہے، جس میں وہم یا اختلاط نسب نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ تعارف کا باب بہت وسیع ہے، تعارف کبھی ولاء سے ہوتا ہے جیسے عکرمہ مولی ابن عباس، کبھی حرفت سے ہوتا ہے جیسے غزالی، ذھبی، کبھی لقب اور کنیت سے ہوتا ہے جیسے أعرج اور ابو محمد أعمش، کبھی ماں کی طرف نسبت کر کے ہوتا ہے حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے جیسےمحمد بن حنفیہ، اسماعیل ابن علیۃ، اور کبھی زوجیت کے ساتھ ہوتا ہے۔
جیسا کہ قرآ ن مجید میں آیا ہے:
’’ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ‘‘ ( التحریم:۱۰)
’’وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ‘‘ ( التحریم:۱۱)
ایسا کئی بار ہوا ہے کہ عورت اپنے شوہر کا نام تعارف کے لیے اپنے نام کے ساتھ  لگائے یا کوئی اور اس کا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے، امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ”زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم“ کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتا ہے۔
کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں، مثلاً:
حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّمَ
(اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری: حدیث نمبر712)
عن عبد الله قال قالت أم حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم
(الجمع بین الصحیحین لمحمد بن فتوح الحمیدی: حدیث نمبر334)
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّمَ أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّمَ
(السنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث نمبر140)
اس طرح کئی مثالیں جمع کی جا سکتی ہیں۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے ،سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
جَاءَتْ زَيْنَبُ، امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: «أَيُّ الزَّيَانِبِ؟» فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «نَعَمْ، ائْذَنُوا لَهَا»
(صحیح البخاری : حدیث نمبر 1462)
ترجمہ:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب آئیں اور اجازت طلب کی ،کہا گیا :یا رسول اللہ ! یہ زینب آئی ہیں،آپ نے پوچھا: کونسی زینب؟ کیا گیا :ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی،فرمایا: ہاں اسے آنے کی اجازت دے دو۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ شادی کے بعدعورت کے لیے شوہر کانام لکھنا چونکہ تعارف کیلئے ہوتا ہے اس لیےیہ نام لکھنے کی کوئی حرج نہیں ہے۔
تنبیہ:
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے، چنانچہ چند تحریروں میں سے ایک تحریر برہان نامی ایک صاحب کی ہے جنہوں نے ایک سوال کے جواب میں اس کو ناجائز قرار دیا۔ موصوف سے ایک عورت نے پوچھا کہ وہ ہونے والے خاوند کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا چاہتی ہے تو کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟ موصوف نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں اور اس پر کچھ ”دلائل“ بھی موصوف نے فراہم کیے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان برہان صاحب اور ان جیسے دیگر حضرات کے پیش کردہ دلائل کو ذکر کر کے ان کا صحیح معنی و مفہوم بیان کریں۔
دلیل نمبر1:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَO ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْO [الأحزاب : 4 ، 5]
ترجمہ:
اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا، یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو ، اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو، اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے۔تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔
دلیل نمبر2:
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے(اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو)یہ کفر ہے۔“
دلیل نمبر3:
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام»
صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ:
جس شخص نے اپنے آپ کو( حقیقی والد کے علاوہ)کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔
مذکورہ دلائل کے جواب:
ان دلائل کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ممانعت ایسے شخص کے بارے میں ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے مثال کے طور پر کوئی شخص کسی بچے (اس بچےکے والد کا علم ہو یا نہ ہو) کو لے پالک بنا کراس کی پرورش کرتا ہے توپرورش کرنے والے کیلئے جائز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اس لے پالک بچے کا باپ ظاہر کرے، کیونکہ قرآن ِ کریم میں اللہ تعالی ٰ نے لے پالک کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اُس کو اُس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے ،پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں نہیں ہوتا ، لہذا اُس کو والد کےطور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھنا جائز نہیں ، گناہ ہے ، اور حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے جو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے۔لہذا ہر موقع پر بچہ کی ولدیت میں اصل والد ہی کا نام لکھا جائےگا۔
واللہ اعلم بالصواب