QuestionsCategory: جدید مسائلبچے کے بال اتارنے کے بعد اس کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنا
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ آج سے دو چار دن پہلے ایک غیر مقلد نے فیس بک پریہ پوسٹ کی کہ بچے کے بال اتارے جانے کے بعد ان کے ہم وزن چاندی کا جو صدقہ دیا جاتا ہے یہ جائزنہیں ہے.

اور پھر (مصنف ابن ابی شیبہ 235/8 )۔(مسند الامام احمد391,390 )اور (العیال لابن ابی الدنیا 53) والی روایت کا اردو ترجمہ  کرکے ا س کی سند کو ضعیف کہا اس کی وجہ یہ لکھی کہ راوی عبد ﷲ بن محمد بن عقیل  جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے

اب مسئلہ یہ ہے کہ بچے کے بال اتارنے کے بعد  جو ہم چاندی یا سونے کے ہم  وزن صدقہ دیتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے اور کیا  ذکر کردہ روایت ضعیف ہے؟

سائل:محمد آصف

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بچے کے بال اتارے جانے کے بعد ان کے ہم وزن چاندی کا جو صدقہ دیاجاتا ہے فقہاء کرام نے اس کو مستحب قرار دیا ہے اور یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا فَاطِمَةُ،‏‏‏‏ احْلِقِي رَأْسَهُ،‏‏‏‏ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَوَزَنَتْهُ،‏‏‏‏ فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ ،‏‏‏‏
جامع ترمذی ۔کتاب الاضحیہ ،باب العقیقۃ بشاۃ، حدیث نمبر: 1519
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن کی طرف سے ایک بکری[جنس بکری مراد ہے] عقیقہ کیا، اور فرمایا :اے فاطمہ ! اس کا سر مونڈ دو اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا
مصنف ابن ا بی شیبہ،مسند امام احمد ،العیال لابن ا بی الدنیا والی روایات میں مذکورہ راوی موجود نہیں البتہ سنن ترمذی کی روایت کی کئی ایک محدثین نے تصحیح کی ہے
سنن ترمذی :حسن غریب
المستدرک للصحیحین:صحیح الاسناد ،رقم الحدیث :7589
جامع الاحادیث:حسن
تنبیہ : یہ فتوی فقہ حنفی کے مطابق دیا گیا ہے مالکیہ ،حنابلہ، شوافع اپنی اپنی فقہ کے مطابق عمل فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب