QuestionsCategory: جدید مسائلاولیاء کرام قبر کی مٹی کو بطور ِ شفا استعمال کرنا
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

محترمی و مکرمی متکلم اسلام  مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ

1:         ہمارے بعض اکابرکےواقعات میں لکھا ہےکہ انکی قبرکی مٹی کولوگوں نے بطور شفاء استعمال کیا اور پھروہ لوگ شفا یاب بھی ہوئے

2:       ملفوظات فقیہ الامت میں   حضرت مفتی محمود الحسن نوراللہ مرقدہ نے جائز لکھا ہےکیااس کی دلیل مل سکتی ہے؟

سائل:عبدالسلام ولی

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1: اولیاء کی قبور سے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ احادیث کی رو سے انبیاء و اولیا ء کی قبور جنت کا باغ ہیں اور جنت اللہ تعالی کے انعامات و تجلیات کا مقام ہے ۔تو صالحین کی قبور پر اللہ تعالی کی رحمتوں کا خاص نزول ہوتا ہے ۔لہذا زیارت کرنے والا وہ شخص بھی ان رحمتوں سے محروم نہیں رہتا اگرچہ اس کو محسوس ہو یا نہ ہو۔ جس طرح عطار خوشبو والے کی دکان کے محض پاس سے گزرنے سے بھی آدمی خوشبو کو محسوس کرتا ہے۔ بس یہ ہے اصل حقیقت فیض کی ۔
احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے
چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب قائم کیا ہے:
”بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا
اس باب کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْكَ قَالَ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ.
(صحیح البخاری: ج1 ص633)
ترجمہ:
حضرت عمرو بن میمون اَودی سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے (بوقتِ وصال اپنے صاحبزادے سے) فرمایا : اے عبداﷲ بن عمر! ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ مجھے میرے دونوں رفقاء کے ساتھ (روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست پیش کی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : وہ جگہ میں اپنے لیے رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں انہیں (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو) اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما واپس لوٹے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا : کیا خبر لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : اے امیر المومنین! ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے لیے اجازت دے دی ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس (متبرک و مقدس) مقام سے زیادہ میرے لیے (بطور آخری آرام گاہ) کوئی جگہ اہم نہیں تھی۔ تو جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں سلام عرض کرنا۔ پھر ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ مجھے اجازت دے دیں تو وہاں دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جا کر دفن کر دینا۔‘‘
صحیح البخاری کی اس روایت کی شرح میں حافظ الدنیا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله (متوفیٰ 852) لکھتے ہیں:
وَفِيهِ الْحِرْصُ عَلَى مُجَاوَرَةِ الصَّالِحِينَ فِي الْقُبُورِ طَمَعًا فِي إِصَابَةِ الرَّحْمَةِ إِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ.
(فتح الباری: ج3 ص258)
ترجمہ:
اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہےکہ انسان کو صالحین کی قبور کے پڑوس میں اپنی قبربنانے كا خواہشمند ہونا چاہیے اور اس کا شوق رکھنا چاہیے اس امید ونیت کے ساتھ کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس بندے کوبهی پہنچے گی۔
شارح بخاری محقق امام محدث و فقیہ علامہ ابو محمد محمود بن احمد بن موسى بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ855ھ) لکھتے ہیں:
ذكر مَا يُسْتَفَاد مِنْهُ: فِيهِ: الْحِرْص على مجاورة الصَّالِحين فِي الْقُبُور طَمَعا فِي إِصَابَة الرَّحْمَة إِذا نزلت عَلَيْهِم.
(عمدۃ القاری: ج 8ص230)
ترجمہ:
اس حدیث سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو صالحین کی قبور کے پڑوس میں اپنی قبربنانے كا خواہشمند ہونا چاہیے اور اس کا شوق رکھنا چاہیے اس امید ونیت کے ساتھ کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس بندے کوبهی پہنچے ”
عن علی بن میمون قال : سمعت الشافعی یقول :انی لاتبرک بابی حنیفۃ واجی الی قبرہ فی کل یوم ۔یعنی زائراً ۔فاذا عرضت لی حاجۃ صلیت رکعتین و جئت الی قبرہ و سالت اللہ تعالیٰ الحاجۃ عندہ ،فماتبعد عنی حتی تقضی
تاریخ بغداد ج 1 ص 101
ترجمہ:
علی بن میمون رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں میں نے امام شافعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ” میں { امام شافعی } امام ابو حنیفہ کی قبر سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ہر دن ان کی قبر کی زیارت کے لئے جاتا ہو ں جب بھی مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے میں دو رکعت پڑھ کر ان کی قبر کے پاس جاتا ہوں اور اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں چنانچہ تھوڑی دور بھی نہیں جاتا ہوں کہ میری ضرورت پوری ہو جاتی ہے ”
علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں ۔
ولا زال السلف و الخلف یتبرکون باثار الصلحا ء و مشاھدھم و مقاماتھم و اٰبارھم و عیونھم
ھدایۃ المہدی ص 32
ترجمہ:
سلف و خلف سب صالحین کے آثار ان کی قبروں ان کے مقامات اور ان کے کنووں اور چشموں سے تبرک حاصل کرتے ہیں ۔
2: ملفوظات فقیہ الامت میں حضرت مفتی محمود الحسن نوراللہ مرقدہ نےجواز پر دلیل اس حدیث کو پیش کیا ہے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لِلإِنْسَانِ إِذَا اشْتَكَى يَقُولُ بِرِيقِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ بِهِ فِي التُّرَابِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا.
صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث: 5745 ۔ سنن ابن ماجہ کتاب الطب،رقم الحدیث 3521 ۔سنن ابی داود ۔کتاب الطب ،رقم الحدیث :3895
ترجمہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی اپنی بیماری کی شکایت کرتا تو آپ اپنا لعاب مبارک لیتے پھر اسے مٹی میں لگا کر فرماتے : تربة أرضنا بريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا یہ ہماری زمین کی خاک ہے ہم میں سے بعض کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا بیمار ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے ۔
واللہ اعلم بالصواب