QuestionsCategory: جدید مسائلانسانی اعضاء کی پیوندکاری
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری   اور اسی طرح مرنے کے بعد اعضاء کو عطیہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟

سائل : عبد المنان اشرفی

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
انسانی اعضاء کی پیوند کاری مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر جائز نہیں ہے:
1: اس میں انسانی جسم کو چیرا جاتا ہے جو مثلہ[کسی کی انکھ یا ناک کان وغیرہ کاٹ کر صورت بگاڑنا] کے مشابہ ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
“عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: «اخْرُجُوا بِسْمِ اللَّهِ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، ۔۔۔وَلا تُمَثِّلُوا، وَلا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ،۔۔۔۔الحدیث ”
مسند احمد،ج3 ص 218
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی لشکر کو بھیجتے تو فرماتے اللہ تعالی کا نام لیکر نکلو اور اور اللہ کے منکر سے قتال کرو ۔۔۔ اور نہ کسی کا مثلہ کر و اور نہ ہی بچوں کا قتل کرو
2: کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے دو شرطیں ہیں ۔
1 وہ شےمال ہو ، 2 دینے والے کی ملک ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔
“وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ ۔۔۔وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ … ومِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَالْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَالْخِنْزِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ،
بَدَائع الصنائع ۔کتاب الھبہ
ترجمہ:
ہبہ کرنے والا جو چیز ہبہ کر رہا ہے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہبہ کرنے والا اہل ہو اور اہل ہونے کا مطلب کہ وہ آزاد ہو عاقل ہو بالغ ہو اور ہبہ کی ہوئی چیز کا مالک بھی ہو۔۔۔اور جس کو ہبہ کیا جا رہا ہے وہ ہبہ کے وقت موجو دہو ۔۔۔اور ہبہ والی چیز مال متقوم ہو لہذا جو مال نہ ہو اس کا ہبہ کرنا جائز نہیں جیسے آزاد اور مردہ آدمی اور خون اور حرم کا شکار اور خنزیر وغیرہ کا ہبہ کرنا جائز نہیں
“(وَشَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) …(وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)”
فتاوی شامی ۔ کتاب الوصایا
ترجمہ:
وصیت کی شرائط میں سے یہ ہے کہ وصیت کرنے والا مالک بنانے کا اہل ہو ۔۔اور وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد وصیت شدہ چیز مال بننے کی صلاحیت رکھتا ہو
انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اشیاء پر انسان کو ملک کا حق حاصل نہ ہو انسان وہ اشیاء کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔
3: انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے الگ کرکے دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:
“وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ.
شرح السیر الکبیرج1ص89
ترجمہ:
انسان مرنے کے بعد بھی ایسے قابلِ احترام ہے جیسے زندگی میں قابل ِ احترام تھا ۔جیسے زندہ انسان کے اعضاء میں سے کسی عضو کو بطور علاج کے استعمال کرنا حرام ہے ایسے ہی مردہ انسان کے اعضاء میں سے کسی عضو کو بطور علاج کے استعمال کرنا حرام ہے۔
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی اعضاء کا استعمال کسی حال میں جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب