QuestionsCategory: جدید مسائلآپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کی صورت اور ابوطالب کا اسلام
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ

1:      کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب کے بیٹے حضرت ابو  طالب نے اسلام قبول کیا؟

2:      کیا آپ کے چچا ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نکاح سنت ابراہیمی کے مطابق پڑھایا تھا؟

3:      آپ کے چچا کا اور ابو لہب جو حضرت ابو طالب کے دوسری ماں سے بھائی تھےان کا مذہب کیا تھا؟

 اس معاملے میں میری رہنمائی فرما دیں۔

سائلہ:زوجہ بلال۔کالج روڈ راولپنڈی

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
دلیل نمبر 1:
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
سورت توبہ 113
ترجمہ:
جب نبی او ر اہل ایمان کو کسی کے بارے معلوم ہوجائے کہ وہ جہنمی ہے تو پھر ایسے مشرکین کے لئے استغفارکرنا جائز نہیں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں
اس آیت کریمہ کے متعلق سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَالَا يُكَلِّمَانِهِ حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ { مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ } وَنَزَلَتْ { إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ }
صحیح بخاری۔ بَاب قِصَّةِ أَبِي طَالِبٍ
ترجمہ:
جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اور اس وقت ان کے پاس ابوجہل بھی بیٹھاتھا آپ علیہ السلام نےفرمایا : اے چچا کلمہ پڑھ لو اس کلمے کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منحرف ہو جائیں گے ؟ وہ یہ بات مسلسل کہتے رہے حتیٰ کہ ابوطالب نے اپنی آخری بات یوں کی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جب تک روکا نہ گیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾
دلیل نمبر2:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
سورت القصص 56
ترجمہ:
اے نبی ! آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کو اچھی طرح جانتاہے۔
یہ آیت کریمہ بالاتفاق ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ مشہور محدث امام نووی رحمہ اللہ 676ھ اور مشہور مفسر أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي رحمہ اللہ 710ھ فرماتے ہیں
فقد أَجمع المفسرون علي انھا نزلت في ابي طالب
شرح صحیح مسلم للنووی۔ باب الدليل على صحة اسلام من حضره الموت۔تفسیرمدارک تحت ھذہ الآیۃ
ترجمہ:
مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں
لم تختلف النقلة في أنها نزلت في أبي طالب
فتح الباری۔باب إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء
بیان کرنے والے اس بات میں اختلاف نہیں کرتے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی
چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کے شان نزول کے متعلق فرماتے ہیں
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
صحیح مسلم باب الدليل على صحة إسلام من حضره الموت ما لم يشرع في النزع وهو الغرغرة،سنن ترمذی کتاب التفسیر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا کلمہ پڑھ لو میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا انہوں نے جواب دیا : اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے کلمہ پڑھنے پہ آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی :
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمه عند الموت قل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة فأبى فأنزل الله إنك لا تهدي من أحببت
صحیح مسلم ۔باب الدليل على صحة إسلام من حضره الموت ما لم يشرع في النزع وهو الغرغرة
دلیل نمبر3:
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ قَالَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ
صحیح بخاری ۔بَاب قِصَّةِ أَبِي طَالِبٍ
ترجمہ:
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام سے سوال کیا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کا ساتھ دینے ،آپ کا دفاع کرنے کی وجہ سے آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! وہ اب با لائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے۔
دلیل نمبر4:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ فَقَالَ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ
صحیح بخاری بَاب قِصَّةِ أَبِي طَالِبٍ
ترجمہ:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابوطالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا۔
دلیل نمبر5:
عن بن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
صحیح مسلم باب أهون أهل النار عذابا
ترجمہ:
جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا۔
اس طرح کی روایات کے بارے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں
فهذا شأن من مات على الكفر فلو كان مات على التوحيد لنجا من النار أصلا والأحاديث الصحيحة والأخبار المتكاثرة طافحة بذلك
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ رقم 10169
ترجمہ:
یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو اگر ابوطالب کی وفات ایمان کی حالت میں ہوتی تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔اور بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں-
ان نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کی وفات حالت ایمان میں نہیں ہوئی ۔
2: شریعت ابراہیمی کے مطابق نہیں تھا بلکہ خطبہ پڑھا گیا اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و کمالات بیان کیا گیا ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اَسد کے مشورہ سے500 درہم مہر مقرر ہوا۔ بوقت نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچالیس برس تھی۔آپ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلان نبوت سےتقریبًا 15 سال پہلے ہوا۔
3: اللہ تعالیٰ نے ابولہب کانام لے کر سورة مبارکہ میں اس کی اور اس کی بیوی کی مَذمت فرمائی۔اور سورة مبارکہ میں بالواسطہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب اور اس کی بیوی کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے
تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ ۔ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ وَمَاکَسَبَ ۔ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ ۔ وَّامْرَاَتُہ ط حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ۔ فِیْ جِیْدِھَا حَبْل مِّنْ مَّسَدٍ
” ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ نامراد ہوگیا ۔اُس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور(اُس کے ساتھ)اُس کی بیوی بھی لگائی بجھائی کرنے والی ،اُ س کی گردن میں مونجھ کی رسّی ہوگی
اس سورة مبارکہ میں بالواسطہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب اور اس کی بیوی کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کی موت ذلت آمیز ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حالانکہ یہ سورة مبارکہ ابولہب کی موت سے تقریباً10 سال پہلے نازل ہوئی تھی، اگر وہ اسلام قبول کرلیتا تو نعوذباللہ قرآن غلط ثابت ہو سکتا تھامگر ایسانہیں ہوا ۔
واللہ اعلم بالصواب