QuestionsCategory: فقہ و اجتہادتعزیر کا حد سے سخت ہونے پر اعتراض
محمد ریحان asked 3 years ago

السلام علیكم ورحمۃ الله وبركاتہ
محترمی و مکرمی متکلم اسلام  مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
عرض یہ ہے کہ آپ نے ایک بیان میں فرمایا کہ بعض دفعہ تعزیر ،حد سے بھی زیادہ سخت ہو سکتی ہے ۔قاضی اگر چاہے تو پہاڑ پر سے گرا  دے یا نیچے کھڑا کر کے دیوار گرا دے ۔سخت سے سخت سزا تعزیراً د دی جا سکتی ہے
اس پر ایک صاحب نے اعتراض کیا  ہے کہ حدیث اور امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے اصول کے مطابق صرف تین جرائم میں قتل کیا جا سکتا ہے  اس کے علاوہ میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ زِنًا بَعْدَ إحْصَانٍ وَكُفْرٌ بَعْدَ إيمَانٍ وَقَتْلُ نفس بغير نَفْسٍ”، فَحَصَرَ قَتْلَ الْمُسْلِمِ إلَّا بِإِحْدَى هَذِهِ الثَّلَاثِ
احكام القرآن للجصاص۔ وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ،في الَّذِي يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوط، ج3، ص342
اس لیے قاضی کی تعزیر والی سزا حد سے کم ہونی چاہیے ۔
سائل: محمد ریحان آکوجی

1 Answers
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff answered 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
دونوں باتوں میں فرق ہے ۔ حدیث میں جن تین افراد کو قتل کرنے کا حکم ہے ان کا عمل ایسے ہے کہ ان کوزندہ رہنے کا حق نہیں ۔
احادیث میں بعض ایسے واقعات ملتے ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قتل کا حکم دیا حالانکہ وہ ان تین افراد کے علاوہ تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ عِكْرِمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ،‏‏‏‏ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ،‏‏‏‏ وَالْمَفْعُولَ بِهِ
جامع ترمذی ۔رقم الحدیث : 1456
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول (بدفعلی کرنے اور کرانے والے) دونوں کو قتل کر دو ۔
حدیث مذکور میں فاعل اور مفعول دونوں کا تعلق ان تین افراد میں نہیں ہے لیکن ان کے قتل کا حکم دیا گیا ہے ،معلوم ہوا کہ یہ سزا تعزیراً ہے ۔
وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مَرَّ بِي خَالِي أَبُو بردة بن دِينَار وَمَعَهُ لِوَاءٌ فَقُلْتُ: أَيْنَ تَذْهَبُ؟ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ آتِيهِ بِرَأْسِهِ.
جامع ترمذی ۔رقم الحدیث : 3172
ترجمہ:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میرے ماموں ابوبُردہ بن نیار رضی اللہ عنہ پرچم اٹھائے میرے پاس سے گزرے، تو میں نے پوچھا : آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : مجھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے ، جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کی ہے تاکہ میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کروں ۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر قاضی تعزیراً قتل تک کی سزا دینا چاہے تو اس کو حق حاصل ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب