QuestionsCategory: عقائداہل السنہ والجماعہ کےاللہ کی ذات کے متعلق عقیدہ کے متعلق وضاحت
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ اہلِ السنہ والجماعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود بلا مکان اور بلا جسم اور بلا جہت ہے تو اس پر ایک سوال پیدا ہو رہا ہے کہ پھرا للہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھانے کا کہا تو اس سے کیا مراد ہے جب اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر کسی کے ساتھ ہے تو اس اٹھانے کا کیا مطلب ہوا؟

دوسرا سوال کہ نبی کریم صلى الله عليہ وسلم کا معراج پر جانا اس سے بھی ظاہر تو یہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ پر ہے اگر ہر جگہ پر ہے تو اس معراج کا کیا مطلب ہے

تیسرا سوال کہ ایک باندی والی جو روایت ہے اس نے کہا کہ اللہ آسمانوں میں ہے اس کا بھی مطلب کھول کر بتا دیں اور جتنے بھی ایسے واقعات ہیں اس کے بارے میں ایک ضابطہ بھی بتا دیں جس سے اس کا مقصد کھل کر سامنے آجائے

سائل:سعید احمد

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1: بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ (سورۃ النساء؛158)
ترجمہ : بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبیؒ نے اس آیت کی بہترین تفسیر اور مطلب بیان کیاہے چنانچہ فرماتے ہیں :
’’اَیْ اِلَی السَّمَائِ وَاللّٰہُ تَعَالیٰ مُتَعَالٍ عَنِ الْمَکَانِ۔‘‘(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ج2ص12)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا اور اللہ تعالیٰ مکان سے پاک ہے۔
امام فخر الدین رازیؒ فرقہ مُشبِّہ( جو اللہ تعالیٰ کے لیے اس آیت سے جہت ثابت کرتے ہیں)کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اَلْمُرَادُ الرَّفْعُ اِلٰی مَوْضِعٍ لَایَجْرِیْ فِیْہِ حُکْمُ غَیْرِ اللّٰہِ۔‘‘
(تفسیر الفخر الرازی ج11ص102تحت قولہ تعالیٰ:بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ)
ترجمہ: ’’رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ‘‘ سے مراد ایسے مقام کی طرف اٹھانا ہے جہاں غیر اللہ کاحکم نہیں چلتا۔
فائدہ: دنیا میں حقیقی اختیار ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اگر ظاہری اختیار بندے کا ہو تو نسبت بندے کی طرف ہوتی ہے جیسے زکریا علیہ السلام کا مریم علیہا السلام کا کھانا دینا لیکن جو اللہ کی طرف سے ملے جس میں بندے کو اختیار نہیں تھا اس کو﴿مِنْ عِنْدِ اللَّه﴾ فرمایا۔ دین میں کمی بیشی کا اختیار چونکہ بندے کے پاس نہیں، اس لیے فرمایا:﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ﴾۔شہید کو جو بعد الموت رزق ملتا ہے اس میں بھی بندے کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا اس لئے ﴿عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾ فرمایا۔ عرف میں اگر کوئی آدمی اپنے گھر سے دوسرے شہر چلا جائے تو نسبت اس کی طرف ہوتی ہے، مثلاً فلاں بندہ لاہور یا کراچی چلا گیا، لیکن اگر کوئی بندہ دنیا کو چھوڑ کر قبر میں چلا جائے تو نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس چلا گیا ہے کیونکہ موت میں اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے اور لاہور جانے میں ظاہری اختیار بندے کا ہے۔
2: ہم کلام ہونے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو عرش پر بلانا اگر عرش پر ہونے کی دلیل ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر بلانا اللہ تعالیٰ کے کوہِ طور پر ہونے کی دلیل ہے اور ہر نمازی کا مسجد میں جا کر اللہ سے بات کرنا ہر مسجد میں ہونے کی دلیل ہے۔کلامِ الہیٰ تجلی ٔالہی کا نام ہے ‘چاہے اس کے ظہور کے لئے انتخاب عرش کا ہو یا کوہ طور کا ہو یا منصور حلاج ؒکی زبان کا ہو۔
3: ہر آدمی بقدر عقل مکلف ہوتاہے۔ باندی کا جواب واقع کے مطابق درست نہ تھا‘ لیکن اس میں عقل ہی اتنی تھی کہ جواب اس کی عقل کے بقدر ہونے کی وجہ سے اس کا ایماندار ہونا تسلیم کرلیاگیا۔لہٰذا اس سے اللہ کے محض ’’فِی السَّمَآءِ‘‘ہونے پر استدلال نہیں کیا جا سکتاجیسا کہ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کو موت آئی۔ جب اس کو زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو اس نے اپنے گھر والوں سے وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ جلانا اور مجھے اس میں ڈال دینا‘ یہاں تک کہ جب آگ میرے گوشت کو کھالے اور ہڈیوں تک پہنچ جائے تو تم ان ہڈیوں کو پیس لینا اور پھر مجھے( یعنی پسی ہوئی ہڈیوں کو) کسی گرم یا کسی تیز ہوا چلنے والے دن دریامیں ڈال دینا(چنانچہ ایسا ہی کیا گیا)
فَجَمَعَہُ اللّٰہُ فَقَالَ :لِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: مِنْ خَشْیَتِکَ فَغَفَرَلَہٗ.
(صحیح البخاری ج1ص495باب بلا ترجمۃ، بعد باب حدیث الغار)
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کرکے فرمایاکہ تو نے ایسا کیوں کیا؟اس نے عرض کیاتیرے خوف کی وجہ سے۔ پس خدا نے اس کوبخش دیا۔
اس روایت میں مذکورشخص کا خوفِ خدا کی وجہ سے ایسی خلاف شریعت وصیت کرنا اور پھراس کے گھر والوں کا اس پر عمل کرنا‘ واقع میں اسے اللہ کے سامنے حاضری سے نہ بچا سکا‘ لیکن چونکہ اس میں عقل ہی اتنی تھی لہٰذا اس کا یہ عمل وعذر اس کی عقل کے بقدر ہونے کی وجہ سے قبول کرکے اسے بخش دیاگیا۔ یہاں بھی ایسی خلاف شریعت وصیت کرنے‘ اس پر عمل اور بوجہ عمل اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش نہ ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب