QuestionsCategory: عقائداللہ کہاں ہے اس کے متعلق اہل السنہ کا موقف
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں کہ اللہ کہاں ہے عرش پر یا ہر جگہ

سائل: ظہور ۔کشمیر

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اہل السنہ کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا جسم، بلا مکان اور بلا جہت موجو دہے اور ’’استواء علی العرش‘‘اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس کے حقیقی معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور قرآن مجید میں اس کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں ۔امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں :
فَاَمَّاالْاِسْتِوائُ فَالْمُتَقَدِّمُوْنَ مِنْ اَصْحَابِنَاکَانُوْالَا یُفَسِّرُوْنَہٗ وَلَا یَتَکَلِّمُوْنَ فِیْہِ
(کتاب الاسماء والصفات للبیھقی ج2 ص150)
ترجمہ: ’’رہا استواء کا مسئلہ تو ہمارے متقدمین حضرات نہ اس کی تفسیر کرتے تھے اور نہ ہی اس میں کوئی کلام فرماتے تھے ۔‘‘
فائدہ: ’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا جِسْم وَّ مَکَانٍ وَّجِہَۃٍ‘‘ یہ تعبیراہل علم حضرات کی ہے، اسی لیے سمجھانے کے لیے ’’اللہ تعالیٰ بلا جسم، بلا مکان اور بلا جہت موجو دہے‘‘کہہ دیا جاتا ہے۔ عوام الناس چونکہ ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے اس لیے اس عقیدہ کو عوامی ذہن کے پیش نظر ’’اللہ تعالیٰ حاضر ناظر ہے‘‘ یا ’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے‘‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
لہذااگر کوئی سوال کرے’’اَیْنَ اللّٰہُ ؟‘‘ ( اللہ کہاں ہے ؟) تو اس کا جواب یہ دینا چاہیے : ’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا جِسْم وَّ مَکَانٍ وَّجِہَۃٍ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ بلا جسم، بلا مکان اور بلا جہت موجو دہے۔ یہ اہل السنت والجماعت کا موقف و نظریہ ہے جس پر دلائل ِ عقلیہ و نقلیہ موجود ہیں۔
1: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ: 115)
ترجمہ : مشرق و مغرب اللہ تعالی ہی کا ہے ،جس طرف پھر جاؤادھر اللہ تعالیٰ کا رخ ہے ۔
2: وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورۃ البقرۃ: 186)
ترجمہ : جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔
3: عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ کَانَ اِذَا اسْتَوَیٰ عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘ اَللّٰھُمَّ نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَیٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ‘ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَاہٰذَا وَاطْوِعَنَّا بُعْدَنَا ‘اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ الحدیث.
(صحیح مسلم ج۱ص۴۳۴ باب استجاب الذکر اذارکب دابۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کہیں سفر پرجانے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے :پاک ہے وہ پروردگار جس نے اس جانور(سواری )کو ہمارے تابع کردیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ یااللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی‘ پرہیز گاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! اس سفر کو ہم پر آسان کردے اور اس کی لمبان کو ہم پر تھوڑا کردے۔ یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور محافظ ہے گھرمیں۔
[4]: اللہ تعالیٰ خالق ہے اور عرش مخلوق ہے ، خالق ازل سے ہے ۔اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ جب عرش نہیں تھا تو اللہ تعالی کہاں تھے ؟
[5]: حقیقتاً مستوی علی العرش ہونے کی تین صورتیں ہیں:
الف: اللہ تعالیٰ عرش کے محاذات میں ہوں گے ۔
ب: عرش سے متجاوز ہوں گے ۔
ج: عرش سے کم ہوں گے ۔
اگر عرش کے محاذات میں مانیں تو عرش چونکہ محدود ہے لہذا اللہ تعالیٰ کا محدود ہونا لازم آئے گا ‘اور متجاوز مانیں تو اللہ تعالیٰ کی تجزی یعنی تقسیم لازم آئے گی (اور تجزی یعنی تقسیم جسم کی ہوتی ہے اور جسم حادث ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے) اور اگر عرش سے کم مانیں تو عرش یعنی مخلوق کا اللہ تعالیٰ یعنی خالق سے بڑا ہونا لازم آئے گا ‘جبکہ یہ تینوں صورتیں محال اور ناممکن ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب