QuestionsCategory: عقائد“اللہ ہر جگہ ہے ” کا ثبوت
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے  کیا آپ یہ عقیدہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کسی کتاب سے دلیل سے ثابت کر سکتے ہیں

سائل:محمد سرتاج خان۔ینبع ،سعودی عرب

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ عقیدہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے ثابت ہے
1: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ: 115)
ترجمہ : مشرق و مغرب اللہ تعالی ہی کا ہے ،جس طرف پھر جاؤادھر اللہ تعالیٰ کا رخ ہے ۔
2: وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورۃ البقرۃ: 186)
ترجمہ : جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔
4: اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(ہود:61)
ترجمہ: بے شک میرا رب قریب ہے قبول کرنے والاہے۔
5: وَاِنِ اھْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوْحٰی اِلَیَّ رَبِّیْ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ (سبا:50)
ترجمہ: اور اگر میں صحیح راستے پر ہوں تو یہ بدولت اس قرآن کے ہے جس کو میرا رب میرے پاس بھیج رہاہے وہ سب کچھ سنتا بہت قریب ہے۔
6: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ (سورہ واقعہ:85)
ترجمہ : تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔
7: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورہ ق:16)
ترجمہ : ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔
اسی طرح “اللہ ہر جگہ موجود ہے ” یہ عقیدہ احادیث سےبھی ثابت ہے
1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ قَالَ رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ نُخَامَۃً فِیْ قِبْلَۃِ الْمَسْجِدِ وَھُوَیُصَلِّیْ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ فَحَتَّھَا ثُمَّ قَالَ حِیْنَ انْصَرَفَ: اِنَّ اِحَدَکُمْ اِذَا کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ فَاِنَّ اللّٰہَ قِبَلَ وَجْھِہٖ فَلَا یَتَخَمَّنْ اَحَدٌ قِبَلَ وَجْھِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ.
(صحیح البخاری ج1ص104باب ھل یلتفت لامر ینزل بہ الخ، صحیح مسلم ج1ص207باب النہی عن البصاق فی المسجد الخ)
ترجمہ: حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ ﷺ لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو صاف کر دیا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘ لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔
2: عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ کَانَ اِذَا اسْتَوَیٰ عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘ اَللّٰھُمَّ نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَیٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ‘ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَاہٰذَا وَاطْوِعَنَّا بُعْدَنَا ‘اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ الحدیث.
(صحیح مسلم ج۱ص۴۳۴ باب استجاب الذکر اذارکب دابۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کہیں سفر پرجانے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے :پاک ہے وہ پروردگار جس نے اس جانور(سواری )کو ہمارے تابع کردیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ یااللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی‘ پرہیز گاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! اس سفر کو ہم پر آسان کردے اور اس کی لمبان کو ہم پر تھوڑا کردے۔ یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور محافظ ہے گھرمیں۔
3: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ :اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :یَاابْنَ آدَمَ !مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ ‘قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ :اَمَاعَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ؟ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہٗ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہٗ؟
(صحیح مسلم ج 2ص318باب فضل عیادۃ المریض،صحیح ابن حبان ص189،رقم الحدیث269)
ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ ؓؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ارشاد فرمائیں گے :اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا میں آپ کی بیمار پرسی عیادت کیسے کرتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں۔ تو اللہ فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ تو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی۔ تجھے پتا ہے کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول یہ ہے:
من قال لا اعرف ربي في السماء او في الأرض فقد كفر وكذا من قال إنه على العرش ولا ادري العرش أفي السماء او في الأرض.
ترجمہ: جس شخص نے یہ کہا مجھے معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان میں ہے يا زمین میں تو اس نے کفر کيا، اسی طرح جوشخص یہ کہتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے ليکن مجھے پتہ نہیں ہے کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھی کافر ہے۔
( العالم والمتعلم لأبی حنيفۃ:ص49بتحقیق الشیخ محمد زاہد الکوثری)
اور امام فقيہ ابوالليث سمرقندی کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں
“قال اللہ تعالیٰ الرحمن علی العرش استویٰ فان قال اقول بھٰذہ الآیۃ ولکن لاادری این العرش فی السماء ام فی الارض فقد کفر ایضاً”
حاشیہ العالم والمتعلم ص49
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے” الرحمن علی العرش استوی” پھر اگر کوئی شخص یہ کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے یہ معلوم نہيں کہ عرش کہاں ہے؟ آسمان میں ہے يا زمين پرتو اس نے کفر کيا
فقيہ ابوالليث سمرقندی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کردی کہ دوسری بات” وكذا من قال إنه على العرش ولا ادري العرش أفي السماء او في الأرض ” کا مرجع بھی پہلے قول کی طرف ہے کيونکہ جب کوئی شخص اللہ کو عرش پر مستوی مان کر کہتا ہے کہ مجھے یہ معلوم نہيں کہ عرش کہاں ہے؟ آسمان پر ہے يا زمين پر؟ تو اس کا وہی مطلب ہوا جو پہلی عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پریہ بات کرکے قائل نے اللہ کے ليے خاص مکان کا عقيدہ رکھا جبکہ اللہ تعالی مکان سے پاک ہےاور ايسا کہنے والا شخص اگراللہ تعالی ٰکو آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر ہونے کی نفی کرتا ہے اوراگر اللہ تعالیٰ کو زمين پر مانتا ہے تو آسمان پر ہونے کی نفی کرتا ہے اوران دونوں صورتوں میں اللہ تعالی کو محدود ماننا لازم آتاہے جبکہ وہ ذات غیر محدودہے۔
یہ بات بھی قابل غورہے کہ ان دونوں نسخوں ميں دونوں باتوں کی وجہ کفر بيان نہيں کی گئی کہ ايسا شخص کيوں کافر ہے؟
تو شارح فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
“لانہ بھٰذاالقول یوھم ان یکون لہ تعالی مکان فکان مشرکا ”
حاشیہ العالم والمتعلم ص49
اس قول کے ذریعہ اللہ تعالی کے ليے مکان ثابت ہوے کا وہم ہوتا ہے لہٰذا ایسا کہنے والا شخص مشرک ہوگيايعنی اللہ تعالیٰ تو ازل سے ہے اگر اللہ کی ذات کے ليےمکان ضروری ہے تو وہ مکان ازل سے اور قدیم ماننا پڑے گا ا س صورت میں ايک سے زائد قديم ہوجائیں گے جو کہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
امام ابواللیث سمرقندی کی اس وضاحت کی تائیدخود امام ابوحنیفہ کے فرمان سے بھی ہوتی ہے آپ سے پوچھاگیا
“ارءیت لوقیل این اللہ؟فقا ل یقال لہ کان اللہ تعالی ولامکان قبل ان یخلق الخلق وکان اللہ تعالی ولم یکن این ولاخلق ولاشئی ”
العالم والمتعلم ص57
ترجمہ: اگر کسی شخص سے یہ پوچھا جائے اللہ تعالی کی ذات کہاں ہے؟تووہ کیا جواب دے؟آپ نے فرمایا اسے جواب دے کہ اللہ وہیں ہے جہاںمخلوق کے وجود سے پہلےتھا جب کوئی جگہ اور مکان نہیں تھا صرف اللہ موجود تھا۔ اورصرف وہی اس وقت موجود تھا جب نہ تو کوئی مکان تھا اور نہ ہی مخلوق نا م کی کوئی چیز تھی“
اوپر امام صاحب کا قول ان کی اپنی کتاب میں جن الفاظ سے مذکور ہے وہ ہم نے بيان کرديا اور اس کی تشريح {جوکہ امام صاحب کے اپنے فرمان کے مطابق ہے }
فقيہ ابوالليث سمرقندی ت 373ھ کے قول سے کردی جس سے بات بالکل واضح ہوگئی
واللہ اعلم بالصواب