السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترمی و مکرمی متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
عرض یہ ہے کہ کیا موٹر وے جی ٹی روڈ کی قیام گاہوں اور ریلوے اسٹیشن اور ائیر پورٹ کی مساجد میں اپنی مسافرانہ نماز کی ادائیگی کے لیے جماعت کروا سکتے ہیں ؟اگرچہ مقیمین پہلے یا بعد میں جماعت کرواتے ہیں ۔
سائل : سعد امجد ۔فیصل آباد
Please login or Register to submit your answer
ایسی مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ محلے والوں یا اہلِ مسجد کے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے، دوسری جماعت سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس سے پہلی جماعت کے افراد بھی کم ہوجائیں گے اور ہر ایک یہ سوچے گا کہ میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، جب کہ شریعتِ مطہرہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ اور نماز کی جماعت میں کثرت بھی مطلوب ہے، جب کہ ایک سے زائد جماعت کرانے میں کثرت کی بجائے تفریق ہے۔
عن ابی بکرۃرضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اقبل من نواحی المدینہ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فمال الی منزلہ فجمع اھلہ فصلی بھم
المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث 4601
ترجمہ:
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو مسجدِ نبوی میں جماعت ہوچکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھر جاکر گھروالوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی
اب مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملنا مشکل نہیں تھا، انہیں جمع کرکے دوسری جماعت کرائی جاسکتی تھی۔اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں جماعت (بلاکراہتِ تحریمی) جائز ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم بیانِ جواز کے لیے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد میں دوسری جماعت ادا فرماتے۔
ہاں البتہ ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے امام مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر آکر اپنی جماعت کراتے ہیں ، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے۔
وَيُكْرَهُ تَكْرَارُ الْجَمَاعَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ فِي مَسْجِدِ مَحَلَّةٍ لَا فِی مَسْجِدِ طَرِيقٍ اَوْ مَسْجِدٍ لَا اِمَامَ لَہُ وَلَا مُؤَذِّنَ.
الدر المختار مع رد المحتار: ج 2ص342
ترجمہ:
مسجد محلہ میں اذان و اقامت کے ساتھ دوسری جماعت مکروہ (تحریمی) ہے، البتہ مسجد طریق یا ایسی مسجد جس کا امام و مؤذن مقرر نہ ہو اس میں دوسری جماعت جائز ہے۔
أَيْ تَحْرِيمًا لِقَوْلِ الْكَافِي لَا يَجُوزُ وَالْمَجْمَعُ لَا يُبَاحُ وَشَرْحُ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إنَّهُ بِدْعَةٌ كَمَا فِي رِسَالَةِ السِّنْدِيِّ.
رد المحتار: ج2 ص342
ترجمہ:
جس مسجدکا امام اورمقتدی متعین ہوں وہاں جب ایک مرتبہ اذان واقامت سے جماعت ہوجائے تو پھراس مسجد میں نمازپڑھنا مکروہ تحریمی ہے ہاں اگر مسجدطریق ہوتواس میں دوبارہ جماعت کروانےکی گنجائش ہے۔
علامہ جمال الدین زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ونقل عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہ قال لایجوز اعادۃ فی مسجد لہ امام راتب.
نصب الرایۃ: ج2ص857کتاب الصلوۃ باب الامامۃ
ترجمہ:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ جس مسجد کا امام متعین ہو اس مسجد میں دوبارہ نماز ناجائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب