AhnafMedia

عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمفتی عزیز الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ

Rate this item
(21 votes)

عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمفتی عزیز الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ

مولانا نور محمد تونسوی

برادرانِ اسلام‼ خصوصاً طلبہ کرام دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر علمائے دیوبند میں ہوتاہے عقیدہ حیات الانبیاء عقیدہ عذاب قبر یعنی حیات قبر اور بعد از مرگ روح اور جسد عنصری کے تعلق کی بابت ان کے عقائد وہی ہیں جو دیگر علمائے دیوبند کثر اللہ سوادھم کے ہیں لیکن منکر ین حیات قبر یعنی عصر ہذا کے معتزلہ ؛مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ کو بھی تقریروں اور تحریروں میں اپنا ہم خیال اور ہم مسلک ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں حالانکہ ان کا دامن اس قسم کے الواث سے پاک وصاف اورمنزہ ہے چنانچہ درج ذیل اقتباسات سے ان کے عقائد ونظریات بالکل واضح ہے ۔ 1 المہندعلی المفند یعنی عقائدعلمائے اہل السنت دیوبند علمائے دیوبندکے عقائدکی وہ دستاویز ہے جس پر تمام اکابرواصاغر کے تصدیقی دستخط ثبت ہیں اس کتاب میں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح کیاگیا ہے چنانچہ لکھا ہے: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کےاور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیم السلام وشہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو حاصل ہے تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ }انباء الاذکیاء بحیوٰۃ الانبیاء{ میں بتصریح لکھاہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ تقی الدین سبکی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ انبیاء وشہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے۔۔۔۔۔ الخ پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہے اور اس معنی برزخی بھی ہے کہ عالم برزخ میں حاصل ہے ہمارے شیخ مولانا محمد قاسم قدس سرہ کا اس مبحث میں مستقل رسالہ بھی ہے نہایت دقیق اور انوکھے طرز کا ہے۔۔اس کانام آب حیات ہے ۔ المہند علی المفند ص38 حضرت مولانامفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ المہندعلی المفند کے مذکورہ بالا عقیدہ کی اور دیگر تمام عقائد کی تصدیق کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :جوکچھ تحریر فرمایا علامہ مولانا الحاج حافظ خلیل احمد مدرس اول مدرسہ مظاہر العلوم واقع سہارنپور نے مسائل کی تحقیق میں وہ سب حق ہے میرے نزدیک اور میرا اور میرے مشائخ کا عقیدہ ہے۔ اس کو لکھا بندہ عزیز الرحنٰم عفی عنہ دیوبندی نے ۔ الہندد علی المفند ص92 2 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اولیاءاللہ بعد وصال زندہ رہتے ہیں یا نہیں ؟ توآپ نے جواب میں لکھا: سب ہی مرنے والے ہیں انک میت وانھم میتون اور سب ہی کو حیات روحانی حاصل رہتی ہے کیونکہ مدارِ ثواب حیات روحانی پر ہےجوکہ مسلم ہے پھر اسی حیات روحانی میں درجات انبیاء علیم السلام کی حیات قوی تر ہے اس کے بعد شہداء کی پھر جملہ مومنین ومومنات کی درجہ بدرجہ اور نصوص صرف انبیاء علیما السلام وشہداء کی حیات میں وارد ہیں حدیث شریف میں ہے ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اللہ حی یرزق ۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل مدلل ج5ص477 3 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات؛شہداء سے بڑھ کر ہے یا نہیں ؟ تو آپ نے جواب تحریر فرمایا کہ انبیاء کی حیات خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ؛ شہداء کی حیات سے افضل واعلیٰ ہے اور بحث اس کی طویل ہے۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند ج5ص471 4 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حیات ہونا مسلّمات اہل السنت والجماعت سے ہے پھر قبض روح وتجہیز وتکفین وتدفین وغیرہ امور منافی حیات معلوم ہوتے ہیں اگر حیات انبیاء مثل حیات شہداء عنداللہ ہونا کہا جائے تو مابین کیا فرق ہوگا ؟ حضرف مفتی صاحب رحمہ اللہ نے جواب تحریر فرمایاکہ انبیاء کرام علیمس السلام کی حیات شہداء کی حیات سے بھی اقویٰ ہے واتّم ہے اور مراد اس حیات سے حیات دنیاوی ظاہری نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے انک میت وانھم میتون لہذا احکام اموات ظاہریہ سب پر جاری ہوتے ہیں اس مسئلہ کی پوری تحقیق آب حیات مصنفہ حضرت مولانا محمدقاسم قدس سرہ میں مذکورہ ہے اس کو دیکھ لیں۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند ج5ص397 قارئین کرام!مذکورہ بالااقتباسات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت مفتی عزیز الرحمٰن نور اللہ مرقدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی خصوصی اور امتیازی حیات کے اسی طرح قائل ہیں جس طرح دیگر علمائے دیوبند قائل ہیں لاشک فیہ ولاریب فیہ ۔البتہ حضرت متیف صاحب رحمہ اللہ نے جو حیاتِ قبر کو حیاتِ روحانی کہا ہے اس سے ہرگز دھوکہ نہ کھائیں کہ مفتی صاحب رحمہ اللہ حیاتِ جسم کا یا تعلق روح مع الجسد العنصری کا انکارکر رہے ہیں کہ عالم قبر و برزخ میں روح اصل اور جسم اس کے تابع ہوتاہے قبر وبرزخ کے حالات اولا روح پر وارد ہوتے ہیں اور جسم اس کے تابع ہوتاہے اور جسد بالتع ان سے متاثر ہوتاہے اس لیے اس زندگی کو حیات روحانی سے تعبیر کیا جاتا ہے حیات روح یا حیات روحانی سے حیات جسم کی نفی کرنا حماقت اور جہالت ہے کیونکہ اس تعبیر سے تو جسم کی حیات مع التعلق ثابت ہوتی ہے۔ نزل حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کے سلسلہ میں حیات دنیاوی کی جونفی فرمائی ہے اس کے ساتھ ظاہری کی قید لگا کر یہ بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات قبر بالکل حیات دنیا کی طرح ظاہر نہیں ہے کہ ہر شخص کے لیے محسوس ومبصر ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات عامۃ الناس کی نظروں سے مستور ہے اس لیے تو اسے حیاتِ برزخی بھی کہتے ہیں بہرحال اس کے وہ دنیا والے جسد کی حیات کی نفی نہیں فرما رہے اور نہ ہی اس سے تعلق کی نفی فرما رہے ہیں بلکہ صرف اور صرف حیات ظاہری کی نفی فرمارہے ہیں کیونکہ حیات جسدمع التعلق کے تو وہ عامۃ الناس کے حق میں بھی قائل ہیں حوالہ جات آگے آ رہے ہیں۔ عذابِ قبر کے متعلق مفتی صاحب رحمہ اللہ کا عقیدہ: دیگر علماء اہل السنۃ والجماعۃ کی طرح حضرت مفتی عزیز الرحمٰن نوراللہ مرقدہ عذاب قبرکی صحیح صورت کے قائل ہیں کہ اسی زمین والی قبر میں مدفون مردہ کے ساتھ روح کا تعلق ہوتاہے جس کی وجہ سے مردہ انسان قبر کی دکھ وسکھ کی کارروائی کو محسوس کرتا ہے، چنانچہ چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ 1 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ زید کہتا ہے کہ مرنے کے بعد قیامت تک انسان کی روح قبر میں رہتی ہے یہ درست ہے یا نہیں؟حضرت مفتی صاحب نے جواب تحریر فرمایا کہ قبر میں روح کا تعلق رہتا ہے اور مستقر اصل اس کا علیین یا سجین ہے ۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل مدلل ج5ص426 2 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ مرنے کے بعد عذاب روح کو ہوتاہے یا جسم کو یا دونوں کو ؟تو جواب تحریر فرمایا کہ عذاب روح پر مع جسم کے ہوتاہے جیسا کہ ظاہر احادیث سے ثابت ہے فتاوی دارالعلوم مکمل مدلل ج5ص427 3 حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ سے سوال کیا گیا کہ عذاب قبر حق ہے یانہیں اور عذاب قبر کب ہوتاہے؟ تو آپ نے جواب لکھاکہ عذاب قبر برحق ہے اور اس وقت شروع ہوتاہے جس وقت دفن کرکے واپس آتے ہیں ۔ فتاوی دارالعلوم ج5ص392 4 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ میت کے لیے دعا کرنا کہ جواب منکر نکیر میں ثابت قدم رہے اور تخفیف کے لیے کمہن پڑھنابعد دفن کے جائز ہے یا نہ؟توحضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ نے جواب لکھاکہ یہ جائز ہے کلمہ پڑھتے رہیں اور میت کے لیے جواب منکرنکیر میں ثابت قدم رہنے کی دعاکرتے رہیں ۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند ج5ص393 5 حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ سے تلقین بعد از دفن کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب تحریر فرمایا کہ لیکن اگر بعد دفن ہم کند مضائقہ نیست قال فی الشامی وانما لاینھی عن التلقین بعد الدفن لا نہ لا ضرر فیہ بل فیہ نفع لان المیت یستانس بالذکر علی ما ورد فی الٓاثار ۔ فتاوی دارالعلوم دیونبد مکمل مدلل ج5ص244 6 حضرت متیو صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ جسم سے روح کو تعلق رہتا ہے ۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل مدلل ج5ص462 7 حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اولیاء اللہ کے فیوض و انوار و برکات بعد وصال بھی موجود رہتے ہیں یا بعد موت ظاہری وہ سب ختم ہوجاتے ہیں ؟ اس کا جواب تحریر فرمایا کہ فیوض وبرکات ان کے بعد ممات کے باقی رہتے ہیں مثلاً یہ کہ ان کی زیارت اور قرب سے زائرین کو برکات حاصل ہوں اور ان پر درود ورحمت ہوکیونکہ جب وہ اولیاء مورد رحمت الِہی ہیں تو جو شخص ان کی زیارت کرے گاوہ بھی حسب المراتب مستفیض ان کی برکات سے ہوگا۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل مدلل ج5ص477 قارئین کرام! مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا عبارت سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں: 1 وہ زمین کے اس حصہ کو قبرکہتے ہیں جس میں مردہ انسان کو دفن کیاجاتاہے۔ 2 اسی ارضی قبر میں نکیرین آتے ہیں اور اسی قبرمیں سوال وجواب اورحساب وکتاب ہوتاہے اوراسی قبر میں عذاب و ثواب ہوتاہے۔ 3 روح کا اسی قبر یعنی مردہ مدفون فی القبر سے تعلق ہوتاہے۔ 4 روح اورجسد کے مابین تعلق کی وجہ سے عذاب روح اور جسد دونوں پر واردہوتاہے۔ 5 اولیاءاللہ کی یہی زمین والی قبریں رحمت الٰہی کا مورد ہیں حتی کہ زائرین قبر بھی اس رحمت سےمستفیض ہوتے ہیں ۔ 6 تلقین بعد دفن سے مردہ انسان کونفع پہنچتاہے ۔ 7 مردہ عندالقبرذکرکرنے سے مانوس ہوتاہے۔ عام موتیٰ کے سماع میں مفتی صاحب رحمہ اللہ کاموقف: حضرت مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ سے عام موتیٰ کے سماع کے متعلق سوال کیا گیا اور یہ بھی پوچھا گیا کہ اس بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ سے بھی کچھ منقول ہے؟جواب میں تحریر فرمایاکہ سما ع موتیٰ میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے سے ہے بہت سے ائمہ سماع موتیٰ کے قائل ہیں اورحنفیہ کی کتب میں بعض مسائل ایسے مذکور ہیں جن سے عدم سماع موتیٰ معلوم ہوتاہے مگر امام صاحب سے کوئی تصریح اس بارہ میں نقل نہیں کرتے اور استدلال عدم سماع آیت انک لاتسمع الموتیٰ وغیرہ سے کرتے ہیں اور مجوزین کا استدلال حدیث ماانتم باسمع منھم ۔۔الخ اور حدیث سماع قرع نعال سے ہے اورآیت مذکورہ کایہ جواب دیتے ہیں کہ نفی سماع قبول کی ہے غرض یہ کہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے اور قول فیصل ہونا اس میں دشوار ہے پس عوام کو سکوت اس میں مناسب جبکہ علماء کوبھی اس میں تردد ہے اور دلائل فریقین موجود ہیں اور جبکہ سماع موتیٰ میں اختلاف ہوا تو اس میں بھی اختلاف ہوا کہ بزرگان دین کے مزارات پر اس طرح دعا کرنا کہ تم اللہ سے دعا کرو کہ میری فلاں حاجت پوری فرمادے یہ بھی مختلف فیہ ہوگا البتہ احوط یہ ہے کہ اس طرح دعا کرے کہ یااللہ اپنے اس نیک بندے کی برکت سے میری دعا قبول فرما اور میری حاجت پوری فرما ۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل مدلل ج5ص561 قارئین کرام !حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ کے مذکورہ بالا فتوی اور اس طرح دیگر فتاویٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عام موتیٰ کا عدم سماع راجح ہے لیکن اس کے باوجود وہ قائلین سماع موتیٰ کے حق میں کسی قسم کے تشدد کے قائل نہںی ہیں نہ ہی ان پر کوئی فتویٰ لگاتے ہیں بلکہ وہ سماع موتیٰ کے مسئلہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلافی مسئلہ سمجھتے ہیں اور سماع موتیٰ کو بہت سے ائمہ کامسلک بتاتے ہیں ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دو جانب دلائل ہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں قول فیصل دشوار ہے نیزسکوت کو احوط قراردیتے ہیں بلکہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ بزرگانِ دین کے توسل کے بھی قائل ہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ امام اعظم رحمہ اللہ سے سماع کے بارے میں کچھ ثابت نہیں۔ جبکہ عصر ہذا کے معتزلہ کو حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن نوراللہ مرقدہ کے ساتھ کسی مسئلہ اور عقیدہ میں اتفاق نہیں بکہل اختلاف ہی اختلاف ہے لیکن دلیری دیکھئے اپنی تحریروں اور تقریروں میں عوام کویہ تاثر دیتے جا رہے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول ہمارے ہم خیال ہیں اور ہم ان کے ہم مسلک ہیں حد ہوگئی غلط بیانی کی اور دھوکہ بازی کی اعاذنااللہ جمیع المسلمین من شرورھم وسوء فہھم۔ چالبازوں کی چالبازی: منکرین حیات قبریعنی عصر ہذا کے معتزلہ جب بھی کسی کتاب میں عام موتیٰ کے عدم سماع کا مسئلہ دیکھتے ہیں تو فوراًاس سے حضرات انبیاء کرام علیمع السلام کے سماع کی نفی کر دیتے ہیں حالانکہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب گنولہی رحمہ اللہ اپنے فتاوی رشیدیہ میں تصریح فرماچکے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کیونکہ ان کا سماع تو اجماعی مسئلہ ہے آج تک کسی نے ان کے سماع کااختلاف نہیں کات جو کچھ اختلاف ہے وہ عام موتیٰ کے سماع کا ہے اور عام موتیٰ کے سائع کا مسئلہ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف فیہ چلا آ رہا ہے لہذا انبیاء کرام علیہم السلام کے سماع کو اختلافی مسئلہ بنانا اور عام موتیٰ کے عدم سماع کے دلائل کو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر چسپاں کرنا چالبازوں کی ا یک خطرناک چال ہے۔ سماع موتیٰ پر مفتی صاحب رحمہ اللہ کی کرامت: فتاوی دارالعلوم دیوبندکے شروع میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب نوراللہ مرقدہ نے پیش لفظ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے اور اس میں حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن نوراللہ مرقدہ کے حالات وکمالات اور کرامات کا بھی تذکرہ ہے چنانچہ لکھاہے حسب بیان دفتری نورالحق صاحب ایک عجیب وغریب صورت یہ پیش آئی کہ حضرت مولانا رفیع الدین رحمہ اللہ کے والد ماجد کی قبر میں سے ہر جمعرات کو قرآن شریف کی تلاوت کی آواز سنائی دینے لگی جس کا لوگوں میں چرچا شروع ہوا اور نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس قبر کے ارد گرد جعا ہونے لگے اور جمگھای شروع ہوگیا ہر وقت لوگ گھیرے رہتے اس کا قدرتی ثمرہ یہ ہوسکتا تھا کہ توجہ الی الخلق بڑھ جاتی اور توجہ الی اللہ گھٹ جاتی اور وہ توکل جو بصورت عبادت ہمہ وقت حق تعالیٰ کے سامنے نمایاں ہوتا قبر کے ساتھ لگ کر منقسم ہوجاتا جیسا کہ اس قسم کی غیر معودلی صورتوں سے اس قسم کے نتائج برآمد ہوتے رہتے ہیں اور بہت سی بدعات کا ظہور بھی ہوتا رہاہے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسے محسوس فرمایا اور ایک د ن اس قبر پرتشریف لے گئے مقررہ وقت پر وہ تلاوت کی آوز سنائی دی تو اسی وقت حضرت ممدوح نے فرمایا کیوں لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کر رکھا ہے اس جملے کا زبان سے نکلنا تھا کہ وہ آواز بدح ہوگئی اور پھر کبھی سنائی نہیں دی کیا ٹھکانہ ہے اس تصرف کا جو زندوں سے گزر کر برزخ تک پہنچا ہوا ہو اور قبر والوں پر بھی موثر ہوتا ہو گویا قبروالے بر ز خ میں بھی ان مربیان دین کے وعظ دپنداور تنبیہ کے شائق اور ان پر عملدرآمد کرنے کے لیے مدسا رہتے ہیں۔ سبحان اللہ فتاوی دارالعلوم دیوبدر مدلل مکمل ج1ص43 حضرات گرامی! اس میں شک نہیں کہ مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ عام موتیٰ کے عام سما ع کے قائل نہیں ہیں لیکن مذکورہ بالا واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل منکر نہیں ہیں بلکہ سماع فی الجملہ کے وہ بھی قائل ہیں جیسا کہ حضرت متیع صاحب نوراللہ مرقدہ نے قبر پر جاکر صاحب قبرکوجہر بالقرآن پرتنبیہ فرمائی اور آوز آنی بند ہوگئی ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اکابر علمائے اہل السنت والجماعت دیوبدے کی راہ صراط مستقیم پر استقامت نصیب فرمائے خودرائی اورخود سری اورخود بینی سے محفوظ رکھے۔آمین یارب العالمین

Read 5302 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Hayat-un-Nabi SAW Articles عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمفتی عزیز الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company