QuestionsCategory: ذکر اذکار“اِلاَ اللّٰہ” کا ذکر کرنا
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ

1:      صرف “اِلاَ اللّٰہ” کا ورد کرنے کا  کیا حکم ہے  ؟

2:      کیا اِلاَ اللّٰہ ۔ اِلاَ اللّٰہ کا ذکر کرنا جائز ہے؟ ۔

3:      بعض لوگوں کا کہنا ہے اِلاَ اللّٰہ کا ذکر کرنا کار ثواب ہے ۔ دوسرے لوگ کہتے ہیں صرف اِلاَ اللّٰہ کا ورد کرنا بدعت ہے ۔مسنون نہیں۔

سائل:خالد بنوری ۔  بنگلہ دیش

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مذکورہ سوالات کے جوابات کا خلاصہ یہ ہے:
صرفالا اللہ کا ذکر کرنا درست ہے اور کارِثواب بھی ہے
بسا اوقات الا سے پہلے والا جملہ متکلم اور سامعین کے ذہن میں موجود ہوتا ہے تو پہلے والے جملہ کو چھوڑ دیا جاتا ہےاس پہلے جملہ کو مستثنی منہ اور عامل کہا جاتا ہے اور ایساحذف کرنا کلام عرب میں عام ہے حتی کہ افصح العرب والعجم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے کلام میں مستثنی منہ کا قرینہ کی وجہ سے حذف ہونا منقول ہے:
، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَرَّمَ اللَّهُ مَكَّةَ فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ،
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ، رقم الحدیث 1349
ترجمہ:
حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے (یہاں قتل و خون) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے (فتح مکہ کے دن) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو (شکار کے لیے) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو (کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پرحضرت عباس (رضی اللہ عنہ ) نے عرض کی لیکن اس سے اذخر کا استثناء کر دیجئیے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔
مذکور حدیث میں : إلاَّ الإِذْخِرَ . اس میں قرینہ دلالتِ لفظی پچھلے کلام میں موجود ہے اور الا اللہ میں قرینہ مومن کی دلالتِ حال ہےکہ متکلم اور سامعین کے ذہن میں موجو دہوتا ہے کہ اس کا ماقبل موجود ہے ۔ إلاَّ الإِذْخِرَ میں الا سے استثناءہوا ہے اور ما قبل میں مستثنیٰ منہ اگرچہ کلام میں موجود نہیں ہےکیونکہ پیچھےسے بات چلتی آ رہی ہے اس لئے متکلم کے ذہن میں بات موجود ہے اس طرح الا اللہ سے پہلے اگرچہ لاالہ مذکور نہیں ہے لیکن متکلم اور سماع کے ذہن میں موجود ہے کہ الا اللہ کی مراد کیا ہوتی ہے اس لیے کلمہ کا ابتدائی حصہ لا الہ چھوڑ دیا جاتا ہے
واللہ اعلم بالصواب