QuestionsCategory: متفرق سوالاتمنت کے احکام
محمد عمر asked 3 years ago

عرض یہ ہے کہ

1:            کیا منت ماننا یا نذر ماننا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے ؟

2:            کیا منت اور نذر کی کوئی اقسام بھی ہیں ؟کیونکہ میں نے ایک صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ منت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں ہوتا ہے کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ یہ بخیل کا مال نکلوانے کے لیے ہوتی ہے اس حدیث پاک کی بھی وضاحت فرما دیں ۔

3:            منت کے پورا ہو جانے پر اس کو فورا ادا کرنا ضروری ہے یا اس میں کوئی تاخیر کی بھی گنجائش ہوسکتی ہے ؟

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 3 years ago

جی ہاں نذریا  منت مانناشرعاًجائز ہے قرآن و حدیث میں اس کا ثبوت موجود ہےلیکن اس کی چند شرائط ہیں جس کو مدنظر رکھ کر اگر منت مانی جائے تو وہ درست ہو گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ،حَدَّثَنَا مَالِكٌ،‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ،‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ،‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُطِعْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَعْصِهِ.
صحیح بخاری۔رقم الحدیث: 6696
ترجمہ:        حضور صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا   جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہیے لیکن جس نے اللہ کی معصیت کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہیے۔
نذر کے صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں :
سب سے اہم شرط یہ ہے کہ غیر اللہ کی منت نہ مانی جائے ورنہ منت منعقد ہی نہ ہو گی بلکہ باطل ہو گی ۔
دوسری شرط یہ ہے کہ منت صرف عبادت کی ہو لہذا جو عبادت نہ ہو گی اس کی منت بھی درست نہ ہو ۔اسی طرح عبادت بھی وہ ہو کہ کسی صورت میں وہ فرض یا واجب ہوتی ہواگر کسی عبادت کی جنس فرض یا واجب نہ ہوتی ہوتو اس کی منت ماننا درست نہیں  ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ جو عبادت پہلے سے لازم ہو اس کی نذر ماننا درست نہیں مثلا ً فرض نماز کی نذر ماننا یہ درست نہیں  کیونکہ یہ پہلے سے ہی فرض ہے۔
2:            نذر کی دو قسمیں ہیں :
پہلی قسم یہ ہے کہ طاعت کی نذر یعنی کسی نیک عمل کو کرنے کی نذر مثلاً اپنے ذمہ روزے  یا نوافل کر لیے تو اس کو تو پورا کرنا ضروری ہے ۔
دوسری قسم یہ ہے کہ معصیت کی نذر یعنی کسی گناہ کےکام  اپنے ذمہ لینا تو اس نذر کا پورا کرنا جائز نہیں بلکہ ایسی نذر سے توبہ استغفار کرنا چاہیے ۔
باقی صحیح بخاری کی  مکمل حدیث  ملاحظہ فرمائیں  اس کے بعد اس کا مطلب ملاحظہ فرمائیں :
إن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: إن النذر لا یقدم شیئاً، ولا یؤخر، وإنما یستخرج بالنذر من البخیل․“
(صحیح بخاری۔کتاب الأیمان والنذور، باب الوفاء بالنذر، رقم الحدیث:6692)
ترجمہ:      حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نذر کسی چیز کو نہ  مقدم یا مؤخر  نہیں کر سکتی ہے۔ نذر کے ذریعےمحض بخیل سے مال نکال لیا جاتا ہے۔
 حدیث مذکور  میں سخی وبخیل کے درمیان ایک عجیب  فرق بیان کیا ہے کہ سخی تو فورا اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہےاسی ما ل کو خرچ کرنے میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے  اور  بخیل کا معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے کیونکہ اولاًاس کا دل یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا مال کسی کو دے۔ہاں!اگر اس کی اپنی ذاتی غرض ہو گی تو وہ ضرور خرچ کرے گا مثلاً اپنی حاجت پوری ہونے کے بعد الله کے نام پر اپنا کچھ مال نکال کرخرچ  کرتا ہےاب اس طرح منت ماننے سے اصل تقدیر کا معاملہ تو نہیں بدلتا ہاں جس صورت میں اس کی بات تقدیر کے موافق ہو جائے گی تو ایسی صورت میں وہ اپنا مال خرچ کرے گا کیونکہ اب اسی تقدیر نے اسے مجبور کیا ہے کہ اب وہ مال خرچ کرے ۔
3:            واضح رہےکہ نذر کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ  نذر کو جس کام پر معلق کیا اگروہ کام ہوجائے  تو اب نذر کا پوراکرنا لازم ہے۔ اور اس کو فورا ً پورا کرنا بہتر ہے کیونکہ موت کا کسی کو علم نہیں لہذا جلد ہی بہتر ہے لیکن اگر کوئی عذر ہو تو ایسی صورت میں تاخیر کی گنجائش ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
11۔صفر1442
29۔ستمبر2020