QuestionsCategory: متفرق سوالاتتعزیت کے لیے ہاتھ اٹھانا
Saad Amjid asked 3 years ago

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترمی ومکرمی متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
عرض یہ ہے کہ کیا تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے؟ اور ہر آنے والے شخص کا دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا کیسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام اور اکابرین کا کسی کی تعزیت پر کیا طریقہ تھا
سائل : سعد امجد ۔فیصل آباد

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 3 years ago

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میت کے لئے مغفرت کا حکم اور اس کے اعزا کے لئے صبر کی تلقین کا حکم ہے، مروجہ طریقہ فاتحہ ’’کہ لوگ لواحقین کے پاس آئیں اور کہیں کہ فاتحہ پڑھو اور سب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ لواحقین کے پاس جا کر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا اور نہ مانگنا دونوں طرح جائز ہے۔
جیسے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا یہ بخاری کی روایت سے ثابت ہے:

عن أبی موسی رضی اللہ عنہ قال فی موت أبی عامر رضی اللہ عنہ: فدخلت على النبي صلى الله عليه و سلم في بيته على سرير مرمل، وعليه فراش قد أثر رمال السرير بظهره وجنبيه فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، وقال :قل له: استغفر لي ،فدعا بماء، فتوضأ ثم رفع يديه فقال: ( اللهم اغفر لعبيد أبي عامر ) . ورأيت بياض إبطيه.

(صحيح البخاري ،ح:4068
ترجمہ:
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں ابو عامر رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر چلا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  چار پائی پر تھے اور آپ پر ایک چادر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر چارپائی کے نشان تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آنے کی خبر دی اور ابو عامر کی خبر دی اور میں نے عرض کیا کہ آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا ، وضو فرمایا پھر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اے اللہ عبید ابو عامر کی مغفرت فرما ، اور میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا جائز ہے
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے 
لوگوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے طریقہ کو لازم قراردے رکھا ہے ، اس لازم قرار دینے کی وجہ سے یہ  بدعت ہے : اصلاح کی صورت یہ ہے کہ اس عمل کو چھوڑ دیا جائے اگرچہ فی نفسہٖ     }بذات  خود {جائز بھی تھا مگر’’ التزام مالا یلز م ‘ ‘  }غیر ضروری  کو ضروری   سمجھنا {  کے قاعدہ سے منع ہوگیا ۔
تعزیت کاجو طریقۂ مسنونہ لکھا ہے اس کے لئے تین دن شریعت میں ہیں ، تین دن سے زیادہ بیٹھنا منع ہے

 (وبالجلوس لھا) ای للتعزیۃ ۔۔۔الجلوس فی المصیبۃ ثلاثۃ ایام للرجال جاء ت الرخصۃ فیہ ولا تجلس النساء قطعاً

(فتاوی شامی کتاب الصلوۃ )

ترجمہ:
اور تعزیت کےلیے اہل میت کے ساتھ بیٹھنا درست ہے۔۔۔ اور مردوں کےلیے تین دن تک تعزیت کرنا گنجائش ہے اور عورتوں  کا تعزیت  کے لیے بیٹھنا درست نہیں ۔
اس میں تصریح ہے کہ تین دن بیٹھنے کی گنجائش صرف مردوں کے لئے ہے،عورتوں کو بیٹھنا منع ہے اورتین دن کے بعد مردوں کو بھی منع ہے۔
 وتکرہ بعدھا الالغائب

(فتاوی شامی کتاب الصلوۃ )

ترجمہ:
اور تعزیت تین دن کے بعد جائز نہیں البتہ دور رہنے والا شخص تین روز کے بعد آئے تو وہ تعزیت کر سکتا ہے۔
 اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو بھی تعزیت کے لئے بیٹھنا خلاف اولیٰ ہے اورعورتوں کے لئے تو ناجائز ہے ہی ۔
میت کے ورثاء کے پاس تعزیت کے لئے جانا صحیح ہے اور میت کے لئے دعائے مغفرت کرنابھی جائز ہے چاہے اجتماعی ہویاانفرادی۔ البتہ اس کاالتزام واہتمام درست نہیں کہ ہر شخص آتے وقت ایک دفعہ دعاکرے اور جاتے وقت دوبارہ دعاکرے۔
بار بار ہاتھ اٹھانا کہیں سے ثابت نہیں ہے بلکہ تعزیت کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کو صبر کی تلقین کی جائے اور میت کے لئے دعاء مغفرت کی جائے۔

التعزیۃ لصاحب المصیبۃ حسن ……ووقتھا من حین یموت الی ثلاثۃ ایام ویکرہ بعدھا ……ویستحب ان یقال لصاحب التعزیۃ غفراﷲ تعالی لمیتک وتجاوز عنہ وتغمدہ برحمتہ ورزقک الصبر علی مصیبتہ واجرک علی موتہ ……ولابأس لاھل المصیبۃ ان یجلسوا فی البیت اوفی المسجد ثلا ثۃ ایام والناس یأتونھم ویعزونھم۔

(فتاوی عالمگیری کتاب الصلوۃ باب فی الجنائز )

ترجمہ:
اور غم زدہ سے تعزیت کرنا اچھا عمل ہے اور تین دن تعزیت کرنا بہتر ہے اور اس کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے اور تعزیت کرنے والا ان الفاظ کے ساتھ تعزیت کرے (اللہ تعالی آپ کے میت کی مغفرت فرمائے اور اس سے درگزر والا معاملہ فرمائے اور اپنی رحمت سے اس کو ڈھانپ لے اور اللہ تعالی آپ کو اس تکلیف پر صبر عطاء فرمائے اور بہترین اجر عطاء فرمائے ۔
اور اہل میت سے گھر یا مسجد میں تین دن تک تعزیت کرنے کی گنجائش ہے لوگ آئیں اور تعزیت کریں ۔

 وبتعزیۃ اھلہ وترغیبہم فی الصبر ……وبالجلوس لھا فی غیر مسجد ثلا ثۃ ایام واولھا افضل وتکرہ بعدھا ……ویقول اعظم اﷲ اجرک واحسن عزاء ک وغفر لمیتک۔

(الدرالمختار مع ردالمحتار کتاب الصلوۃ )

ترجمہ:
اور میت کے گھر والوں سے تعزیت کرے اور ان کو صبر کی ترغیب دے ۔۔۔ اور تعزیت کےلیے مسجد کے علاوہ  تین دن تک بیٹھنے کی گنجائش ہے اور پہلے تین میں میں تعزیت کرنا افضل ہے اور اس کے بعد مکروہ ہے ۔۔۔اور تعزیت ان الفاظ کے ساتھ کرے ( اللہ تعالی آپ  کو بہترین اجر دے اور بہتری والا معاملہ کرے اور میت کی مغفرت فرمائے) ۔
خلاصہ:
            اہل خانہ سے تعزیت کرنا اور تین دن میں کرنا اور صبر کے کلمات کہنا اور میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا یہ صحیح طریقہ ہے اور تعزیت کے لیے مخصوص مسجد یا گھر جا کر لواحقین سے تعزیت کرنا ضروری نہیں۔ تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا فی نفسہ(بذات خود) جائز ہے لیکن جہاں اس کو لازم قرار دیا جائے وہاں اس کا چھوڑ دینا لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب