QuestionsCategory: نکاح و طلاقخلع دینے کے بعد خاوند کے انکار کا حکم
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ

زید اور اس کی بیوی کا نکاح ہوا۔ دونوں ایک عرصہ تک خوش وخرم زندگی گزارتے رہے۔ بعد میں دونوں کے درمیان جھگڑاہوتا رہا تو زید اپنی بیوی کو زد وکوب کرتااورانتہائی ظلم وستم سے پیش آتا۔ اس کی  بیوی نے کوٹ میں خلع کیلئے درخواست دائر کی۔ عدالت نے زید کو حاضری کے نوٹس بھیجے،  زید عدالت   میں حاضر ہوا۔ عدالت نے دونوں سے اس بارے میں پوچھا تو زید جج کے سامنے کمرہ عدالت میں خلع  دینے پر راضی ہوگیا کہ میں خلع دیتاہوں۔ زید کے اس بیان پر عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔  کمرہ عدالت سے باہر نکلنے  کے بعد بھی زید نے یہ بات کہی کہ میں نے اپنی بیوی  کو خلع دے دیاہے، اب وہ دوسری جگہ نکاح کرناچاہے تو کرسکتی ہے۔ اس بات کے کئی گواہ بھی ہیں۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ زید اپنی اس بات سے مکر گیاہے اور کہتاہے کہ میں نے خلع دینے کی  بات نہیں کہی۔

اب زید کی بیوی کے لئے کیا حکم ہے؟ آیا کہ  وہ دوسری جگہ بعد عدت گزارنے کے، نکاح کرسکتی ہے یانہیں؟

سائل:  غلام یاسین

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
اگر سوال میں ذکر کی گئی صورت حال حقیقت پر مبنی ہے کہ زید؛ جج کے سامنے عدالت میں خلع دینے پر راضی  تھا اور اس کی رضامندی ہی سے عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کی ہے تو اس صورت میں خلع واقع ہوگیا ہے۔ خلع شرعاً ایک طلاق بائن شمار ہوتا ہے۔ اس لیے   زید کی بیوی پر عدت گزارنا لازم ہے۔ اب اگر دونوں  راضی ہوں تو اس عدت کے دوران یا عدت گزرنے کے بعد دونوں کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے وگرنہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو عدت گزارنے کے بعد کر سکتی ہے۔
خلع دے چکنے کے بعد اب زید کا انکار کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، اس لیے  اس  کی بات کا  کوئی اعتبار نہیں۔ نیز  اگر یہ عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قانونا اس کے پاس  عدالت کی جاری کردہ خلع کی ڈگری موجود ہے جو اسے قانونی تحفظ مہیا کرے گی۔
 
امام شمس الدین ابو بكر محمد بن ابی سہل سرخسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والخلع جائز عند السلطان وغيره لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود. (المبسوط للسرخسی: ج6 ص310)
ترجمہ: حاکم وقت یا کسی دوسرے (مثلاً جج وغیرہ) کے ہاں خلع جائز ہے کیونکہ یہ (خاوند اور بیوی کا) ایک معاملہ ہے جو دیگر معاملات کی طرح باہمی رضا مندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔
 
امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والخلع تطليقة بائنة عندنا. (المبسوط للسرخسی: ج6 ص308)
ترجمہ: خلع کی حیثیت ایک طلاق بائن کی ہے۔
 
امام ابو الحسن علی بن ابی بكر بن عبد الجلیل رحمۃ اللہ علیہ (المعروف صاحب ہدایۃ) فرماتے ہیں:
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها. (الہدایۃ: ج2 ص10)
ترجمہ:  اگر طلاق بائن واقع ہوئی ہو  لیکن تین طلاقیں نہ ہوں تو  عورت کا خاوند اس سے عدت میں بھی اور عدت گزرنے کے بعد بھی (باہمی رضا مندی سے) نکاح کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء ،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا، پاکستان
12-  ربیع الاول 1440ھ
21-  نومبر 2018ء