QuestionsCategory: نمازطلوع شمس کے بعد ادا کی جانے والی نماز کا حکم
Mufti Shahid Iqbal asked 6 years ago

صبح کی نماز طلوع شمس سے پہلے شروع کی اور طلوع شمس کے بعد ادا کی تو نماز فاسد ہو جائے گی براہ کرم اس کے دلائل عقلیہ و نقلیہ کو ارسال فرمائیں ؟

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب وباللّٰہ التوفیق:
 اگر کسی آدمی نے فجر کی نماز شروع کی اور ابھی مکمل نہیں کی تھی کہ سورج نکل گیا تو اس آدمی کی نماز فاسد ہو جائے گی اور سورج نکلنے کے بعد جب تھوڑا بلند ہو جائے کہ اس کی زردی ختم ہو جائے اور  اس پر نظر نہ جم سکے تو اس وقت نماز  کی دوبارہ قضاء کرے،  اس نماز کا اعادہ کرنا اس آدمی پر واجب ہے۔
عن عقبۃ بن عامر الجہني قال: ثلاث ساعات کان رسول اللہ ﷺ ینہانا أن نصلي فیہن، وأن نقبر فیہن موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ، حتی ترتفع
سنن الترمذي، باب ماجاء في کراہیۃ الصلوۃ علی الجنازۃ عند طلوع الشمس وعند غروبہا، طبع ہندي 1/ 200، دارالسلام، رقم: 1030، سنن أبی داؤد، باب الدفن عند طلوع الشمس وعند غروبہا، طبع ہندي 2/ 454، دارالسلام، رقم: 3193، سنن النسائي، الصلوۃ، باب الساعات التي نہی عن الصلاۃ فیہا، طبع ہندی 1/ 65، دارالسلام، رقم: 560، 565، 2013
حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ ہم اپنے مردوں کو ان اوقات میں دفن کریں۔ سورج کے طلوع ہونے کے وقت جب تک کہ بلند ہو جائے۔
وکذا لا یتصور أداء الفجر مع طلوع الشمس عندنا حتی لو طلعت الشمس، وہو فی خلال الصلاۃ تفسد صلوتہ عندنا۔
بدائع الصنائع، کتاب الصلوۃ، باب بیان الوقت المکروہ، زکریا 1/ 329، کراچی 1/ 127
اسی طرح  ہمارے نزدیک سورج طلوع ہونے کے وقت نماز فجر  کی ادئیگی تصور نہیں کی جائے گی  جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جائے۔  اور ہمارے نزدیک سورج طلوع ہونے کے دوران نماز کی ادائیگی سے بھی نماز فاسد ہو جائے گی۔
الأوقات المکروہۃ نوعان: الأول: الشروق، والاستواء، والغروب ۔۔۔۔۔۔۔: فالنوع الأول: لا ینعقد فیہ شيء من الصلوات التي ذکرنا ہا إذا شرع بہا فیہ، وتبطل إن طرأ علیہا۔
شامي، کتاب الصلوۃ، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت، کراچی 1/ 373، زکریا دیوبند 2/ 34
مکروہ اوقات کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم:سورج نکلنے کا وقت، استواء یعنی سورج جب زوال کے وقت آکر درمیان میں رک جائے یہاں تک کہ ڈھل جائے   اور سورج غروب ہونے کے وقت۔
ولا یجوز أي لا یصح صلوۃ، أي فرض … عند طلوعہا، أي مع طلوع الشمس۔
شرح النقایۃ، کتاب الصلوۃ مکتبہ إعزازیہ دیوبند 1/ 55، 56
طلوع کے وقت نماز ادا کرناجائز نہیں  یعنی سورج طلوع ہونے کے وقت فرض نماز ادا کرنا صحیح نہیں۔
ولا یجوز الفرض عند طلوع الشمس۔
الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلوۃ، الفصل الأول فی المواقیت، زکریا 2/ 14، رقم: 1517
طلوع شمس کے وقت فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں۔
عقلی دلیل۔

  1. نماز کے واجب ہونے کا اصل سبب نماز کے وقت کا آنا ہے اور تمام وقت  کو نماز کا سبب نہیں بنا  سکتے  اس لئے وقت کے ایک جزء کو سبب بنائیں گے  اب اجزاء میں سے کسی جزء کو ترجیح دینے کی بجائے  اس جز ء  کو ترجیح دیں گے جو متصل باالاداء ہویعنی  تکبیر تحریمہ سے کچھ پہلے کا وقت اب چونکہ فجر کا کل وقت کا مل ہے اس کامل وقت کے اندر اندر نماز ادا کرنا ضروری ہے تب ہی نماز ادا ہو گی، لیکن اگر کسی نے ایک رکعت وقت کے اندر پڑھی اور دوسری رکعت کے وقت سورج نکل گیا تو  اس طلوع شمس  سے وقت میں نقص آ گیا جب وقت میں نقص آگیا  تو نمازادائے کامل سے ادائے قاصر کی طرف لوٹ جائے گی جب کامل وقت سے نماز ناقص وقت کی طرف جائے گی تو  اس طرح سے نماز  نہ ہو گی جس طرح نمازواجب ہوئی تھی تو فرض نمازباطل ہو  جائے  گی ۔
  2. طلوع شمس ایک آنی چیز ہے یعنی آفتاب کا ذرا سا کنارہ نکلتے ہی طلوع شمس پایا گیا اور اس میں کچھ وقت نہیں لگا ، بر خلاف غروب شمس کے کہ وہ  ایک امر زمانی  ہے کہ اس کی ابتداء اور انتہاء کے درمیان زمانہ پایا جاتاہے۔

ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ طلوع  شمس کے  وقت نماز ادا کرنا جائز نہیں اور اگر نماز ادا کرتے ہوئے سورج طلوع ہو گیا  تو اس صورت میں نماز فاسد ہو جائے گی اس کا اعادہ لازم ہو گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء
مرکز اہل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
13 ربیع الاوّل 1440 بمطابق 22 نومبر 2018