QuestionsCategory: نمازایک رکعت وتر پڑھنا
جواد صدیقی asked 5 years ago

السلام علیکم

مولانا صاحب کیا کبھی کبھار ایک رکعت وتر پڑھنا جائز ہے یا نہیں. یہ سوال اس لیے پوچھ رہا ہوں کیونکہ بعض صحابہ کا یہ عمل تھا. اور حدیث کا مفہوم ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنه ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرو گے فلاح کو پہنچ جاو گے.

زرا اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں حدیث کی روشنی میں حوالے کے ساتھ جزاک اللہ

1 Answers
Mufti Pirzada Akhound answered 4 years ago

الجواب حامداًومصلیاً
:           حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما:
                اس کے تین جواب ہیں ۔
جواب1:
حافظ ابن حجرعسقلانی  رحمہ اللہ فرماتے  ہیں:
 وتعقب بانہ لیس صرد کافی الفصل فیحتمل ان یرید بقولہ صلیٰ رکعۃ واحدۃ ای مضافۃ الی رکعتین مما مضیٰ ۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری۔ ج2ص385
 ترجمہ:
یہ حدیث ایک رکعت کے الگ پڑھنے پر صریح نہیں، کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہو کہ گزشتہ دو رکعتوں کے ساتھ ایک اور رکعت ملا کر تین وتر پڑھے ۔
وجہ یہ ہے کہ وتر (طاق) ہونا آخری رکعت پر موقوف ہے، جس کے ذریعے نمازی اپنی نماز کو وتر (طاق) بنائے گا، اس کے بغیر خواہ ساری رات بھی نماز پڑھتا رہے اس کی نماز وتر نہیں بن سکتی اس حقیقت کے اظہار کے لیے ایک دوسری تعبیر یہ اختیار فرمائی گئی الوتر رکعۃ من آخر اللیل وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں۔
جواب2:
الوتر رکعۃ من آخر اللیل بالکل ایسے ہی ہے جیسے حج کے بارے میں فرمایا گیا ہے
 الحج عرفۃ۔                                                                                                                                     )جامع الترمذی ج1ص178(
                اس کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفات کے بغیر حج کی حقیقت متحقق نہیں ہوتی، لیکن اس جملہ سے کوئی عاقل و سمجھ دار آدمی یہ مطلب ہرگز نہیں لے گا کہ حج کی پوری حقیقت بس وقوف عرفہ ہی ہے اس کے لیے نہ احرام کی ضرورت ہے اور نہ دوسرے مناسک کی، بعینہ اسی طرح الوتر رکعۃ من آخر اللیل کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی نماز کے ساتھ جب تک ایک رکعت کو نہ ملایا جائے تب تک وتر کی حقیقت متحقق نہیں ہوگی اس فرمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وتر کی پوری حقیقت ہی بس ایک رکعت ہے، اسی مفہوم کو دوسرے پیرائے میں یوں تعبیر کیا گیا ہے۔
صلوۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ فاذا خشی احدکم الصبح صلیٰ رکعۃ واحدۃ توتر لہ ما قد صلیٰ ۔
اس فرمان پاک کا واضح مطلب اور بے غبار مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ رات کو دو دو رکعت نماز پڑھنی چاہیئے جب صبح کے طلوع ہونے کا اندیشہ ہو تو آخری دو گانہ کے ساتھ ایک رکعت اور ملالے، جس سے اس کی نماز وتر بن جائے گی۔
جواب3:
خود حضرت عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی وتر کی تین رکعتیں ہیں
چنانچہ سیدنا عامر  الشعبی فرماتے ہیں:
 سالت ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنہم کیف کان صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فقالا ثلث عشرۃ رکعۃ ثمان ویوتر بثلاث، ورکعتین بعد الفجر۔
 سنن طحاوی۔ ج1ص136
ترجمہ:
                حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے میں نےپوچھا  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم رات کی نماز کیسے پڑھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا تیرہ رکعات نماز پڑھتے تھے  آٹھ رکعت نفل اور تین وتر اور دو رکعات فجرکے وقت
2:      حدیث حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ
1:            یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذاتی اجتہاد تھا صحیح حدیث کی رو سے مجتہد کو خطاء پر بھی اجر ملتا ہے۔
2:            اس حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت ماحول ایک رکعت پڑھنے کا نہیں بلکہ تین رکعت پڑھنے کا تھا ورنہ دیکھنے والا کبھی  اعتراض نہ کرتا۔
3:             علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دعہ ای اترک القول فیہ والانکار علیہ
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج11ص466
4:            علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 واما قولہ دعہ فانہ قد صحب وقولہ اصاب انہ فقیہ معناہ اصاب فی زعمہ لانہ مجتہد واراد بذالک زجر التابعین الصغار عن الانکار علی الصحابۃ الکبار لا سیما علی الفقہاء المجتہدین منہم۔
امانی الاحبار ج4ص252(
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان دعہ فانہ قد صحب  وہ اپنے گمان کے اعتبار سے درست ہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں  اس سے مقصد چھوٹے تابعین کا اکابر صحابہ پر  اعتراض پر تنبیہ کرنا ہے بالخصوص جو صحابہ میں سے مجتہد فقیہ ہیں۔
3:       حدیث حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ:
تلاش و بسیار کے باوجودحضرت  سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ایک رکعت والی وتر کی مذکورہ روایت صحیح بخاری  میں   نہیں مل سکی۔البتہ شرح معانی الآثار میں موجود ہے اور اس کا جواب امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے  وہ فرماتے ہیں
وان وترھم الذی کان رکعۃ رکعۃ انما ھو وتر بعد صلاۃ ،قد صلوا بینہ و بینھا بتسلیم فقد عاد ذلک الی قول الذین ذھبوا الی ان الوتر ثلاث
شرح معانی الآثار ،باب الوتر، ج 1ص 211
ترجمہ:
                ان کی وہ  وتر جو ایک ایک رکعت تھی وہ ایک رکعت ایسی ہوتی تھی کہ اس سے پہلے وہ ایک شفعہ پڑھ لیتے تھے (دو رکعت پڑھ کر ایک رکعت اور ملا کر تین وتر پڑھتے تھے )اس صورت میں یہی معلوم ہو گا کہ وتر تین رکعات ہیں ۔
4:            حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں
وان وترھم الذی کان رکعۃ رکعۃ انما ھو وتر بعد صلاۃ ،قد صلوا بینہ و بینھا بتسلیم فقد عاد ذلک الی قول الذین ذھبوا الی ان الوتر ثلاث
شرح معانی الآثار ،باب الوتر، ج 1ص 211
ترجمہ:
                ان کی وہ  وتر جو ایک ایک رکعت تھی وہ ایک رکعت ایسی ہوتی تھی کہ اس سے پہلے وہ ایک شفعہ پڑھ لیتے تھے (دو رکعت پڑھ کر ایک رکعت اور ملا کر تین وتر پڑھتے تھے )اس صورت میں یہی معلوم ہو گا کہ وتر تین رکعات ہیں ۔
5:       حدیث ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم
            ان حضرات سے تین رکعات کی روایات موجود ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا تو فتوی تین رکعات وتر کا دیا ہے
 عن  ابی منصورقال :سالت عبد اللہ  ابن عباس رضی اللہ عنہ عن الوتر قال ثلاث
شرح معانی الآثار ۔باب الوتر
ترجمہ:
                حضرت ابو منصور فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمیں نے وتر کے  متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ تین رکعات ہیں  ۔
خود حضرت عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی وتر کی تین رکعتیں ہیں
چنانچہ سیدنا عامر  الشعبی فرماتے ہیں:
 سالت ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنہم کیف کان صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فقالا ثلث عشرۃ رکعۃ ثمان ویوتر بثلاث، ورکعتین بعد الفجر۔
 سنن طحاوی۔ ج1ص136
ترجمہ:
                حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے میں نےپوچھا  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم رات کی نماز کیسے پڑھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا تیرہ رکعات نماز پڑھتے تھے  آٹھ رکعت نفل اور تین وتر اور دو رکعات فجرکے وقت
6:      حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ:
محدثین کرام کے ہاں اس روایت پر کلام ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے،
چنانچہ حافظ ابن حجرعسقلانی  رحمہ اللہ   فرماتے  ہیں:
 وصحح ابو حاتم والذہلی والدار قطنی فی العلل والبیہقی وغیر واحد وقفہ وھو الصواب ۔
 التلخیص الحبیر ج2ص13
ترجمہ:
ابو حاتم، ذہلی ،دار قطنی، نے علل میں اور بہت سے حضرات نے اس کو موقوفا صحیح کہا اور یہی درست ہے۔
یعنی صحیح اور درست بات یہ ہے کہ روایت بالا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  کا ذاتی قول ہے، حدیث مرفوع کی حیثیت سے صحیح نہیں ہے۔
جواب2:
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 
ہو معمول علی انہ کان قبل استقراءہا لان الصلوٰۃ المستقرۃ لا یخیر فی اعداد رکعاتہا ۔
 عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری۔ ج5ص215
                اس پر قرینہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں:
                 قال: الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس رکعات فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ومن لم یستطع الا ان یومی ایماء فلیفعل ۔
مصنف  عبدالرزاق۔ ج2ص295 رقم: 4645،باب کم الوتر
ترجمہ:
وتر ہر مسلمان پر حق ہے لہذا جو وتر پانچ رکعات پڑھنا پسند کرے  تو وہ پانچ رکعات پڑھے جو وتر تین رکعات پڑھنا پسند کرے  تو وہ تین  رکعات پڑھے جو وتر ایک  رکعت پڑھنا پسند کرے  تو وہ ایک رکعت پڑھےاور جو اشارہ کے ساتھ پڑھنے کی  طاقت رکھتا ہو وہ اشارہ کے ساتھ پڑھے ۔
 خلاصہ کلام :
مذکورہ حدیث اول تو مرفوع نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ذاتی قول ہے دوم، اس میں اضطراب ہے، بعض روایتوں میں پانچ تین ایک کاذکر ہے بعض میں صرف ایک کا اور بعض میں اشارہ تک کی اجازت دی گئی ہے، ایسی صورت میں یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر کے جواز کا فتوی دیتے تھے۔
آخری بات:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ایک رکعت وتر پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے بالکل ثابت نہیں۔
1:            حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام رافعی کےحوالے سے حافظ ابن صلاح کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
                لا نعلم فی روایات الوتر مع کثرتہا انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اوتر بواحدۃ فحسب ۔
 التلخیص الحبیر، ج2ص15
ترجمہ: 
وتر کی روایات کی کثرت کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ کسی روایت میں یہ آتا ہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صرف ایک رکعت وتر پڑھی ہو۔
2:            حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہی عن البتیراء ان یصلی الرجل رکعۃ واحدۃ یوتر بہا۔
 التمہید لابن عبدالبر، ج5ص275
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتیرا سے منع فرمایا  بتیرا کا  معنی یہ کہ آدمی ایک رکعت وتر پڑھے 
3:            حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: 
مااجزات رکعۃ واحدۃ قط ۔
 موطا امام محمد، ص150 ،باب السلام فی الوتر
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء مرکز اہلسنت والجماعت سرگودھا پاکستان
20ستمبر 2020 ءبمطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ