QuestionsCategory: نمازامام سے جھگڑا ہونے کی وجہ سے گھر نماز پڑھنا
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ ایک شخص مسجد میں عصر و مغرب کی نماز پڑھنے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسجد کو ڈھائی گھنٹے  دینے ہے جو تبلیغ والوں کی ترتیب ہے اور باقی نماز گھر میں پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ امام مسجد کے پیچھے میری نماز نہیں ہوتی اس مولوی صاحب سے میں نے جھگڑا کیا ہے اب اس کے نماز کا کیا حکم ہے جو امام کے پیچھے پڑی ہے اور جو گھر میں بغیر کسی عذر کے اکیلی پڑی ہے

سائل:عبد الصمد ۔خیبر پختونخواہ

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اگر امام سے ناراضگی کسی دینی وجہ سے ہو، یعنی امام فاسق یا ذمہ داری میں لاپرواہی کرتا ہو یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں کی رعایت نہ کرتا ہو تو ایسی ناراضگی قابل قبول ہے۔ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی۔
اور اگر ناراضگی دنیاوی دشمنی یا اغراض کی وجہ سے ہو تو ایسی ناراضگی قابل قبول نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے، بلکہ اس صورت میں مقتدی ناراض ہونے کی وجہ سے قابل ملامت ہے۔
البتہ دونوں صورتوں میں ناراض ہونے کے باوجود اس امام کے پیچھے نمازیں ادا کرنادرست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔بغیر عذر کے گھر نماز ادا کرنا درست نہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس گھر کو جلا دینے کی خواہش ظاہر کی لہذا مسجد میں نماز ادا کی جائے
عن أبی ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ہممت أن آمر فتیتي فیجمعوا لي حزماً من حطب ثم آتي قوما یصلون فی بیوتہم لیست بہم علة فأحرقہا علیہم“
(سنن أبی داوٴد۔ج1ص80)
”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند نوجوانوں سے کہوں کہ وہ بہت سا ایندھن اکٹھا کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاوٴں جو بلاعذر کے گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اورجاکر ان کے گھروں کو جاکر جلادوں“
امامت ایک عظیم الشان منصب ہے، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب