QuestionsCategory: میت وجنازہغائبانہ نماز جنازہ
Hashmatullah Meyakhel asked 5 years ago

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے متعلق۔

[۱]

غائبانہ نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت نجاشی کا جنازہ غائبانہ پڑھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت مدینہ میں تھے اور حضرت نجاشی حبشہ میں تھے۔

[۲]

کیا حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے؟

[۳]

کیا ائمہ اربعہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ،امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ میں سے کسی سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے؟

ازراہ کرم تشفی بخش جواب عنایت فرمایں

جزاک اللہ

المستفتی

میاخیل حشمت اللہ

جامعۃ العلوم الاسلامیہ پشاور

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب وباللہٰ التوفیق:حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ نہیں ہے ، اور نہ ہی وہ شرعی طور پر معتبر ہوگی ، اسلئے کہ نماز جنازہ کے صحیح ہونے کیلئے میت کا سامنے موجود ہونا شرط ہے ، اور و ہ شرط یہاں مفقود ہے اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی ؓ اور حضرت معاویہ بن معاویہ مزنیؓ کی جو نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی ہے اسکی وجہ یہی تھی کہ ان دونوں حضرات کاجنازہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا تھا، اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ادا فرمائی ہے ،کہ بظاہر غائبانہ ہے درحقیقت غائبانہ نہیں ہے ، اور اب یہ خصوصیت کسی کو حاصل نہیں ہے۔ نمازجنازہ کے لیے ضروری ہے کہ میت سامنے ہو۔ اگر میت سامنے نہ ہو تو غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک سے اب تک امت کا تواتر عملی یہی رہا ہے کہ میت جنازہ پڑھنے والے کے سامنے ہوتی ہے۔
اس ضمن میں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت اصمحہ (اصحمہ) نجاشی رحمہ اللہ کا جنازہ پڑھایا تھا اس کی حقیقت کیا تھی؟ آیا یہ غائبانہ تھا یا نہیں؟
اس بارے میں تمام روایات سامنے رکھتے ہوئے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ نمازجنازہ غائبانہ نہیں تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے معجزۃ ً حضرت نجاشی رحمہ اللہ کی میت رکھ دی گئی تھی اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی تصور کر رہے تھے کہ جنازہ سامنے ہے چند روایات اور محققین کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں۔
:1 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ تُوُفِّیَ فَصَلُّوْاعَلَیْہِ قَالَ فَصَفَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَصَفَفْنَا خَلْفَہٗ فَصَلّٰی عَلَیْہِ وَمَا نَحْسَبُ الْجَنَازَۃَ اِلَّا مَوْضُوْعَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ۔
مسند احمد ج15ص 98 رقم 19890
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے۔ اس پر جنازہ پڑھو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کھڑے ہوئے اور ہم نے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نماز پڑھائی۔ ہم یہی گمان کرتے تھے کہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے۔
:2 ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
وَھُمْ لَایَظُنُّوْنَ اِلَّا اَنَّ جَنَازَتَہٗ بَیْنَ یَدَ یْہِ
صحیح ابن حبان ص 872 باب ذکر البیان بان المصطفی ﷺ نعی الی الناس النجاشی الخ، رقم 3102،التمہید لابن عبدالبر ج3 ص 140 تحت رقم145،الاستذکار لابن عبدالبر ج3 ص 28 کتاب الجنائز
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی گمان کر رہے تھے کہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے۔
:3 یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ معجزۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دور کی اشیاء بلا حائل سامنے پیش کر دی جاتی تھیں۔ مثلاً جنگ موتہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنگ کا پورا نقشہ معجزۃ ً پیش کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے تھے کہ جھنڈا اب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس ہے، وہ شہید ہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
نصب الرایہ ج2 ص 292
اسی طرح معراج سے واپسی پر جب کفار مکہ نے بیت المقدس کے متعلق سوالات کیے تو بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا اور تمام حجابات ہٹادیے گئے
التمہید لابن عبدالبر ج3 ص138 تحت رقم 145
حضرت معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ان کاجنازہ پڑھنا پسند کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جی ہاں!انہوں نے اپنا پر زمین پر مارا جس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگیا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔
مسند ابی یعلی ج7 ص 258 رقم 4268
اسی طرح حضرت نجاشی کی میت بھی معجزۃ ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دی گئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لِاَنَّہٗ وَاللّٰہُ اَعْلَمْ… رُفِعَتْ لَہٗ جَنَازَتُہٗ کَمَاکُشِفَ لَہٗ عَنْ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ حِیْنَ سَألَتْہُ قُرَیْشٌ عَنْ صِفَتِہٖ۔
التمہید لابن عبدالبر ج3 ص138 تحت رقم 145
ترجمہ: کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نجاشی رحمہ اللہ کا جنازہ لایا گیا تھا جس طرح جب قریش نے بیت المقدس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا۔
:4 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم دور دراز کے علاقوں میں فوت ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں کسی غائب میت کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ معلوم ہو اکہ غائبانہ نماز جنازہ درست نہیں۔
:5 حضرت نجاشی کا جنازہ پڑھنا صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ محققین نے اس کے خصوصیت ہونے کی تصریح کی ہے۔
1: امام ابن ترکمانی

قَدْ قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ تُرْکَمَانَیُّ قُلْتُ وَلَوْ جَازَتِ الصَّلٰوۃُ عَلٰی غَائِبٍ لَصَلّٰی عَلَیْہِ عَلٰی مَنْ مَّاتَ مِنْ اَصْحَابِہٖ وَیُصَلّی الْمُسْلِمُوْنَ شَرْقًا وَغَرْبًا عَلَی الْخُلَفَاءِ الْاَرْبَعَۃِ وَغَیْرِھِمْ وَلَمْ یُنْقَلْ ذَالِکَ۔

 ترجمہ: امام ابن ترکمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر غائب پر نماز جنازہ جائز ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے جو بھی (دور دراز کے علاقوں میں) فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ ضرور پڑھتے اور حضرات خلفاء اربعہ وغیرہ پر مسلمان مشرق و مغرب میں (غائبانہ)جنازے پڑھتے، لیکن یہ بات منقول نہیں۔
الجوہر النقی علی سنن الکبریٰ بیہقی ج4ص51
:2 علامہ عبدالرحمن الجزیری

فَلاَ تَجُوْزُالصَّلٰوۃُ عَلَی الْغَائِبِ…بِاَتِّفِاقِ الْحَنْفِیَّۃِ وَالْمَالِکِیَّۃِ۔                                                                                      

 ترجمہ:   غائبانہ نمازجنازہ کے جائز نہ ہونے پر حنفیوں اور مالکیوں کا اتفاق ہے۔
کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ ج1 ص 474 باب شروط صلوۃ الجنازۃ
:3 علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587ه)
قال أصحابنا لا یصلی علی میت غائب وقال الشافعیؒ یصلی علیہ استدلالاً بصلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی النجاشی وہو غائب ولاحجۃ لہ فیہ لما بینا علی أنہ روی أن الأرض طویت لہ ولا یوجد مثل ذلک فی حق غیرہ الخ۔
بدائع، فصل فی صلاۃ الجنازۃ، قبیل فصل بیان کیفیۃ الصلاۃ علی الجنازۃ زکریا2/48، کراچی قدیم 1/312
4: امام یوسف بن عبداللہ بن محمد ابن عبدالبر
التمہید لابن عبدالبر ج3ص137,138
5: امام ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم الخطابی
معالم السنن للخطابی ج1 ص 270
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا۔ پاکستان
19 جمادی الاوّل 1440ھ مطابق 25 جنوری 2019