QuestionsCategory: مسالکشرمگاہ کو ہاتھ لگانے سےوضو کا حکم
زاہد علی asked 4 years ago

السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
کیا شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ اس بارے میں سنن ابی داؤد میں حدیث بھی ہے کہ جو اپنا ہاتھ اپنی شرمگاہ تک لے جائے وہ وضو کرے۔ اس کی وضاحت کر دیں۔ جزاک اللہ

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 4 years ago

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
 
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس موقف کے دلائل یہ ہیں:
[1]: عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ قَدِمْنَا عَلٰى نَبِىِّ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ كَاَنَّهُ بَدَوِىٌّ ، فَقَالَ: يَا نَبِىَّ اللهِ! مَا تَرٰى فِىْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَكَرَهُ بَعْدَ مَا يَتَوَضَّأُ فَقَالَ: “هَلْ هُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْهُ “. أَوْ قَالَ : “بَضْعَةٌ مِنْهُ .”
(سنن ابی داؤد: ج1 ص24 باب الرخصۃ فی ذلک)
ترجمہ: حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک آدمی جو دیہاتی لگتا تھا  اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ  اے اللہ کے نبی! اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد اپنے عضو تناسل کو چھوئے تو کیا اسے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ اس کے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔
 
یعنی جب یہ تمہارے جسم کا محض ایک ٹکڑا ہی ہے تو اس کو چھونا ایسا ہی جیسے بقیہ اعضائے جسم کو چھونا۔ انسان کا اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو چھونا ہے یا پھر اپنی ٹانگ، سر، ناک یا کسی بھی حصہ کو چھونا  ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی ایک حصہ کو چھولینا ہو۔ تو جس طرح جسم کے کسی اور عضو کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اسی طرح  شرمگاہ کو چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔
٭ یہ حدیث صحیح ہے۔
(الطحاوی- شرح معانی الآثار: ج1 ص 61 باب مس الفرج هل يجب فیہ الوضوء ام لا؟)
٭ ناصر الدین البانی صاحب نے اس روایت کو ”صحیح“ کہا ہے۔
(الالبانی- سنن النسائی باحکام الالبانی: تحت رقم الحدیث 165)
 
[2]: عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيْلَ، قَالَ: حَكَكْتُ جَسَدِيْ ، وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ، فَأَفْضَيْتُ إِلٰى ذَكَرِيْ ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ، فَقَالَ لِيْ:اِقْطَعْهُ وَهُوَ يَضْحَكُ ،  أَيْنَ تَعْزِلُهُ مِنْكَ؟ إِنَّمَا هُوَ بَضْعَةٌ مِنْكَ.
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج4 ص557  رقم الحدیث 9112)
ترجمہ: حضرت ارقم بن شرحبیل کہتے ہیں کہ میں نماز میں ہوتے ہوئے اپنے جسم میں خارش کرتا ہوں اور کبھی کبھی شرمگاہ کی خارش بھی کر لیتا ہوں۔ اس بات کاتذکرہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نےمسکرا کر  مجھے فرمایا: (اگر یہ اتنا ہی نجس ہے تو) اسے کاٹ ہی ڈالو، اس کو اپنے آپ سے کہاں دور کرو گے؟ ارے یہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔
٭ اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔ (نور الدین الہیثمی- مجمع الزوائد: ج1 ص244)
 
[3]: کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف یہ تھا کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ علامہ حسین بن مسعود البغوی (ت510ھ) لکھتے ہیں:
وذهب جماعة إلى أنه لا يوجب الوضوء ، روي ذلك عن علي ، وابن مسعود ، وعمار بن ياسر ، وأبي الدرداء ، وحذيفة ، وبه قال الحسن ، وإليه ذهب الثوري ، وابن المبارك ، وأصحاب الرأي.
(شرح السنۃ:ج1 ص264 باب الوضوء من مس الفرج)
ترجمہ: ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس موقف کے قائل حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود،  حضرت عمار بن ياسر، حضرت ابو الدرداء، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہی قول امام حسن بصری کا ہے اور اسی کے قائل امام سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارك اور دیگر فقہاء کرام رحمہم اللہ ہیں۔
 
سنن ابی داؤد کی روایت کی توجیہ:
سنن ابی داؤد کی روایت یہ ہے:
فَقَالَ مَرْوَانُ أَخْبَرَتْنِىْ بُسْرَةُ بِنْتُ صَفْوَانَ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ”.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص24 باب الوضوء من مس الذكر)
مروان کہتے ہیں کہ مجھے  صحابیہ رسول حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا تو وہ وضو کرے!
 
توجیہ نمبر۱: امام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث ( ت 275ھ)نے اس روایت کو  ”باب الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ“ میں نقل کیا اور ثابت کیا کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر اس کے متصل بعد ایک باب قائم کیا ”باب الرُّخْصَةِ فِى ذٰلِكَ“ اس میں حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے اور ثابت کیا کہ  شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی (ت 279ھ)نے بھی اپنی سنن میں پہلے ”باب ما جاء الوضوء من مس الذكر“ [شرمگاہ کو چھونے کی وجہ سے وضو کرنا] لائے ہیں اور اس کے متصل بعد ”ما جاء في ترك الوضوء من مس الذكر“  [شرمگاہ کو چھونے کی وجہ سے وضو کرنا لازم نہیں] لائے ہیں۔
علامہ  محی الدین ابو زکریا یحییٰ  بن شرف النووی (ت676ھ)  صحیح مسلم کی شرح  میں ایک قاعدہ ذکر کرتے ہیں:
وھذہ عادۃ مسلم وغیرِہ من ائمۃ الحدیث یذکرون الاحادیث التی یرونھا منسوخۃ ثم یعقبونھا بالناسخ.
 (شرح مسلم للنووی ج1ص156 باب الوضوء مما مست النار)
ترجمہ: امام مسلم اور دیگر ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی یہ عادت ہے کہ پہلے وہ احادیث ذکر کرتے ہیں جو ان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں، پھر ان احادیث کو لاتے ہیں جو ان کے ہاں ناسخ ہوتی ہیں۔
امام ابو داؤد اور امام ترمذی رحمہا اللہ حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو پہلے لائے اور حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت کو بعد میں لائے اور مستقل ابواب قائم کیے کہ شرمگاہ کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وضو ٹوٹنے والے حکم کی روایت پہلے دور کی ہے اور منسوخ ہے۔
 
توجیہ نمبر۲ : سنن ابی داؤد کی اس روایت میں شرمگاہ چھونے سے جو وضو  کا حکم ہے تو اس وضو سے مراد وضو لغوی ہے یعنی ”ہاتھ کا دھونا“، اس سے اصطلاحی وضو (نماز والا وضو) مراد نہیں۔  امام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامۃ الطحاوی (ت321ھ)  نے اس توجیہہ پر صحابی رسول حضرت سعد بن  ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بطور دلیل پیش کی ہے:
عن مصعب بن سعد قال : كنت آخذ على أبي المصحف فاحتككت فأصبت فرجي ، فقال: أصبت فرجك؟ قلت: نعم ، احتككت فقال: إغمس يدك في التراب ،  ولم يأمرني أن أتوضأ.
(شرح معانی الآثار: ج1 ص62 باب مس الفرج ھل یجب فیہ الوضوء ام لا؟)
ترجمہ: حضرت مصعب  بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مصحف پکڑایا، پھر میں نے اپنے جسم کی کھجلی کی تو میرا ہاتھ میری شرمگاہ کو لگ گیا۔ میرے والد صاحب نے مجھ سے پوچھا: کیا تمہارا ہاتھ شرمگاہ کو لگا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، لگا ہے۔ والد صاحب نے فرمایا: اپنے ہاتھ کو مٹی سے صاف کرو!  میرے والد صاحب نے مجھے وضو کا حکم نہیں دیا۔
اور ایک طریق میں یہ الفاظ ہیں:
قال: قم فاغسل يدك! (شرح معانی الآثار: ج1 ص62)
ترجمہ: میرے والد نے فرمایا: اٹھو اور اپنے ہاتھ کو جا کے دھو لو!
اس سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داؤد والی روایت میں بھی وضو سے مراد محض ہاتھ دھونا ہے، وضو اصطلاحی (نماز والا وضو) مراد نہیں ہے۔
 
توجیہ نمبر۳: سنن ابی داؤد کی اس روایت کا معنی یہ ہے کہ  اگر شرمگاہ کو چھونے سے شہوت پیدا ہو اور مذی خارج ہو جائے تب وضو ٹوٹے گا۔  اس معنی کی رو سے یہ روایت حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے متعارض بھی نہیں ہو گی۔
واللہ اعلم بالصواب
(مولانا) محمد الیاس گھمن