QuestionsCategory: حدیث و سنتاحادیث میں تہتر فرقوں کے ذکر سے مراد
Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff asked 3 years ago

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمی و مکرمی  متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے کہ ایک کلپ میں انجینئر محمد علی مرزا نے جو 73 فرقوں والی حدیث پر گفتگو کی ہے اس حدیث کے متعلق تحقیق مطلوب ہے؟

سائل:معظم علی۔تحصیل خوازہ خیلہ ،ضلع سوات

Molana Muhammad Ilyas Ghumman Staff replied 3 years ago

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوبِنْ عَلْقَمَہ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ تَفَرَّقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ،‏‏‏‏ وفي الباب عن سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جامع ترمذی۔کتاب الایمان ،رقم الحدیث: 2640
سنن ابی داود ۔رقم الحدیث :4596
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔
مذکورو روایت پر سب سے پہلے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کود حکم لگایا کہ یہ حدیث صحیح حسن ہے ۔محدثین نے اس کی اسنادی حیثیت کو بڑے احسن انداز سے بیان کیا ہے محدثین کرام کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ حدیث صحیح
المقاصد الحسنہ ۔حرف التاء المثناۃ ،ج1ص259
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
حدیث صحیح مشہور فی السنن والمسانید،وقد اخرجھا اکثر المحدثین منھم اصحاب السنن الا النسائی وغیرھم
مجموع الفتاوی۔ج3ص345
ترجمہ: یہ حدیث صحیح مشہور ہے امام نسائی اور کچھ اور محدثین کے علاوہ اکثر محدثین نے اس کو اپنی سنن میں نقل کیا ہے
امام حاکم حدیث ابوہریرہ نقل کرکے فرماتے ہیں ۔
ھذا اسانید تقام بھا الحجہ فی تصحیح ھذاالحدیث
المستدرک علی الصحیحین ۔ج1ص218
یہ اسانید ایسی ہیں کہ اس کی وجہ سے حدیث کو صحیح کہا جا سکتا ہے۔
اس روایت کے ایک راوی “محمد بن عمرو بن علقمة” کی توثیق ملاحظہ فرمائیں
الإمام ابن المبارك: قال: لم يكن به بأس.
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس راوی میں کوئی حرج نہیں
وسئل عن سهيل بن أبي صالح ومحمد بن عمرو بن علقمة فقال: محمد بن عمرو أعلى منه.
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا سہیل بن ابی صالح اور محمد بن عمرو بن علقمہ کے متعلق تو فرمایا کہ محمد بن عمرو بہتر ہیں۔
وقال ابن المديني: سمعت يحيى بن سعيد يقول: محمد بن عمرو أحب إلي من ابن حرملة.
امام علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ میں نے یحی بن سعید کو یہ فرماتے سنا کہ محمد بن عمرو ابن حرملہ سے زیادہ مجھے پسند ہے۔
قال النسائي : ليس به بأس ، امام نسائی فرماتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔
قال أبو حاتم: صالح الحديث . امام ابو حاتم فرماتے ہین اس کی احادیث صحیح ہیں ۔
قال عبد الله بن أحمد : سمعت ابن معين سئل عن سهيل والعلاء بن عبد الرحمن ، وعبد الله بن محمد بن عقيل ، وعاصم بن عبيد الله ، فقال : ليس حديثهم بحجة . قيل له : فمحمد بن عمرو ؟ قال : هو فوقهم .
امام عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں کہ میں نے ابن معین سے سہیل اور علاء بن عبد الرحمن اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل اور عاصم بن عبید اللہ کے متعلق سنا کہ ان کی حدیث حجت نہیں ہے اور محمد بن عمرو کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ تو ان سے بلند ہے۔
اس الفاظ کی حدیث اور کئی صحابہ سے مروی ہے ملاحظہ فرمائیں:
1: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے کچھ فرق کے ساتھ یہ روایت منقول ہے
المعجم الأوسط للطبرانی۔ج7ص175 ۔المعجم الكبير للطبرانی۔ج8ص273۔
2: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت مسندأبو يعلى ۔ج7ص32
3: حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
جامع ترمذي۔رقم الحدیث (2641) وقال حسن غريب
معلوم ہوا کہ یہ روایت درست ہے اور امام ترمذی نے خود اس پر صحت کاحکم لگا یا ہے لہذا اس پر ضعف کا حکم لگانا درست نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب