QuestionsCategory: فقہ و اجتہادسر ڈھانپنا
Abdul vazeed asked 5 years ago

Assalam walaikum..Sar Par topi lagana Ghair muqalid kay yeh sunnat hai ye faraz..? Daleel sey sabit karey jazakallahu khaira

سر پر ٹوپی لگانا غیر مقلد کے یہاں سنت ہے یا فرض دلیل سے ثابت کریں۔

جزاک اللہ خیرا

1 Answers
Mufti Pirzada Akhound answered 4 years ago

 غیر مقلدین کے   اکابر کا موقف یہی ہے  کہ  سر ڈھانپ  کر نماز  پڑھی جائے ، ننگے سر نماز پڑھنا  جیسا کہ آج  کل یہ رسم  عام پھیل رہی ہے ، اسے  غیر  مقلد اکابرین  نے  بھی بد رسم  ، ہر لحاظ سے  ناپسندیدہ  اور مکروہ لکھا ہے۔( ان  کےاقوال آگے  آرہے ہیں ) لیکن موجود  غیر  مقلدین   کا ایک بہت  بڑا طبقہ  ننگے  سر نماز  پڑھتا نظر آرہا ہے اور طرفہ  تماشہ  یہ کہ   اسے ”سنت“ سے  تعبیر  کرتا ہے ۔  اس  موقف پر ان کے عمل کے علاوہ کتب بھی ہیں جیسا کہ حال ہی  میں  شائع  ہونے والی  ایک کتاب”کون کہتا ہے  کہ ننگے  سر  نماز نہیں ہوتی“ مؤلفہ  عبدالرحمٰن  صاحب   غیر مقلد  کے چند   اقتباسات  ملاحظہ ہوں۔
1             ننگے  سر نماز پڑھنا  سنت رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   ہے ۔ (ص 14)
2             چاہیے  یہ تھا  کہ حنفی علماء  بھی کبھی کبھی  سر ننگے  جماعت  کرایا کریں  تاکہ  لوگوں  کو  اس سنت  صحیحہ کا  علم ہوجائے۔ (ص15)
3             اس مسئلہ  میں  وسعت ہے ،  سر ڈھانکنا بھی سنت  ہے  اور نہ  ڈھانکنا بھی سنت ہے۔ ( ص23)

غیر مقلدین کے شبہات

                غیر مقلدین   اس مسئلہ  میں چند  شبہات  پیش کرتے ہیں  اور احادیث  وآثار سے  غلط استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً

شبہ نمبر1:

                 حضرت  عمر وبن  ابی سلمہ  سے  روایت ہے :
                رایت  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یصلی  فی ثوب واحد مشتملاً بہ فی بیت  ام سلمۃ•

(بخاری ومسلم )

غیر مقلدین  کہتے  ہیں : عربی  میں ”اشتمال “ کا مطلب  یہ ہوتا ہے  کہ ایک چادر  بدن پر  اس  طرح  لپیٹی  جائے  کہ دائیں  طرف کا  کنارہ  بائیں طرف کے کندھے  پر لے جاکر  گردن  کے پیچھے  سےدونوں  کونوں  کو باندھ دیتے  ہیں۔ اس صورت  میں  ضرور  دونوں بازو  اور سر  بھی ننگا  ہوتا ہے۔

(کون کہتا ہے ؟:ص 15)

جواب نمبر1:

اس حدیث کا مطلب سمجھنے کےلیے ایک اور حدیث دیکھی جائے گی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

رأيته يصلي في ثوب واحد مُتَوَشِّحًا به•

(صحیح مسلم: رقم الحدیث518)

ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ ایک کپڑے کے دونوں کنارے اپنے اوپر الٹ پلٹ کیے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔
                اس حدیث  کے لفظ ”تو  شیخ“  کا  ایک معنی  یہ بھی  ہے کہ پورے  بدن  کو لمبے  کپڑے  سے  اس طرح  ڈھانپا جائے کہ سر پر بھی  یہ کپڑا آجائے۔ چنانچہ  البحر  الرائق میں ہے :

التَّوْشِيحُ أَنْ يَكُونَ الثَّوْبُ طَوِيلًا يَتَوَشَّحُ بِهِ فَيَجْعَلُ بَعْضَهُ على رَأْسِهِ وَبَعْضَهُ على مَنْكِبَيْهِ وَعَلَى كل مَوْضِعٍ من بَدَنِهِ

(البحر الرائق: ج2 ص44باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہا)

ترجمہ: ”توشیح“ کا مطلب یہ ہے کہ ایک لمبے کپڑے کو اس طرح لپیٹا جائے کہ اس کا کچھ حصہ سر پر ہو، کچھ دونوں کندھوں پر ہو اور (جہاں تک ممکن ہو)  بدن کے ہر حصہ پر ہو۔
 
المحیط البرہانی میں ہے:

قال نجم الدين في «كتاب الخصائل»: قلت لشيخ الإسلام: إن محمداً يقول في «الكتاب» لا بأس بأن يصلي في ثوب واحد متوشحاً به، وقال: مراد محمد أن يكون ثوباً طويلاً يتوشح به فيجعل بعضه على رأسه وبعضه على منكبيه، وعلى كل موضع من بدنه أما ليس فيه تنصيص على إعراء الرأس والمنكبين•

(المحیط البرہانی: کتاب الصلاۃ ، فی الفصل بین الاذان و الاقامۃ)

ترجمہ: امام نجم الدین النسفی اپنی تالیف ”کتاب الخصائل“ میں لکھتے ہیں: میں نے شیخ الاسلام ابو لحسن السُّغْدی البخاری سے پوچھا کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ نے اپنی تالیف ”الکتاب“ میں لکھا ہے کہ اگر نمازی ایک کپڑے کو توشیحاً لپیٹ کر نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں (اس کا مطلب کیا ہے؟) تو انہوں نے جواب دیا کہ امام محمد رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ  ایک لمبے کپڑے کو اس طرح لپیٹا جائے کہ اس کا کچھ حصہ سر پر ہو، کچھ دونوں کندھوں پر ہو اور (جہاں تک ممکن ہو)  بدن کے ہر حصہ پر ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر اور کندھے ننگے ہوں۔
لہذا اس دوسری حدیث سے معلوم ہو گیا  کہ  ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہیں تھی کہ سر ننگا رہے جیسا کہ غیر مقلدین نے سمجھ رکھا ہے بلکہ ایک کپڑے میں نماز  پڑھتے ہوئے سر بھی ڈھانپا جاسکتا ہے جیسا کہ توشیح کے معنی سے واضح ہوتا ہے۔

جواب  نمبر2:

                یہ بیان  جواز  کےلیے  ہے ۔ ملا علی قاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وھذا  کلہ  دلیل  لبیان الجواز •

(شرح مسند  بی حنیفۃ  لعلی القاری  ج1ص164)

ترجمہ: یہ بیان جواز کے لیے ہے۔

جواب  نمبر3

                 یہ مجبوری  کی حالت  تھی  کہ اس وقت  کپڑوں  کی قلت تھی  لوگ غریب تھے ۔ چنانچہ مسند احمد  میں حضرت  ابی بن کعب  سے روایت  ہے:

الصَّلَاةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ سُنَّةٌ كُنَّا نَفْعَلُهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُعَابُ عَلَيْنَا فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ إِنَّمَا كَانَ ذَاكَ إِذْ كَانَ فِي الثِّيَابِ قِلَّةٌ فَأَمَّا إِذْ وَسَّعَ اللَّهُ فَالصَّلَاةُ فِي الثَّوْبَيْنِ أَزْكٰى•

(مسند احمد  بن حنبل: ج15 ص472 رقم الحدیث21173)

ترجمہ: ایک کپڑ ے  میں نماز  ہم حضور  صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں  پڑھتے  تھے  لیکن  اس وقت  ہم پر  کوئی بھی عیب نہ دھرتا تھا ۔  حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  یہ اس  لیے تھا  کہ اس وقت  کپڑوں  کی قلت تھی (لوگ غریب تھے) لیکن  آج  کے دور میں  اللہ نے ہمیں وسعت  دی ہے  تو نماز دو کپڑوں میں بہتر ہے۔
                معلوم ہو اکہ اس مسئلے کا تعلق سر ڈھناپنے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق وسعت کے ساتھ ہے۔

جواب نمبر4:

                مناسب معلوم  ہوتا  ہے  کہ  خود غیر  مقلد عالم سے اس حدیث  کا طلب  بیان کر دیا جائے ممکن   ہے گھر کی  گواہی کے سامنے سر  تسلیم خم  ہوجائے۔ مولوی  محمد اسماعیل  سلفی  لکھتے ہیں:
                آنحضرتﷺ صحابہ کرامؓ اوراہل علم کاطریقہ وہی ہے جواب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہاہے کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کاجواز ثابت ہوخصوصاًباجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارک یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے عام ذہن کے لوگوں کو(فی ثوب واحد)اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز(ادا)کی جائے توسرننگارہے گاحالانکہ ایک کپڑے کواگر پوری طرح لپیٹاجائے تو سر ڈھکاجاسکتاہے۔غرض کسی حدیث سے بھی بلاعذرننگے سرنماز کی عادت اختیارکرناثابت نہیں محض بے عملی یابدعملی یاکس کی وجہ سے یہ رواج پڑرہاہے بلکہ جہلاتواسے سنت سمجھنے لگے ہیں۔

(فتاویٰ علماءحدیث ج4ص286تا289)

شبہ نمبر2:

                زیارت  بیت  اللہ  کے وقت  سر ننگا  رکھنا ضروری  ہوتا ہے جو دلیل خشوع ہے اور نماز میں بھی خشوع و  خضوع مطلوب ہے۔ لہذا نماز میں بھی سر ننگا رکھنا جائز  ہے۔

جواب:

                اس کے جواب  میں  ہم  ناصر الدین  البانی  صاحب   کی عبارت  پیش کرنا کافی سمجھتے  ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:

وأما استدلال بعض إخواننا من أنصار السنة في مصر على جوازه قياسا على حسر المحرم في الحج فمن أبطل قياس قرأته عن هؤلاء الإخوان كيف والحسر في الحج شعيرة إسلامية ومن مناسكه التي لا تشاركه فيها عبادة أخرى ولو كان القياس المذكور صحيحا للزم القول بوجوب الحسر في الصلاة لأنه واجب في الحج وهذا إلزام لا انفكاك لهم عنه إلا بالرجوع عن القياس المذكور ولعلهم يفعلون

(تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ: ج1 ص165)

ترجمہ: اور رہا مصر میں ہمارے سنت کے پیروکار بھائیوں کا ننگے سر کے جواز کو حج میں احرام والے شخص کے ننگے سر ہونے پر قیاس کرنا جو میں نے پڑھا ہے، بالکل باطل ہے اور یہ قیاس صحیح کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ حج میں ننگے سر رہنا اسلامی شعار ہے اور حج کے ان مناسک میں سے ہے کہ جن میں کوئی دوسری عبادت شریک نہیں ۔اور اگر مذکورہ قیاس صحیح ہوتا  تو پھر نماز میں  سر ننگا کرنے کاقول لازم ہو گا (نہ کہ محص جائز) کیونکہ حج میں (بحالت احرام) یہ واجب ہے اور یہ ایسا الزام ہے کہ ان لوگوں کے لیے اس سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اہنے مذکورہ قیاس سے رجوع کریں اور شائد کہ وہ اپنے قیاس سے رجوع کر لیں۔

شبہ نمبر 3:

                 خود فقہ  کی  کتابوں  میں ہے  کہ ننگے  سر نماز  پڑھنا  اگر خشوع کےارادے  سے ہو تو درست ہے ۔ مثلاًمنیۃ  المصلی  میں  ہے :

 وان  یصلی  حاسرا راسہ تکا سلاً ولا باس اذا فعلہ تذللاً وخشوعاً•

(منیۃ المصلی  فصل  کراھیۃ الصلاۃ)

ترجمہ:ننگے  سر نماز پڑھنا  اگر سستی  کی وجہ سے  ہے تو مکروہ  ہے  اور اگر  عاجزی  وخشوع  کےارادے سے پڑھے تو کوئی حرج  نہیں۔

جواب:

                غیر مقلدین  فقہاءکرام  کی ان عبارات کا  مطلب نہیں سمجھے  اس لیے  اس غلطی  کے مرتکب  ہوئے  ہیں۔ ہم شیخ  ابراہیم  حلبی (م956ھ) کی حلبی کبیر  شرح منیۃ  المصلی  سے  اس  کا مطلب  پیش کرتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں: ( ولا باس اذا فعلہ) ای  کشف الراس(تذللاً وخشوعاً) لان ذلک ھو المقصود الاصلی فی الصلوٰۃ وفی قولہ : لہ باس بہ  اشارۃ الی ان  الاولی ان لا یفعلہ وان  یتذلل ویخشع  بقلبہ  فانھما من افعال القلب•

(حلبی کبیر  ص 349 کراھیۃ الصلاۃ)

ترجمہ:اور اگر  عاجزی  او رخشوع  کی وجہ سے  ننگے  سر نماز  پڑھے  تو حرج نہیں اس لیے کہ عاجزی اور خشوع  ہی نماز  میں مقصود اصلی  ہے اور یہ جو فرمایا  کہ حرج نہیں  اس کہنے میں   اشارہ  ہے کہ افضل  یہی  ہے  کہ عاجزی  وخشوع  کی صورت  میں بھی  سر ننگا  نہ کرے  اور عاجزی  وخشوع  اپنے دل میں اختیار کرے کیونکہ  یہ  دونوں  دل کے اعمال ہیں۔
منیۃ المصلی  کی شرح   حلبی  صغیر  میں  ہے  : وفی  قولہ  لاباس  اشارۃ  الی ان  الاولیٰ ان  لا یفعلہ لان فیہ  ترک  اخذ الزینۃ الما مور بھا  مطلقاً فی الظاہر•

(حلبی  صغیر  : فصل کراھیۃ الصلاۃ)

ترجمہ: اور یہ جو  فرمایا  کہ  ”حرج  نہیں“  اس میں  اس طرف  اشارہ  ہے  کہ افضل  یہی  ہے کہ عاجزی  وخشوع  کی صورت  میں بھی سر ننگا  نہ کرے  کیونکہ  سر ننگا  کرنے  میں  اس  زینت  کو چھوڑنا لازم  آتا ہے  جس کا شریعت  کی طرف سے  بظاہر  ہر حال میں  حکم دیا گیا  ہے (یعنی خواہ خشوع  ہو یا نہ ہو) ۔
مطلب  یہ ہے کہ  خواہ  کسی  کی عاجزی  یا خشوع  کی نیت  ہو بھی تب بھی افضل یہی ہے  کہ نماز ننگے سر نہ پڑھے بلکہ  سر ڈھانپ  کر پڑھے  تاکہ  زینت  جس کا حکم  خد تعالیٰ نے  دیا ہے  کو ترک  کرنا  لازم نہ آئے۔

تنبیہ:

                یہاں  تو غیر  مقلدین  خشوع  کا بہانہ  کرکے ننگے  سر نماز  کے دعوے کر رہے  ہیں لیکن  قرآن  کی آیت ” الذین  ھم  فی صلاتھم خٰشعون“ میں  جب خشوع کا حکم  ہوتا ہے  اور  حضرت  ابن عباس  اور حضرت حسن بصری  اس کی تفسیر  عدم  رفع یدین   فی  الصلاۃ  سے کرتے  ہیں تو غیر  مقلدین  رفع یدین  کرنا شروع  کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی دورخی پالیسی  ہے؟

غیر مقلدین کا ایک عمومی و عوامی اشکال:

اگر ننگے سر نماز پڑھنا بے ادبی ہے تو پھر حج و عمرہ کرنے والے کو بھی بے ادب کہو کیونکہ وہ بھی ننگے سر ہوتا ہے۔

جواب:

شریعت اعمال بجالانے کا نام نہیں بلکہ اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا نام ہے۔ اگر اعمال اداءِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہیں تو دین ہیں اور اگر اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق نہ ہوں تو یہ دین نہیں ہے۔  مثلاً:
(1):        رمضان المبارک کے دنوں میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک نہ کھانے کا نام روزہ ہے۔ اگر کوئی  بندہ غروب آفتاب کے بعد بھی کھانے سے رک جائے تو یہ دین نہیں بلکہ موجبِ گناہ ہے، کیونکہ اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہے ۔
(2):        29 یا 30 رمضان تک روزے رکھنا اداء پیغمبر کے مطابق ہے اس لیے مطابق شریعت ہے ۔اگر کوئی شخص یکم شوال کو بھی روزہ رکھے تو یہ خلافِ شریعت ہے اس لیے کہ اداء پیغمبر نہیں۔
اب  اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں سر ڈھانپنا اور عمرہ میں سر ننگا رکھنا ہے۔ لہذا نماز میں سر ڈھانپنا اور حج و عمرہ میں سر ننگا رکھنا ہی عین ادب ہے کیونکہ ادء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہے۔ 
واللہ اعلم بالصواب
دارلافتاء مرکز اہلسنت والجماعت
سرگودھا پاکستان
17 ستمبر 2020 بمطابق ۲۹ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ